مقدس سرزمین پر اسرائیلی دہشتگردی

تجزیہ نگار: صحافی مجتبیٰ علی شجاعی، گنڈ حسی بٹ سرینگر

حوزہ نیوز ایجنسی। سرزمین انبیاپر اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں بلکہ فلسطین کے مظلوم عوام سنہ1948سے اسرائیلی مظالم سہتے آئے ہیں ۔ہزاروں فلسطینی اسرائیلی بمباری سےیا تو ابدی نیند سوگئے ہیںیا پھر اپاہج بن گئے ہیں ،غاصبوں کے زندان فلسطینی نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں ،بدنام زمانہ زندانوں میں ٹارچر سے فلسطینی نوجوانوں کی زندگیاں ضائع ہوگئی ہیں۔بچے بوڑھے اور خواتین بے یار ومددگار مسلمانان عالم کی بے حسی پر خون کے آنسو بہارہے ہیں ۔قبلہ اول کا تقدس جابر اسرائیلی افواج کے ناپاک قدموں تلے پامال ہورہا ہے ،مقبوضہ فلسطین پرغاصب اسرائیل کاناجائزقبضہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔لیکن افسوس صد افسوس اسلامی مملکتوں کے خائن حکمران ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ تعلقات بڑھارہے ہیں اور شیطان بزرگ کا آشیرباد لینے کے لئے قرآن و احادیث سے روگردانی اختیار کررہے ہیں ۔

فلسطین اسلامی تاریخ کے اعتبار سے ایک مقدس سرزمین ہے جہاں انبیا کی ایک تعداد یا تو پیدا ہوئے یا پھر دوسری سرزمنیوں سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے اور اس سرزمین میں انبیا کی ایک تعداد مدفون ہیں ۔تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ دوہزار قبل مسیح عراق کے شہر ’’ار ‘‘ سے ہجرت کرکے اسی سرزمین میں آباد ہوئے اسی طرح حضرت اسحاقؑ ،حضرت یعقوبؑ،حضرت یوسفؑ،حضرت داوودؑ،حضرت سلیمانؑ،حضرت یحییٰ ؑ،حضرت موسیٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑ اور دیگر پیامبران خدا بھی اس سرزمین مقدس سے وابسطہ رہے ۔اسکے علاوہ اسی سرزمین مقدس پر مسلمانوں کا قبلہ اول ’’بیت المقدس‘‘ بھی واقع ہے ،ہجرت کے دوسرے سال ماہ رجب تک خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے جس کے بعدنماز کی حالت میں وحی کے ذریعے تبدیلی قبلہ کا حکم ہوا ۔بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ پیامبر خداحضرت موسیؑ نے مسجدالاقصی کو شرک اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا( تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳)
اس کے علاوہ پیامبر اسلام ؐ کے معراج آسمانی کا سفر بھی مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس)سے شروع ہوا۔سوره الاسراء آیہ مبارکہ 1؍میںارشاد ہواہے کہ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والاہے۔‘‘

قرآن و احادیث کی روشنی میں سرزمین فلسطین ایک مقدس اور عظمت والی سرزمینوں میں سے ہیںاس سرزمین کے ساتھ مسلمانان عالم کے جذبات واحساسات وابستہ ہیں ۔لیکن حماقت کی بات یہ ہے کہ اس سرزمین مقدس پر شیطان بزرگ کا ناجائز اولاد اسرائیل قبضہ جمائے بیٹھا ہے نہ فقط قبضہ بلکہ 1948عیسوی سے اس غاصب ریاست کے جابر افواج مسلسل قبلہ اول کی بے حرمتی بھی کررہے ہیں اور فلسطینی محکوم و مظلوم عوام کو عذاب وعتاب کا شکار بھی بنارہے ہیں ۔مسلمانوں کے نام نہاد خواتین نماٹھیکہ دار اس جابر اور غاصب ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں اور اسلام کے اس ازلی دشمن کے دسترخوان پر عیش وعشرت کے ساتھ لقمہ حرام تناول کررہے ہیں ۔

اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسرائیل ایک غاصب صیہونی ریاست ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں1917 عیسوی میں انگریزوں نےفلسطین پر ناجائز قبضہ کرکے یہودی ریاست قائم کرنے کی ایک سازش تیار کی ۔یہودی اور عیسائی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے کیونکہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کے قتل کا منسوبہ بنانے والے یہودی ہی ہیں ۔لیکن مسلمانوںکے خلاف یہ دو دشمن آپس میں متحد ہوگئے اور اسلامی دنیا کے قلب میں ناجائز اولاد اسرائیل کوبٹھاکرمشرق وسطیٰ میں دہشتگردی کا اڈہ قائم کیا گیا۔

نومبر 1947میں سامراجی فضلہ خور عالمی ادارے ’’اقوام متحدہ‘‘ میں ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں اس ارض ِ مقدس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے عرب اور اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔اور 1948میں برطانیہ نےفلسطین سے اپنا فوج واپس بلایا اوراسی سال 14مئی کو اسرائیل کے قیام کا باضابطہ اعلان کرکے مسلمانان عالم کی مردہ ضمیری کا ثبوت پیش کیاگیا۔جس کے بعد فلسطین کے علاقوں پرجابرانہ قبضہ کا سلسلہ جاری رہا۔لیکن بے غیرت مسلمان سامراج کے اس ناجائز اولاد کے ساتھ معاہدے اور صلح کی پالیسی پرہمیشہ گامزن رہےاور اسرائیل کی دہشتگردی کے لئے ایک کھلا میدان چھوڑ دیا گیا ۔گرچہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین معمولی لڑائیاں ہوتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اس غاصب ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔

سنہ 2006عیسوی میں عرب دنیا کی معروف مسلم عسکری تنظیم حزب اللہ لبنان نے صرف ۳۲ روز میںطاقت کے نشے میں چور اسرائیل کو دھول چٹائی،حزب اللہ نے اسرائیل کے دو فوجیوں کو اغوا کرکے خطے میں اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا تھا اور اس کا رعب ودبدبہ ، غنڈہ گردی اورخوف وڈر بھی خاک میں ملادیا۔جس کے بعد ان دو اسرائیلی فوجیوںکو چھڑانے کے لئے اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کردیا تھا۔ سامراج کے اس ناجائز اولاد کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ مہنگا پڑا اور ۳۲ دنوں کے قلیل عرصہ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اسی طرح سپاہ پاسداران انقلابی کے قدس بریگیڈ نے بھی در پردہ تمام محاذوں پر اسرائیل کے دانت کھٹے کیے اورآج ایران کی پشت پناہی کے باعث فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے تل ابیب کی نیند یںحرام کردی ہے۔

حالیہ دنوں اسرائیل نے غزہ ،بیت المقدس اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں مظلوم فلسطینیوں پر،گولہ باری، بمباری اور کیمائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے انہیں خاک و خون میں غلطاں کیا ۔مظلوم فلسطینی مسلمانان عالم کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کے دردبھری آواز خفتہ مسلمان نظر انداز کررہے ہیں ۔مسلمان حکمران ذلالت اور سامراجی غلامی کے کثیف لحد میں کروٹیں بدل رہے ہیں خواب غفلت میں خراٹیں لے رہے ہیں ۔پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی مسلمان مدد کے لئے پکار رہا ہے اور تم اس کی آواز کو نظر انداز کررہے ہوتو تم مسلمان نہیں ۔اسی طرح قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات )۔

افسوس صد افسوس عرب حکمران اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت کے بجائے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھارہے ہیں اس سلسلے میں کوئی ننگ وعارتک محسوس نہیں کررہے ہیں ۔جبکہ قرآن پاک سورہ مبارکہ المائدہ آیت نمبر 51میںواضع لفظوں میں فرماتا ہے کہ’’اے ایمان والو یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بنانا وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہوگا اور اللہ ظالموں کو یقینا ہدایت نہیں دیتاہے‘‘۔

آج اسلامی دنیا کے چند نام نہاد حکمرانوں کو مظلومین فلسطین جو گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے اسرائیلی مظالم سہہ رہے ہیں ،کی درد محسوس ہوئی ۔لیکن اقتدار پرست یہ حکمران اس درد کا مدوا کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ۔یہ شیطان بزرگ امریکہ سے بھی آشیر باد حاصل کرنے کے خواہاں ہےاور اسرائیل سے دوستی بھی برقرار کھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان حالیہ دنوں اسلامی دنیا کے خائنوں جو مظلوم فلسطینیوں کےقاتل کے ساتھ تعلقات بڑھارہے ہیں کے دسترخوان پر لذیذ غذا تناول فرماگئے ۔اور آج اسرائیل کی دہشتگردی بھی انہیں یا دآگئی ۔گویاکہ’’ یزید سےبھی دوستی اور حسین ؑ کو بھی سلام ۔۔۔۔‘‘ اسی طرح مسلم دنیا کا ایک اور منافقانہ چہرہ رجب طیب اردوغان ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے اور آج بھی اسرائیل کا سفارت خانہ ترکی اور ترکی کا سفارت خانہ اسرائیل میں ہے دونوں ممالک کے آپس میں گہرے روابط ہیں اور ڈرامہ باز ترک صدر مسلمانان عالم کو بیوقوف بنانے اور انہیں گمراہ کرنے کے لئے فلسطین کے تئیں ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں ۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس ڈرامہ باز نے گزشتہ سال ارمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان جنگ میں آذر بائیجان کو اسلحہ اور فوجی امداد کیا ۔توکیایہ ڈرامہ باز فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے اس طرح کا اقدام نہیں اٹھا سکتا ہے ۔فلسطینی عوام مذمتی بیانات تو گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل سنتے آئے ہیں۔اگر واقعی میں اردوغان کے دل میں فلسطینی عوام کی تھوڑی سی درد بھی موجود ہے تو اولین فرصت میں اس ڈرامہ باز کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا چاہئےتھا ۔

اس وقت مسلم دنیا میں جمہوری اسلامی ایران وہ واحد ملک ہے جوانقلاب اسلامی کے صبح سے غاصب صیہونی ریاست کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں نہ فقط مخالفت بلکہ انہوں نے لبنان کے میدان کارزار میں اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کی پشت پناہی کی اور آج فلسطین میں حماس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جس کا اعتراف خود حماس نے کیاہے ۔اس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ میں حماس کے سربراہ نے شرکت کی اور جلوس جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے شہید سلیمانی کو شہید قدس کے خطاب سے نوازا۔

بانی انقلاب حضرت امام خمینی ؒ نے بھی 7اگست1979یعنی انقلاب کے صرف چھے مہینے بعد اعلان کردیا کہ ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طو ر پر منایا جائے اور آج الحمد للہ دنیا بھر میں یوم قدس جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے اسی یوم القدس کے برکات سے آج امت مسلمہ کےبچہ بچہ کے زبان پر’’القدس لنا القدس النا‘‘اور ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کا ورد ہورہا ہے۔

ابھی بھی وقت ہے کہ حسد ،کینہ ،بغض ،منافقانہ رویہ چھوڑ کر اور اسرائیل کے ساتھ دوستی توڑ کر قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی آزادی کے لئے متحد ہوجائیں ۔کیونکہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں پر امیدیں وابسطہ رکھنا لا حاصل مشق ہے ۔اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہےجس سے قدس کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی یقینی بن جائے گا۔مسلم ممالک کی رابطہ تنظیم آو آئی سی کی مجرمانہ خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔انہیں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے
Loading...