ہائے سفیر حسین غریب و بیکس و تنہا حضرت مسلم ابن عقیلؑ

تحریر: مولانا سید شمع محمد رضوی،مدیر قرآن و عترت فاونڈیشن

حوزہ نیوز ایجنسیحضرت مسلم علیہ السلام، حضرت علی کے بھائی حضرت عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین علیہ السلام اور کوفہ کا مسافر تھا۔واقعہ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو انہوں نے حضرت مسلم ابن عقیل کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں صورتحال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے حضرت مسلم بن عقیل[حضرت مسلم کو9 ذوالحج 60ھ]اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کروا دیا۔  جب امام حسین علیہ السلام نے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ جانے کا حکم دیا تو اس وقت وہ مکہ میں تھے۔ وہاں سے وہ مدینہ گئے جہاں انہوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دی پھر اپنے دو بیٹوں محمد اور ابراہیم جن کی عمریں سات اور آٹھ سال کی تھیں، انہیں ہمراہ لے کر کوفہ چلے گئے۔ کوفہ میں انہوں نے جناب مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر پر قیام کیا۔ کوفہ والوں نے ان کی بیعت شروع کی جن کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی۔ انہوں نے امام حسین  علیہ السلام کو خط لکھ دیا کہ کوفہ آنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب یہ خبر یزید تک پہنچی تو اس نے بصرہ کے عبید اللہ ابن زیاد کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد کوفہ پہنچ کر نعمان بن بشیر کی جگہ حکمران مقرر ہوں اور مسلم بن عقیل کا سر کاٹ کر یزید کے پاس بھیجیں۔ ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر گورنری سنبھالی تو حضرت مسلم بن عقیل امیر مختار کے گھر سے صحابیِ رسول درود حضرت ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔ ابن زیاد نے فوج کو انہیں پکڑنے کے لیے بھیجا تو حضرت ہانی بن عروہ جن کی عمر اس وقت 90 سال تھی،نےاپنےمہمان کوحوالہ کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت ہانی بن عروہ کو قید کر لیا گیا۔ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا تو انہیں باندھ کر پانچ سوکوڑوں کی سزا دی گئی جسکے دوران جب وہ بے ہوش ہو گئےتوانکا سرتن سےکاٹ کر لٹکا دیا گیا۔۔۔[روضہ الشہدا صفحہ 260 تا 276]

جنگ

حضرت ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد حضرت مسلم بن عقیل باہر آ گئے اور جنگ شروع کی مگر آہستہ آہستہ سب کوفیوں نے ساتھ چھوڑ دیا حتی کہ صرف تیس افراد ان کے ساتھ رہ گئے۔ مغرب کی نماز تک وہ بھی باقی نہ رہے۔ انہیں حضرت محمد ابن کثیر نے اپنے گھر میں پناہ دی۔ محمد ابن کثیر کے حمایتیوں کے ساتھ ابن زیاد کی فوج نے جنگ کی اور انہیں بھی شہید کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیل کوفہ سے باہر جانے کی کوشش کرنے لگے مگر شہر کے سب دروازے بند تھے۔ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے پانی مانگا۔ جب انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق خاندانِ رسالت سے ہے تو اس عورت نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ مگر اس عورت کے بیٹے طوعہ نے انعام کے لالچ میں مخبری کر دی۔ ابن زیاد نے تین ہزار فوج بھیجی تو حضرت مسلم بن عقیل گھر سے باہر آ کر لڑنے لگے اور بنو ہاشم کی تلوار بازی کے جوہر دکھائے۔ جب سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے تو ابن زیاد کے سالار ابن اشعش نے اور فوج کا پیغام بھیجا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہلا بھیجا کہ کیا ایک شخص کے لیے تین ہزار کی فوج بھی ناکافی ہے؟ تو ابن اشعش نے جواب بھجوایا کہ ‘یہ کوئی بقال یا کوئی اورنہیں بنو ہاشم کا چشم و چراغ ہے’۔ بعد میں ایک گڑھے میں مسلم بن عقیل کو دھوکے سے گرا کر گرفتار کر لیا گیا۔ [46خلاص المصائب صفحہ]

شہادت

جب حضرت مسلم کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے انہیں سزا دی کہ کوفہ کے دار الامار کی چھت سے گرا دیا جائے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے شہادت سے پہلے چند وصیتیں کیں جس کے بعد ان کو چھت سے گرا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 9 ذوالحج 60ھ کا ہے۔ شہید ہونے کے بعد ان کا سر کاٹ دیا گیا اور اسے یزید کو دمشق بھجوا دیا گیا اور جسم کو کوفہ کے قصابوں کے بازار میں دار پر لٹکا دیا گیا تاکہ کوفہ کے لوگ اب بنو ہاشم کی حمایت نہ کریں۔[حوالہ :روضہ الشہدا صفحہ 260 تا 276]۔

بچوں کی شہادت

ان کی شہادت کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے دونوں کم سن بچوں کو جو قاضی شریح کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، شہید کر دیا گیا۔  قاضی شریح نے کوشش کی کہ بچوں کو خفیہ طور پر مدینہ پہنچا دیا جائے مگر کامیابی نہ ہو سکی کیونکہ شہر کے تمام دروازے بند کر کے راستوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا  تھا۔ ان بچوں کے بھی سر کاٹ لیے گئے تھے۔ ایک کا نام محمد اور دوسرے کا ابراہیم تھا۔

کوفہ والوں کے خطوط

امام حسین علیہ السلام مدینہ سے خارج ہوکر مکہ تشریف لے گئے اور مکہ ہی میں مقیم تھے کہ بڑی تعداد میں اہل کوفہ کے خطوط موصول ہونا شروع ہوئے۔ ان خطوط میں امام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ آخری خط بھی موصول ہوا اور اہل کوفہ کے خطوط کے تعداد کئی ہزار ہوئی تو امام علیہ السلام مسجد الحرام میں رکن و مقام کے مابین کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا کی اور خداوند متعال سے خیر کی طلب کی اور اس کے بعد حضرت مسلم کو بلایا اور خطوط کا جواب تحریر فرمایا اور اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر لکھا: تمہاری بات یہی ہے کہ: “ہمارا کوئی امام نہیں ہے، ہماری طرف آجائیں شاید خدا آپ کی وجہ سے ہمیں ہدایت فرمائے اور ہمیں متحد کرے” میں اپنے بھائی اور ابن عم مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں جو میرے معتمد ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ تمہارے عقلا، فضلا کی رائے اور تمہارا مشورہ  وہی ہے جو تم نے خطوط میں لکھ بھیجا تھا تو میں بہت جلد تمہاری طرف آں گا…باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔

حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین   ،،دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل  نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ  اس جہاد میں شریک تھے  اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔حضرت مسلم بن عقیل وفاشعاری اور شجاعت و بہادری کا پیکر تھے۔ آپ نے وفا کے جذبے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے حضرت علی  نے پیغمبر اکرم ۖ کے ساتھ وفاشعاری کی زندگی بسر فرمائی تھی۔ اور حضرت علی  کی طرف ہی جنگی مہارتوں اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے جب کوفہ کے گلی اور کوچوں میں آپ کو یزیدی افواج نے گھیر لیا۔ شدت پیاس اور بے یارومددگار ہونے کے باوجود حضرت مسلم بن عقیل ہزاروں شامی فوجیوں کے مقابل تنہا ہوکر بھی مردانہ وار لڑے۔

آپ کی زندگی کے مطالعہ سے جہاں ہمیں دین اور دین کے رہبروں سے وفا کا سبق ملتا ہے وہاں حکومتی دبائو میں آکر وفاداریاں بدلنے والے اور بیعت سے ہاتھ اٹھالینے والے چہرے بھی بے نقاب ہوتے ہیں یہ تاریخ کا ایک اہم اور تاریک باب ہیں جن سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہذاہمیں حضرت مسلم بن عقیل   کی طرح اسلام اور اسلامی اقدار سے عملی وابستگی’ رہبر کی اطاعت’ دین کے تحفظ اور قربانی کے جذبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور دور حاضر کی یزیدی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔۔۔۔جناب مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام ے خط کے ساتھ کوفہ میں جناب مختار کے گھر پہنچے ، اس خط میں امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم کو اپنا بھائی اور مورد اعتماد قرار دیا تھا ۔۔۔  جس وقت کوفہ والوں کو جناب مسلم کے آنے کی خبر ملی تو ہزار افراد نے آکر جناب مسلم  کے ہاتھوں پر بیعت کی ، اور جب جناب مسلم   کو ان کی باتوں پر اطمینان ہو گیا تو آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط ہزار اہل کوفہ نے آپ کے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بیعت کر لی ہے لہذا خط ملتے ہی آپ کوفہ ے لئے روانہ ہو جائیں ۔۔۔۔۔امویوں نے جناب مسلم  کے اس عظیم استقبال کو دیکھتے ہوئے یزید کو خط لکھا  کہ اگرکو فہ
بچانا چاہتے ہو تو ایک دوسرا حاکم بھیجو۔

چنانچہ یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ  کا والی مقرر کیا  اور وہ بصرہ سے کو فہ آیا اور لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا جس کی وجہ سے اہل کوفہ نے جناب مختار کی حمایت کم کر دی اور جیسے جیسے عبیداللہ کا منحوس سایہ کوفہ پر پڑتا گیا جناب مسلم کے حامی کم ہوتے گئے ۔۔۔جب عبیداللہ نے ڈرا دھمکاکر اہل کو فہ کو مسلم سے دور  کر دیا تو جناب مسلم کی تلاش شروع کی اور جناب مسلم کا  پتہ بتانے والے و انعام و اکرام سے نوازنے کا وعدہ کیا ۔ جناب مسلم کے میزبان ہانی بن عروہ  کو دار الامارہ میں بلا کر سزا دی ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد کے ساتھ دارالامارہ،کا محاصرکیا لیکن عبیداللہ کی سازشوں کی وجہ سے لشکرکے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور لوگ جناب مسلم   کا ساتھ چھوڑنے لگے یہاں تک نماز مغرب و عشا کے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے۔ حضرت مسلم کی شہادت آخر کار کوفہ کی گلیوں میں عبیداللہ ے سپاہیوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا سپاہیوں کو واصل جہنم کیا لیکن بھو ک وپیاس کی شدت اور شدید زخموں کی وجہ سے مقابلے کی تاب نہ لا سکے۔ ایک سپاہی نے پیچھے سے نیزہ  مارا آپ زمین پر گر پڑے ۔ لشکر والوں نے آپ کو گرفتارکر لیا اور دارالامارہ لے گئے ، عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ آپ کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینک دیا جائے جس سے آپکی شہادت واقع ہو گئی  اس کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ علیھما کے سر اقدس کو یزید کے پاس بھیج دیا ۔

امام حسین علیہ السلام کوفے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک منزل پر نمازِ صبح باجماعت ادا ہوئی۔ نماز کے بعد آپ کی حالت یہ ہے کہ سر جھکائے بیٹھے ہیں، کسی سے بات نہیں کررہے۔ اصحاب پریشان ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ آج کیوں پریشان ہیں؟ ایک مرتبہ آپ نے خود ہی سر اٹھایا اور کہا بھائیو! ذرا کوفے کے راستے کی طرف دیکھتے رہو۔ اگر وہاں سے کوئی آنے والا نظر آئے تو میرے پاس لے آ۔  چند منٹ کے بعد ایک شخص نے کہا:آقا! مجھے ایک شخص دور سے نظر آرہا ہے کہ اس طرف آرہا ہے اور یہی کوفے کا راستہ ہے۔ آپ نے کہا کہ ہاں، اس شخص کو ذرا میرے پاس لے آ۔ آنے والے شخص نے دور سے جب قافلے کو اترتے ہوئے دیکھا اور ایک شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا تو راستہ کاٹنا چاہا۔ اتنے میں یہ گھوڑے کو دوڑا کر وہاں پہنچ گیا اور قریب پہنچ کر کہا: بھائی! تم ڈرو نہیں۔ وہ رک گیا اور کہا کہ کیابات ہے؟ اس نے کہا:ہمارا سردار تمہیں بلا رہا ہے۔ اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ذرا ہمارے سردار کے پاس چلو۔

اس نے کہا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ اس نے کہا کہ وہ امیرالمومنین کے فرزند، نواسہ رسول، حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ جو سنا تو وہ مطمئن ہوگیا اور کہنے  لگا کہ میں چلنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ دونوں روانہ ہوئے۔ وہ آ کر امام علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ نے سر اٹھایا، فرماتے ہیں:…..بھائی کدھر سے آرہے ہو؟ اس نے کہا : مولا ! میں کوفے سے آرہا ہوں۔ یہ جو سنا تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔

اس نے کہا: مولا! ذرا اٹھ کر الگ ہوں تو میں کچھ بیان کروں۔ آپ نے فرمایا:بھائی! گھبرا نہیں، یہ سب میرے اپنے ہیں۔ اس نے ایک مرتبہ اپنے سر سے عمامہ اتار کر زمین پر پھینکا اور کہا:آقا!میرے مولا حسین ! میں کوفے سے جب چلا ہوں تو یہ دیکھ کر چلا ہوں کہ مسلم کی لاش کوفے کی گلیوں میں پھرائی جارہی ہے اور مسلم کا سرکوفے کے دروازے میں لٹکا ہوا ہے۔یہ جو امام حسین علیہ السلام نے سنا تو بے ساختہ آنسو نکل آئے اور رونے لگے۔ تمام اصحاب اور عزیزوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے….جس وقت امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہانی کی شہادت کی خبر سنی تو آپ نے کئی مرتبہ یہ آیت پڑھی ” انا للہ وانا الیہ راجعون” اور جناب مسلم کے حق میں دعا کی-

تھوڑی دیر کے بعد امام علیہ السلام اٹھے، جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کے خیمے میں پہنچے۔ زینب بھائی کو اس طرح دیکھ کر گھبراگئیں۔ مگر کچھ پوچھا نہیں۔ فرمایا: میری بہن زینب !ذرا مسلم کی بیٹی رقیہ کو لے آ۔ یہ بچی پانچ ، چھ سال کی تھی۔ جب وہ لائی گئی، آپ نے زانو پر بٹھایا، اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا، اس کو پیار کیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن زینب ! وہ گوشوارے جو ہم نے کبھی دئیے تھے، ذرا ان کو لے آ۔ اپنے ہاتھ سے اس کے کانوں میں گوشوارے پہنائے، سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ بچی آخرخاندان اہل بیت سے تھی۔ کچھ گھبرا گئی اور پوچھنے لگی: چچاجان! میرے بابا تو زندہ ہیں؟ یہ شفقت تو آپ یتیموں کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں؟ فرمایا: بیٹی!  اگر تمہارا باپ زندہ نہیں تو حسین تو زندہ ہے۔ اس کے بعد حسین کو اپنا باپ سمجھنا۔

تبصرے
Loading...