مبلغ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

تحریر: مولانا مصطفی علی خان ادیب الہندی 

حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی زندگی کی رہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسے مقدس اور جامع کتاب بھیجی کہ جس کی جامعیت کے بارے میں خود قرآن میں ارشاد ہے کہ ہر خشک و تر اس میں کتاب مبین میں موجود ہے۔ لیکن جس طرح کوئی بھی کتاب بغیر معلم کے انسان نہیں سمجھ سکتا اسی طرح یہ کتاب بھی بغیر معلم کے سمجھنے کا دعویٰ ، فقدان عقل کا نتیجہ ہے۔ 

دنیوی کتابوں میں کتاب جس موضوع کی ہو اگر معلم بھی اسی موضوع کا ماہر ہے تو وہ کتاب سمجھا سکتا ہے لیکن اگر کتاب سائنس کی ہو اور معلم ریاضی کا ہو تو کتاب پڑھا تو سکتا ہے لیکن کماحقہ سمجھا نہیں سکتا ، اسی لیے کتاب جس موضوع کی ہوتی ہے پڑھنے والے اسی موضوع کے ماہر سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ورنہ کسی اور کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا وقت کی بربادی کے سوا کچھ  نہیں۔ 

قرآن کریم الہی آسمانی کتاب ہے اس میں ازل سے ابد تک کی خبریں موجود ہیں ، آسمانوں اور جو کچھ اس میں ہے ، اسی طرح زمین اور زمین پر جو جو اشخاص و اشیاء ہیں سب کا علم اس کتاب میں ہے بلکہ جو زمینوں اور سمندروں کی تہوں میں ہیں ان کا بھی علم اس کتاب میں موجود ہے۔ لہذا اس کتاب کو سمجھنے کے لئے بھی اسی معیار کے معلم کی ضرورت ہے ورنہ انسان حسن تلاوت کے مسابقہ میں تو بازی مار سکتا ہے لیکن میدان تدبر میں شکست کھا جائے گا۔ 

اسی لئے اللہ نے اس کتاب کو اس سینہ پر نازل کیا جو جملہ ممکنات میں سب سے پہلا ممکن ہے بلکہ دیگر تمام ممکنات کو لباس وجود بھی اسی کے سبب ملا اور وہ اس وقت بھی عہدہ نبوت پر فائز تھا جب اولاد آدم نہیں بلکہ خود حضرت آدم آب و گل کے درمیان تھے۔ وہی نور اول ہے، وہی خلق اول ہے وہی روح عالم ہے۔ 

حکیم پروردگار نے اس پر اپنی کتاب نازل کی تا کہ یہ کتاب جنکے لئے نظام ہدایت ہے وہ اس سے سمجھیں اور عمل کرکے دنیا و آخرت میں سعادت مند ہو سکیں ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی دستور تھا جب آپ پر کوئی آیت یا سورہ نازل ہوتا تو آپ لوگوں کے سامنے اسکی وضاحت فرماتے یعنی آپ کی حدیثیں کلام الہی کی تفسیر و تشریح ہوتیں۔ لیکن موت تو ہر ایک لئے حتمی ہے اور اس مقدس ذات کو بھی اس ذائقہ چکھنا تھا لہذا اللہ نے اسی معیار کے رہبروں کا تعارف انہیں سے اپنے پاس بلانے سے پہلے غدیر خم میں کرا دیا تا کہ الہی اور آسمانی سلسلہ ہدایت منقطع نہ ہو اور اس الہی سلسلہ ہدایت کے پہلے ہادی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی برملا اعلان کیا ’’میں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں کو جانتا ہوں ۔ ‘‘ مطلب یہ کہ اگر آسمانی کتاب کو سمجھنا ہے تو آسمانی راہوں کے عالم سے پوچھو ورنہ جنکو زمین پر رہنے کے باوجود زمین کی اطلاع نہیں وہ آسمان کی بات کیا بتائیں گے۔ 

لیکن افسوس صد افسوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثوں پر پابندی لگا دی گئی۔گویا کلام الہی کے خزانوں کی چابھی ہی چھپا دی تا کہ لوگ تلاوت تو کر لیں لیکن سمجھ نہ سکیں ۔ یک بعد دیگرے حاکم آئے لیکن یہ پابندی نہ ہٹی یہاں تک کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تو ملوکیت نے نیا کھیل کھیلا ، خزانوں کا منھ کھول کر بنام حدیث رسالت مآبؐ جعلی حدیثوں کا کارخانہ کھول دیا۔ حاکم ، اس کے خاندان، قبیلہ اور طرف داروں کی حمایت میں حدیثیں گڑھی جانے لگیں اور اسی طرح حکومت کے مخالف یعنی اہل حق کے مخالفت بھی حدیثیں بنائی اور نشر کی گئیں۔ جس  کے نتیجہ میں انسانیت نسلا بعد نسل فہم و تدبر قرآن سے محروم ہوتی چلی گئی۔ 

لیکن ہر عروج کے بعد زوال دستور کائنات ہے لہذا اموی ملوکیت کے خلاف عباسیوں نے محاذ کھول دیا۔ جس کے سبب اموی اپنی اپنی حکومت کی بقا میں اور عباسی حصول میں مصروف ہو گئے تو موقع کو غنیمت جان کر الہی رہبر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فہم و تدبر قرآن سے محروم انسانیت کے لیے مدرسہ قائم کیا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ منورہ ایک علمی مرکز تھا اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام دوبارہ اس شہر نبی کو مرکز علم بنا دیا۔

دور دراز سے تشنگان علم سیرابی علم کی خاطر اس شہر وحی میں آنے لگے اور امام باقر علیہ السلام اور آپ کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے لگے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گذرے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذر چکا تھا لہذا وہ سینہ تو نہ تھا جس پر قرآن نازل ہوا لیکن وہ امام ضرور تھے جنھیں سینہ بہ سینہ وہی علم نبوی حاصل ہوا تھا، جنکو خود رسولؐ نے باقر کا لقب دیا اور سلام کہلایا تھا۔ 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثیں بیان کرنا شروع کر دی ، قرآن و احادیث رسول ؐ کی روشنی میں علم سے تشنہ انسانیت کو سیراب کیا۔ اور اگر آج ہم کتب احادیث پر نظر کریں تو ہر مقام پر ہمیں امامین باقرین و صادقین علیہماالسلام نظر آتے ہیں۔ 

دینی عقائد ہوں یا اخلاق ہو یا احکام ہر جگہ ہمیں ’’قال الباقرؑ‘‘  ’’قال الصادقؑ‘‘ ہی نظر آئے گا۔ اور صرف فقہ جعفری ہی نہیں بلکہ دیگر اسلامی فقہوں میں بھی آپ ہی کے جلوے نظر آتے ہیں۔ لہذا اب یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثیں جن پر خلافت نے پابندی لگائی اور ملوکیت نے تحریف کی اسے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے زندہ کیا، ترویج کی، تبلیغ کی اس کی تعلیم دی۔ اور اگر آپ کا یہ علمی جہاد نہ ہوتا تو شائد رہتی دنیا تک لوگ حدیث سے محروم رہتے۔

بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے محبوں کو محفوظ رکھے اور ان کو علم و عمل کی توفیق عطا فرمائے۔امین یا رب العالمین

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...