نہج البلاغہ صدائے عدالت

ترجمہ و تفسیر: محمد سجاد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی

قَال علي (علیہ السلام):كُنْ فِي الْفِتْنَةِ كَابْنِ اللَّبُونِ، لاَ ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ، وَلاَ ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:فتنے میں اونٹ کے اس دوسالہ بچے کی طرح ہوجاؤ کہ جس کی نہ پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔

حصہ اول: شرح الفاظ

1۔ الْفِتْنَة:
یہ کلمہ اصل میں “فتن” سے مشتق ہوا ہے۔ جس کے معنی سونے کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر پگلا کر خالص سونے کو اشیائے اضافی سے الگ کرنے کے ہیں۔(مفردات راغب/ 371)

اسی مناسبت سے یہ کلمہ ہر اس جگہ جہاں سختی، شدت، فشار اور مشکلات پائی جاتی ہو، استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصیبت، امتحان، عذاب، فریب اور شرک وغیرہ کے لئے بھی آیات اور روایات میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

2۔ ابْنِ اللَّبُونِ
یہ کلمہ در واقع دو کلمات “ابن” (بچہ) اور “لبون” (دودھ دینے والی اونٹنی) سے مرکب ہے۔لہذا “ابن لبون” دودھ دینے والی اونٹنی کے اس بچے کو کہتے ہیں جو دوسال پورے ہونے کے بعد تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ اور وہ اس عمر میں نہ سواری کے لائق ہوتا ہے اور نہ اس کے تھن ہوتے ہیں کہ جن سے دودھ دوھا جائے۔

3۔ ظَهْرٌ: پیٹھ،پشت، کمر۔

4۔ يُرْكَب: “الرکب” سے مشتق ہے۔ جس کے معنی سوار ہونا کے ہے۔

5۔ ضَرْعٌ: تھن، پستان۔

6۔ يُحْلَب: “الحلب” سے مشتق ہے۔ جس کے معنی دودھ دوھنے کے ہے۔

 حصہ دوم: سلیس ترجمہ

فتنے میں اونٹ کے اس دوسالہ بچے کی طرح ہوجاؤ کہ جس کی نہ پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔

 حصہ سوم: شرح کلام

قرآن، نہج البلاغہ اور دیگر روایات و احادیث میں فتنہ کے مشتقات کے استعمال کے موارد کو ملاحظہ کرنے کے بعد ایک نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر فتنہ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

اول: یہ کہ فتنہ سے مراد وہ حوادث اور امور ہیں جو خداوند عالم کے حکیمانہ اور مدبرانہ نظام ھستی کا حصہ ہے۔ جسے آزمائش اور امتحان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔

اسی لئے مولا(ع) اس قسم کے فتنوں سے پناہ چاہنے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ اس قسم کے فتنے در واقع سنن الہی ہیں۔ جن سے فرار نا ممکن  ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

“لَا یَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بکَ مِنَ الْفِتْنَةِ ـ لِأ‌َ نَّهُ لَیْسَ أَحَدٌ إِلَّا وَ هُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ ـ وَ لَکِنْ مَن‌ِ اسْتَعَاذَ فَلْیَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّات‌ِ الْفِتَن‌ِ… “

“تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ “اے اللہ! میں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناہ چاہتا ہوں” اس لئے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو فتنہ کی لپیٹ میں نہ ہو، بلکہ جو پناہ مانگے وہ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ مانگے۔۔۔” (کلمات قصار: 93)

دوم: وہ حوادث و اتفاقات جو مختلف معاشروں میں کبھی کبھی حق و باطل کو باہم مخلوط کرنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ اور ان حوادث کو وجود میں لانے والے اس طرح سے نقشہ کھینچتے ہیں کہ عام لوگوں کے لئے حق و باطل کی تشخیص مشکل ہوجائے۔ اور اس غبار آلود ماحول کو اپنی نفسانی خواہشات کا جولانگاہ بنادے، اس طرح بہت سارے انسان ان کی سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

لہذا امام عالی مقام(ع) اسی قسم کے فتنے کے بارے میں خطبہ 50 میں یوں فرماتے ہیں:

“انَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ أَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّهِ وَ يَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ وَ لَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ وَ لَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِهِ وَ يَنْجُو الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْحُسْنى.”

“فتنوں کے وقوع کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ نئے ایجاد کردہ احکام کو جن میں قرآن کی مخالفت کی جاتی ہے اور جنہیں فروغ دینے کے لئے کچھ لوگ دین الہی کے خلاف باہم ایک دوسرے کے مددگار ہوجاتے ہیں تو اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا، تو ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا۔ اور اگر حق باطل کے شائبہ سے پاک و صاف سامنے آتا، تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہوجاتیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کے لیے توفیقات الہی اور عنایت خداوندی پہلے سے موجود ہو۔”

مذکورہ کلام میں فتنہ سے مراد

فتنہ کے مجموعی دو قسموں کو بیان کرنے کے بعد اب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مولا کے اس کلام میں فتنہ سے کیا مراد ہے؟

مذکورہ کلام میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کلام میں فتنے سے مراد یقینا فتنے کا دوسرا معنی ہے۔ یعنی وہ حوادث اور اتفاقات ہیں جو حق و باطل کو باہم مخلوط کرنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔

اور چونکہ فتنے میں ہمیشہ دو طرف یا دو گروہ ہوتے ہیں اس لئے فتنہ کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ یا دونوں طرف اہل باطل ہیں۔
2۔ یا ایک اہل حق اور دوسرا اہل باطل۔

 دو باطل قوتیں

ہر وہ اختلاف جہاں دونوں طرف اہل باطل ہوں فتنہ نہیں کہلاتا۔ بلکہ دو اہل باطل گروہوں کے اختلاف کو فتنہ اس وقت کہہ سکتے ہیں جب یہ دونوں گروہ یا ان میں سے ایک لوگوں سے حمایت حاصل کرنے کے لئے یا کسی اور وجہ سے اپنی اصلیت کو لوگوں سے چھپائے اور حق کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں آئے۔ کہ اس طرح عوام کو دھوکہ دے سکیں۔ تو ایسی صورتحال کو فتنہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں اہل باطل نے حق کا نقاب اوڑھا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے لئے باطل کی شناخت مشکل ہوگئی ہے۔

 حق و باطل قوتیں

اسی طرح ہر حق و باطل کے اختلاف اور لڑائی کو بھی فتنہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔  بلکہ حق و باطل کی لڑائی اور اختلاف کو اس وقت فتنہ کہا جائے گا جہاں باطل حق کا لبادہ اوڑھے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو اہل حق دکھانے کی کوشش کرے۔ کہ جس طرح لوگوں کے لئے حق و باطل کی شناخت مشکل ہوجائے۔ تو یہ فتنہ کہلائے گا۔ ورنہ اگر حق اور باطل دونوں گروہ کی حقیقت اور اصلیت لوگوں پر واضح ہو اور باطل اپنے اصلی چہرے کے ساتھ میدان میں آئے تو اسے فتنہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

اور بات بھی واضح رہے کہ فتنہ کی کوئی ایسی صورت کا تصور ممکن نہیں ہے جس میں دونوں طرف اہل حق ہوں۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ دو گروہ آپس میں اختلاف کریں اور ہر ایک کا دعوا ہو کہ ہم حق بجانب ہیں۔ یقینا ان میں سے فقط ایک حق بجانب ہو سکتا ہے دونوں نہیں۔

فتنہ میں ہماری ذمہ داری :

جیسا کہ مولا امیر المومنین نے  فرمایا ہے کہ فتنے کی پہلی صورت (آزمائش) سے تمہاری جان نہیں چھوٹ سکتی، پس اس سے بچنے کے لیے خدا کی درگاہ میں پناہ مت مانگو بلکہ فتنے کی گمراہیوں اور اس کے خطرات سے بچنے کے لیے خدا کی درگاہ میں پناہ مانگو.

لہذا فتنے کی پہلی قسم سے تو ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی لیکن ممکن ہے فتنے کی دوسری قسم کا بھی ہمیں سامنا کرنا پڑے ایسی صورت میں بھی فتنے سے فرار ممکن نہیں ہے. تو ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہماری کیا ذمہ داری ہے؟   اس ذمہ داری کو سمجھنے کے لیے ہمیں امام کے اپنے فرامین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا.

فتنے سے متعلق امام کے تمام کلمات کا مشاہدہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ہم پر تین ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.

1۔ گفتگو اور تبین کے ذریعے اہل فتنہ کو فتنہ وآشوب سے ہاتھ اٹھانے کی ترغیب کرے. پھر بھی ہٹ دھرمی دکھائے اور سیدھا راستہ اختیار نہ کرے تو ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے. جس کی وضاحت آگے کرینگے. جیسا کہ امیر المومنین نے خوارج کے فتنے میں پہلے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ان کی فتنہ گری حد سے بڑھ گئی تو آپ نے پھر سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا.

2۔ جب سمجھانے اور روشن گری کی کوشش ان فتنہ گروں پر کوئی اثر نہ کرے تو پھر دوسرے مرحلے میں ان فتنہ گروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ایک مومن کی ذمہ داری ہے.
نہ خود فتنے میں گرفتار ہو جائے اور نہ ہی فتنہ دیکھ کر اپنا دامن بچاتے ہوئے گوشہ نشین ہو جائے. بلکہ کھل کر فتنہ اور اہل فتنہ کا مقابلہ کرنا ایک مومن انسان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے.
اسی لئے امیر المومنین نے فتنے کا مقابلہ کرنے کا یوں دستور دیا:
أَيُّهَا النَّاسُ شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ …
“نجات کی کشتی سے فتنے کی موجوں کو چیر پھاڑو۔۔۔” (خطبہ: 5)

3۔ اگر کبھی انسان فتنے میں اسطرح گرفتار ہو جائے کہ اسے حق اور باطل کی تمیز کرنا ناممکن ہو کر رہ جائے اور سرگردانی کا شکار ہو جائے تو کم ترین کام جو انسان کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ فتنے کو سہارا دینے والوں، مدد کرنے والوں اور اہل فتنہ کے ہاتھوں استعمال ہونے والوں میں خود کو شامل نہ کریں. لہذا آپ نے فرمایا کہ اگر تم فتنے کے موجوں کو چیرتے ہوے قلب فتنہ سے حق کوکی نورانیت کو اجالا نہیں کر سکتے ہو تو کم از کم باطل اور اہل فتنہ کے لیے سواری دینے والے اور مدد کرنے والے مت بنو.

فرمایا:
“فتنے میں اونٹ کے اس دوسالہ بچے کی طرح ہوجاؤ کہ جس کی نہ پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔”

تو کم سے کم  تمہارا کردار اونٹ کے اس بچے جیسا ہونا چاہئے جو دو سال پورا کرنے کے بعد تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو کہ نہ اہل باطل تم پر سوار ہو کر اپنے مقاصد حاصل کر سکیں اور نہ ہی تمہاری جان و مال اور شخصيت سے فتنہ گری میں استفادہ کر سکیں.

ایک جگہ آپ نے اسی کردار کی مثال دیتے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جنہوں نے فتنوں میں آپ کو تنہا چھوڑا اور آ پ کے دشمنوں اور فتنہ گروں کا بھی ساتھ نہیں دیا. 

خَذَلُوا الْحَقَّ، وَلَمْ یَنْصُرُوا الْبَاطِلَ.

 “انہوں نے کو تنہا چھوڑا اور باطل کی بھی مدد نہیں کی۔” (کلمات قصار: 18)

اس کا مطلب یہ نہيں کہ انہوں نے کوئی اچھا کام کیا، نہیں۔ بلکہ حیران و سرگردان ہونے کی صورت میں کم ترین کام یہ ہے کہ گوشہ نشین ہو جائے ورنہ پوری کوشش کرنی چاہیے کہ تحقیق و جستجو کے ذریعے حق و باطل کی شناخت حا صل کرے اور پوری قدرت کے ساتھ حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کرے.

فتنہ سے مقابلے کی راہیں:

کسی بھی معاشرے میں جب فتنے کے آثار نمایاں ہونے لگے تو جو مرحلہ وار انسان کی ذمہ داری بنتی ہیں، پچھلے صفحات میں ہم نے ان کی مختصر وضاحت پیش کرنے کی کوشش کیں۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ

اولا: فتنہ کے نطفے کو آغاز ہی میں افہام و تفہیم، روشن گری و تبیین کے ذریعے ختم کردے۔

ثانیاً : فتنہ گروں کی ہدایت ممکن  نہ ہو اور وہ اپنے فتنہ انگیزیوں سے باز نہ آئے تو سینہ تان کر فتنے کا مقابلہ کرے اور اسے کو نابود کرے۔

ثالثاً: اگر انسان شک و تردید، حیرت و سرگردانی اور عدم بصیرت کی وجہ سے فتنے کا مقابلہ نہ کر سکنے کی صورت میں کم از کم اہل فتنہ کے ہاتھوں باطل کے پھیلاؤ میں استعمال نہ یوجائے، اور عزلت و گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرے۔

اب جو لوگ فتنے کو ابتدا ہی میں دفع کرنا چاہتے ہیں یعنی فتنہ کا نطفہ منعقد ہی ہونے نہیں دینا چاہتے ہیں یا پھر وقوع یافتہ فتنے کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیرتے ہوئے امت کو نت نئے فتنوں کی دھل دھل سے نجات دلانے چاہتے ہیں۔ تو ان کے لئے مولائے متقین نے کچھ راہ و اصول بیان  فرمایا ہے، جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسان نہ فقط خود نجات کی ساحل تک پہ پہنچ سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مسیحا کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

1۔ دین کی صحیح شناخت

اہل فتنہ ہمیشہ دین کے ظاہری احکام کا سہارا لے کر لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے باطل کو چھپانے کے لئے دینی اقدار اور امور کے ظاہر کا استفادہ کرتے ہیں، بالفاظ دیگر دینداری کا لبادہ اوڑھ کر ہی یہ اہل باطل سادہ لوح دینداری کو شکار کرتے ہیں۔ اگر لوگوں کو دین کی حقیقت کا درست ادراک ہو اور وہ دین کی اصلیت کو جانتے ہوں تو فتنہ گروں کے لئے ایسے لوگوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے لوگوں کے سامنے فتنہ گر باطل کو حق کی پالش کر کے دھوکہ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ دین کی حقیقت اور اصلیت سے آشنا ہے، تو اس کے لئے اصل اور نقل کی پہچان میں مشکل پیش نہیں آتی۔

دین کی صحیح شناخت اور علم نہ ہونے کی وجہ سے فتنے کا شکار ہوکر گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں گرنے والوں کی ایک مثال خوارج کی ہے کہ انہیں کلمہ “لا حکم إلا للہ” کا مفہوم سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے اور اسلام کا نظام حکومت سے جاہل ہونے کی وجہ سے علی ابن ابی طالب (ع) جیسی عظیم شخصیت کے کفر کا فتوی لگاتے ہوئے آپ سے بر سر پیکار  ہوئے۔

امیر المومنین علی (ع) خوارج کی دین سے نا واقفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں۔

كَلِمَةُ حَقٍّ يُرادُ بِها باطِلٌ. نَعَمْ اِنَّهُ لا حُكْمَ اِلاّ لِلّهِ، وَلكِنْ هؤُلاءِ يَقُولُونَ: لا اِمْرَةَ اِلاّ لِلّهِ. وَ اِنَّهُ لابُدَّ لِلنّاسِ مِنْ اَمير، بَرٍّ اَوْ فاجِر،

“یہ جملہ (لا حکم إلا للہ) تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں، وہ غلط ہے۔ ہاں بے شک حکم اللہ ہی کے لئے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کے حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا (اگر اچھا ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا۔ (برا ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہوگا۔” (خطبہ: 40)

پس اگر خوارج کی جماعت دین کا صحیح شناخت رکھتے اور انہیں اسلام کا نظام حکومت سمجھ میں آگئی ہوتی تو کچھ فتنہ گروں کے دھوکے میں نہ آتے اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنی طاقت ان عقل سے پیدل لوگوں کے فتنہ و آشوب کو سرکوب کرنے میں صرف کرنا نہیں پڑتی۔ بلکہ اسلام عادلانہ نظام کو مزید گسترش دینے کا موقع ملتا۔

2۔ بصیرت

عموما فتنہ پھیلانے والے لوگ عوام کی جہالت اور نادانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو فتنہ وآشوب کے حامی بناتے ہیں اور لوگوں کے اسی جہالت سے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لوگوں کی سادگی، جہالت اور غفلت کو غنیمت جان کر حق و باطل کو ملا کر ایسی صورتحال کا انہیں شکار کرتے ہیں کہ آسانی سے حق اور باطل میں شناخت نہ کر سکیں۔ بلکہ ایسی صورت حال میں ہی بصیرت اور آگاہی نہ رکھنے والے لوگ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اور دشمن بھی اسی حالت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔

لہذا فتنے سے مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں آگاہی اور بصیرت ہو۔ یہ آگاہی و بصیرت ہے جو لوگوں کو فتنے کی گمراہیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی بھی بصیرت کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“بصیرت وہ مشعل ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے، یہ ایسا قطب ہے جو غبار میں ڈھکے ہوئے بیابان میں صحیح ہدف اور سمت کا تعین کرتا ہے۔”

امیرالمومنین علیہ السلام بھی ایک خطبے میں شبہات اور پریشان کر دینے والے فتنوں سے نکلنے کا راستہ یقین، علم، اور بصیرت کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ اِنَّما سُمِّيَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لاِنَّها تُشْبِهُ الْحَقَّ. فَاَمّا اَوْلِياءُ اللّهِ فَضِياؤُهُمْ فيهَا الْيَقينُ، وَ دَليلُهُمْ سَمْتُ الْهُدى.

“شبہ کو شبہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے شباہت رکھتا ہے, تو جو دوستانِ خدا ہوتے ہیں, ان کےلیے شبہات (کے اندھیروں) میں یقین اُجالے کا اور ہدایت کی سمت رہنما کا کام دیتی ہے.”(خطبہ: 38)

3۔ راہی خط ولایت

فتنہ و آشوب کی گمراہیوں سے نکلنے کا ایک راستہ اہل بیت علیہم السلام کی ولایت اور اطاعت کے دائرے میں داخل ہونا ہے۔ کیونکہ کئی روایات میں ان شخصیات کو ہی نجات کی کشتی قرار دیا گیا ہے۔ خود امیر المومنین علی علیہ السلام کئی جگہ فرماتے ہیں کہ اگر گمراہیوں سے نجات چاہتے ہو تو ہم ہیں جو نجات دلائے۔

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِى الظَّلْماءِ، وَ تَسَنَّمْتُمُ الْعَلْياءَ، وَ بِنَا انْفَجَرْتُمْ عَنِ السَّرارِ.

” ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی) کی تاریکیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا، اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کی ظلمتوں سے صبح (ھدایت) کے اجالوں میں آگئے” (خطبہ: 4)

اور آپ نے سقیفہ کے حادثے کے بعد ابوسفیان کی فتنہ انگیز خیالات کا جواب دیتے ہوئے بھی یہی فرمایا تھا کہ اس فتنے کے دور میں بھی علی (ع) اور علی(ع) جیسی شخصیات ہی امت کو فتنے کی موجوں سے نجات دلا سکتی ہیں:

اَيُّهَا النّاسُ، شُقُّوا اَمْواجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجاةِ…

” ایہا الناس! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیرتے کر نکل جاؤ اور منافرت (اختلافات) کے راستوں سے الگ رہو۔ باہمی فخر و مباہات کے تاج اتار دو۔”(خطبہ: 5)

4۔ حفظ وحدت

فتنہ و آشوب نہ فقط اختلافات کی جڑ ہے بلکہ خود فتنے کا برقرار رکھنے کے لیے فتنہ گر معاشرے میں اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی نسلی اختلافات، کبھی قومی اختلاف، کبھی مذہبی اختلافات اور کبھی زبانی اختلافات وغیرہ ہی کے ذریعے معاشرے میں اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔  

لہذا امیر المومنین علیہ السلام نے فتنے کے مقابلے میں کسی بھی گروہ کی کامیابی کو اس گروہ کے اتحاد میں مضمر جانا ہے۔

فَلَا تَكُونُوا أَنْصَابَ الْفِتَنِ وَ أَعْلَامَ الْبِدَعِ وَ الْزَمُوا مَا عُقِدَ عَلَيْهِ حَبْلُ الْجَمَاعَةِ وَ…

“تم فتنوں کی طرف راہ دکھانے والے نشان اور بدعتوں کے رہنما نہ بنو، تم ایمان والی جماعت کے اصولوں اور ان کی عبادت و اطاعت کے طور طریقوں پر جمے رہو۔ اللہ کے پاس مظلوم بن کر جاؤ ظالم بن کر نہ جاؤ۔ شیطان کی راہوں اور تمرد و سرکشی کے مقاموں سے بچو۔ اپنے پیٹ میں حرام کے لقمے نہ ڈالو اس لئے کہ تم اس کی نظروں کے سامنے ہو جس نے معصیت اور خطا کو تمہارے لئے حرام کیا ہے اور اطاعت کی راہیں آسان کر دی ہے۔”(خطبہ: 149)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...