فرزند رسول (ص) جناب ابراہیم (ع)

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند جناب ابراہیمؑ ماہ ذی الحجہ   ۸    ؁ ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ ؓ تھیں۔ 

جب آپ پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا۔ اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے میں نے اپنے جد جناب ابراہیم ؑ کے نام پر اس کا نام ابراہیم رکھا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد ۱، صفحہ ۱۰۸) ولادت کے ساتویں دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکا عقیقہ کیا اور سر منڈوایا اور بالوں کے وزن کے مطابق چاندی صدقہ دی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد ۱، صفحہ۱۰۷) 

جناب ابراہیمؑ کی ولادت کے بعد جناب جبرئیل نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ’’یا ابا ابراہیم‘‘ کے عنوان سے سلام کیا ۔(انساب الاشراف جلد ۱، صفحہ ۴۵۰) منقول ہےکہ جب جناب ابراہیمؑ کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت مسرور ہوئے اور اپنی زوجہ جناب عائشہ سے فرمایا: دیکھو اس کی صورت مجھ سے کتنی ملتی ہے۔(انساب الاشراف جلد ۱، صفحہ ۴۵۰)

علامہ ابن شہر آشوب نے  المناقب میں جناب ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب ابراہیمؑ کو اپنی آغوش میں لئے تھے کہ جناب جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپؐ کو سلام کہلایا ہے اور اس کا فیصلہ ہے کہ ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھے گا لہذا ایک کو دوسرے پر فدا کر دیں۔ ‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کو منتخب کیا اور تین دن بعد جناب ابراہیم ؑ کی وفات ہو گئی۔ (المناقب جلد ۴، صفحہ ۸۱)

مذکورہ روایت کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات واضح ہوتے ہیں۔ 

1۔ انسانی نسل صرف بیٹے سے ہی نہیں چلتی بلکہ بیٹی سے بھی ممکن ہے۔ 

2۔ انسان کے لئے دین اہم ہو اولاد نہیں، حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس طرح رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی بقا اور آپ کی سنت کے احیاء کی خاطر عظیم قیام کیا جس کی نظیر تاریخ آدم و عالم میں مل پانا نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اور ایسا عظیم قیام شاید جناب ابراہیم کے لئے ممکن نہ ہوتا۔ 

3۔ جناب ابراہیم رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب فرزند تھے لیکن امام حسین علیہ السلام ان سے زیادہ محبوب تھے کیوں کہ آپ حجت خدا اور نص من اللہ امام تھے۔ ختم نبوت کے بعد سلسلہ ہدایت یعنی امامت کے ایک اہم رکن تھے۔ 

4۔ دینی امور میں کبھی بھی اولاد کی محبت رکاوٹ کا سبب نہ بن سکے۔ 

5۔ امام حسین علیہ السلام کی راہ میں مال و اولاد اہمیت نہیں رکھتے کیوں کہ اللہ و رسول کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی خاص اہمیت ہے۔ 

جب جناب ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی تو حضورؐ نے فرمایا: ابراہیم ؑ کو میرے سلف صالح عثمان بن مظعون سے ملحق کر دو۔( یعنی جنت البقیع میں انکے پہلو میں دفن کردو) 

آپ کی وفات پر حضورؐ بہت غمگین ہوئے جب لوگوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: میں بھی انسان ہوں،آنکھیں روتی ہیں ، دل غم زدہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ بات نہیں کہوں گا جس سے خدا ناراض ہو۔ ائے ابراہیم ! خدا کی قسم میں تمہارے فراق میں سوگوار ہوں۔ (بحارالانوار جلد ۷۹، صفحہ ۱۱۴) یعنی کسی عزیز کے غم میں غم زدہ ہونا انسانی فطرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ 

جس دن جناب ابراہیم ؑ کی وفات ہوئی اس دن سورج کو گہن لگ گیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ سورج گہن کا سبب جناب ابراہیمؑ کی وفات ہے تو حضورؐ نے فرمایا: سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں کسی کے سبب ان کو گہن نہیں لگتا۔ (بحارالانوار جلد ۷۹، صفحہ ۹۱) رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم الہی رہبر تھے، الہی رہبر نہ کبھی امت کی ہدایت سے غافل ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی لوگوں کی جہالت سے فایدہ اٹھاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالی نے انبیاء ،مرسلین اور ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کریں، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں، خرافات سے دور رکھیں اور انکی جہالت کے دامن کو اپنے نور علم سے چاک کریں۔

روایات کے مطابق جناب ابراہیم کی 18 رجب المرجب 10 ہجری کو وفات ہوئی۔  

وَصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْكَ صَلَاةً تَقَرُّ بِها عَيْنُ رَسُولِهِ، وَتُبَلِّغُهُ أَكْبَرَ مَأْمُولِهِ۔

تبصرے
Loading...