پیکر خلوص و محبت مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی 

از قلم: مولانا ڈاکٹر شہوار حسین امروہوی 

حوزہ نیوز ایجنسی | ہندوستان میں ’’ خاندان اجتہاد‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ جس کی علمی، ادبی ، قومی سماج ی خدمات صدیوں پر مشتمل ہیں۔ اس خاندان کے علماء آسمان علم و ادب پر ہمیشہ درخشاں رہے جن کی ضوفشانی آج تک قابل استفادہ ہے اس خانوادہ کی درخشاں شخصیت مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی کی تھی 
آپ کی ولادت  ۲۲ جون ۱۹۳۹ء؁ کو لکھنؤ میں ہوئی آپ کے دادا قدوۃ العلماء مولانا سید آقاحسن جو اپنے عہد کے مجتہد اوربا عمل عالم دین تھے ۔ آپ کے والد مولانا سید کلب حسین عرف کبن صاحب بھی  بلند پایہ عالم تھے۔ 
مولانا نے اس علمی و ادبی خانوادے میں آنکھ کھولی جہاں ہروقت دینی مسائل زیر بحث رہتے اور قومی مسائل پر گفتگو رہتی تھی۔ بچپن ہی سے آپ نے اپنے اجداد کو قومی مسائل حل کرنے میں مصروف دیکھا جس کا اثر آپ کے ذہن  پر ہوا اور کمسنی ہی سے قومی مسائل میں دلچسپی لینا شروع کردی۔ جب سے آپ کا شعور پختہ ہو اگھر میں عبادت اور ذکر الٰہی کی آوازیں سنیں مکارم اخلاق کی تعلیم گھر کا شیوہ تھا۔ والد ماجد کی کردار سازی نے ہونہار فرزند کی تہذیب نفس میں چار چاند لگادئے اور آپ مکمل طور پر والد ماجد کے اوصاف حسنہ کا آئینہ بن گئے۔ 
ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد سے حاصل کیا اور  جامعہ سلطانیہ سے  صدر الافاضل کی سند حاصل کی ۔
  مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے نیز عربی ادب میں پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
آپ کو انگریزی تعلیم کا بھی بہت شوق تھا جو آپ نے احسن واسطی صاحب سے سیکھی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد خدمت دین میں مصروف ہوئے  خطابت و ذاکری کا بھی اعلی ذوق  رکھتے تھے آپ نے والد ماجد ہی کی حیات میں ذاکری کا آغاز کیا۔ وہ وہ دور تھا جب معروف ذاکرین اپنی جواہر ریزیاں کرنے میں مصروف تھے۔ آپ نے اپنی اعلیٰ صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر طرز ذاکری میں جدت پیدا کی اورعصری تقاضوں کو ملحوظ  رکھتے ہوئے  قومی مسائل کو مجالس میں بیان کرنا شروع کیا۔ آپ نے آیات قرآنی و احادیث و تاریخ کے علاوہ جدید علوم ، عصری مسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اہم پہلوؤں کو شامل کرکے اپنا راستہ الگ متعین کیا جس میں آپ کو کافی کامیابی ملی یہ طرز ملک وبیرون ملک بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ آپ کا یہ طرز ذاکری بہت زیادہ مقبول ہوا جس کے نتیجے میں آپ پاکستان کے علاوہ مشرق بعید، مشرق وسطیٰ یورپ  امریکہ، افریقہ وغیرہ میں مجالس خطاب کرنے جانے لگے۔ آپ اپنی مجالس میں قوم کے نوجوانوں  کو خطاب کرکے انہیں دینی تعلیم  کے ساتھ عصری علوم حاصل کرنے کی رغبت دلاتے   تھے  آپ نے فرمایا
’’ اس ترقی یافتہ دور میں ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ خود بھی علم کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور اپنے بچوں کو بھی بہتر سے بہتر تعلیم دلوائے کیوں کہ موجودہ صدی سائنس اورٹیکنالوجی کی صدی ہے اور اگر ہم اس کے تقاضوں کی طرف سے غافل رہے تو ہماری ہلاکت اورتباہی یقینی ہے۔ یہی اس قوم کے معزز علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منبروں پر بیٹھ کر مخاصمت اور غیبت کا راستہ اپنانے کے بجائے اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو علم کی تبلیغ پر صرف کریں مگر اس بات کا لحاظ رکھیں کہ علم کی اس ترویج اور توسیع کا سلسلہ راست گوئی اور اخلاقی قدروں سے وابستہ ہو‘‘
آپ اپنی مجالس میں امن، اتحاد اور اخوت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے  قوم کے درمیان اتحاد ہونے کے ساتھ اتحاد المسلمین کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ آپ کی نگاہ میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت تھی  آپ وقت مقررہ پر اپنا خطاب شروع کردیتے تھے خواہ ایک دو سامعین ہی کیوں نہ ہوں۔ 
آپ نے قولاً – عملاً غیر اسلامی رسومات کی کھل کر مخالفت کی جو اسلامی معاشرہ کی تباہی اور بربادی کا سبب تھیں  مثلاً شادی بیاہ کے موقعوں پر فضول خرچی، بڑے پیمانے پر سجاوٹ آرائش ،روشنی، آتش بازی ، بے پردگی، زیادہ جہیز کالین دین وغیرہ ایسی رسمیں ہیں جو معاشرہ کے لئے ناسور ہیں آپ نے ان تمام خرافات کے خلاف بے لاگ تبصرہ فرمایا اور قوم میں بیداری پیدا کی۔ 
۱۹۸۶ء؁ میں برادر بزرگ مولانا سید کلب عابد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ لکھنؤ کی عزاداری کی بازیابی کے سلسلے میں بھی کوشاں رہے حکومت کے ذمہ داروں سے گفت و شنید کرتے رہے اور بالآخر یہ سعی ثمر آورہوئی۔ اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں بھی آپ نے متعدد تحریکیں چلائیں جس کے سبب کافی حد تک لکھنؤ میں اوقاف کا تحفظ ممکن ہوپایا ۔ 
تعمیری خدمات: آپ نے ۱۹۸۰ء؁ میں توحید المسلمین ٹرسٹ کی بنیادڈالی جس کا مقصد قوم کے ذہین اور معیاری بچوں کو ٹرسٹ کے ذریعہ مالی امداد فراہم کرنا تاکہ وہ معیاری اور اعلیٰ تعلیم اچھی درسگاہوں میں حاصل کرسکیں۔ قوم کے ایسے افراد کو تعلیم سے آشنا کرانا جو علم کی افادیت سے محروم ہیں۔ جاہل معاشرہ کے افراد کو پارٹ ٹائم تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا۔ 
یونٹی کالج : توحید المسلمین ٹرسٹ کے زیر سایہ ارتقائی سفر طے کرنے والی درسگاہ کا آغاز ۱۹۸۷ میں ’’یونٹی پرائمری اسکول‘‘ کے نام سے لکھنؤ میں ہو ا جو گیارہ بارہ سال کی مدت میں’’ یونٹی ڈگری کالج‘‘ بنا  اس کے تین سیکشن ہیں (۱)انٹر سیکشن (۲) ڈگری سیکشن(۳) لاء ڈگری سیکشن۔
یونٹی کالج کی شاخیں مصطفیٰ آباد رائے بریلی، اور الہ آباد میں بھی قائم کیں ۔ آپ نے فیض آباد میں بہوبیگم یونٹی اسکول قائم کیا۔ 
توحید المسلمین ٹرسٹ کے زیر اہتمام لکھنؤ میں امام زین العابدینؑ اسپتال قائم کیا جو ۱۹۹۷ء؁ سے بدستور اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ 
ایراز لکھنؤ میڈیکل کالج: آپ کا اہم کارنامہ ہے۔  مختصر مدت میں ۳۵۰ بیڈ کا اسپتال بن کر تیار ہوجانا اور سرکار سے منظوری حاصل کرلینا یقینا بڑا کارنامہ ہے۔جس کی  عمار ت بھی  نہایت خوبصورت اور وسیع ہے۔ 
آپ نے ۱۹۹۴ء؁ میں مدینۃ العلوم علی گڑھ کا قیام کیا جس میں قوم کے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا گیا۔ اس کی عمارت بھی دیدہ زیب اور کشادہ ہے اس کے علاوہ جد امجد کی یادگار حسینیہ غفرانمآب کی تعمیر جدید میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس میں ناجائز قبضوں کو ہٹوایا یہ وہ خدمات ہیں  جن کا علم ہم کو ہو پایا ہے نامعلوم کتنی ایسی خدمات ہوں گی جو پردہ خفا میں ہیں۔ 
آپ پیکر خلوص ومحبت تھے چھوٹوں سے بھی انتہائی محبت اور شفقت سے ملتے تھے جب بھی میری کوئی نئی تالیف منظر عام پر آتی تھی تو فورا فون کرکے ہمت افزائی فرماتے تھے چھوٹوں کی ترقی سے بہت خوش ہوتے تھے مجھ سے فرمایا آپ شخصیات پر کام کررہے ہیں اسی موضوع پر کام کرتے رہے کیونکہ یہ موضوع تشنہ ہے افسوس ایسا شفیق عالم ۸ ربیع الثانی ۱۴۴۲ مطابق ۲۴ نومبر ۲۰۲۰ کو  ہم سے جدا ہو گیا جن یاد تا دیر ستاتی رہے گی
تالیفات: (۱) تاج شکن (۲) نیویارک سے قم تک ۔مجالس کے مجموعے،  قرآن اور سائنس ، اسلام دین حق، خطبات نماز جمعہ، اسلام میں علم کی اہمیت  ۔وغیرہ

تبصرے
Loading...