غدیر پوشی ناقابل معافی

تحریر: مولانا مجتبیٰ علی خان ادیب الہندیؒ

حوزہ نیوز ایجنسی روز غدیر اسلامی تاریخ کا ایک اہم دن ہے اس دن خداوند کریم نے اپنے بندوں پر نعمتوں کو کامل کیا اور دین اسلام کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے راضی ہونے کی سند بھی عطا کردی اور امت کو رسالت کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد امامت سے روشناس کرادیا اور اپنے بندوں کو ولایت کی رہنمائی میں دے دیا ۔اسی طرح رسول کریمؐ کے بعد مسلمانوں کے قائد اور ولی کا اعلان ہوا اور مولود کعبہ کو جانشین اور امام نامزد کیا گیا۔
اس سلسلے میں بظاہرپیغمبرؐ نے بہت پہلے سے تیاری کی تھی ۔پہلے تو حج کے سلسلے میں اعلان ہوا کہ اس سال پیغمبرؐاسلام حج کرنے والے ہیں لوگ خاص طور سے حج کے لئے آمادہ ہوں اور اس بنا پر اس سال حج میں غیر معمولی مجمع ہوا ۔پھر آپ نے حج کے دوران اپنے رخصت ہونے کی خبر دی ۔پھر واپسی میں غدیر خم میں پہونچ کر قافلے کو روکا گیا۔ اس مقام کی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں سے مختلف آبادیوں کے راستے جدا ہوتے تھے اس موقع پر جو آیت نازل ہوئی اس کا انداز جملہ آیات سے مختلف تھا ۔اللہ نے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی ضمانت لی جبکہ اس انداز سے احکام نازل نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اعلان امامت سے پیغمبرؐکو کچھ پس وپیش تھا تو وہ اس وجہ سے کہ علی سے بغض رکھنے والے اس موقع پر کوئی ھنگامہ کھڑا کریں گے ۔پھر حضور سرورکائنات نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنے رخصت ہونے کی خبر دی ۔اپنے بعد ثقلین سے وابستہ ہونے کا حکم دیا اور پھر پورے مجمع سے اپنے اولیٰ بالتصرف ہونے کا اقرار لے کر کہا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔خطبہ کی ترتیب بتا رہی ہے کہ مولیٰ کس معنی میں استعمال ہو اہے جس کو ایک سنی عالم اور سجادہ نشین جائسی نے خوب سمجھا اور اپنے قصیدے میں اسے واضح کیا ہے کہ
عبث در معنی من کنت مولا می روی هر سو
علی مولا باین معنی که پیغمبر بود مولا
اور اس اہم اور تاریخ ساز واقعہ کو جملہ مورخین اسلام نے اپنے اپنے انداز سے نقل کیا ہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ مورخین واقعات کو نقل کرتے ہیں اپنے مسلک و عقید ے کو عام طور سے جدا نہیں کر پائے ہیں اور اسی بنا پر کسی بھی تاریخ کو مختلف تاریخوں میں دینے سے مورخ کے اپنے عقائد کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔لیکن غدیر کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو مورخین نے تاریخ کے ضمن میں بہرحال نقل کیا ہے اور یہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں تھا بلکہ پیغمبر اسلامۖ کے خطبے اور ارشادات کی بنا پر محدثین اسے لکھنے پر مجبور تھے اور صرف محدثین ہی نہیں آیت قرآنی کی بنا پر مفسرین بھی اپنی تفسیروں میں اسے جگہ دیتے ہیں ۔غدیر کے واقعہ کو جن اہم مورخین نے لکھا ہے ان کے نام اور ان کے سن وفات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں یہ تذکرہ تاریخ کی زبان پر رہا ہے جیسے بلاذری(٢٧٩ھ انساب الاشراف میں ابن قتیبہ ٢٧٦ھ)المعارف اور الامامةوالسیاسة میں طبری(٣١٠ھ)مفرد میں اب نزولان(٢٨٧ھ)اپنی تالیف میں خطیب بغدادی(٤٦٣ھ)اپنی تاریخ میں ابن عبد البر (٤٦٣ھ) استیعاب میں ،شہرستانی (٥٤٨ھ) ملل ونحل میں ،ابن عساکر (٥٧١ھ)اپنی تاریخ میں یاقوت حموی معجم میں ابن الاثیر (٦٣٠ھ) اسد الغابہ میں، ابن الحدید(٦٥٦ھ)شرح نہج البلاغہ میں، ابن خلکان (٦٨١ھ)اپنی تاریخ میں یافعی(٧٦٨ھ)مراةالجنان میں ،ابن الشیخ البنوی الف وبا میں ابن کثیر شامی (٧٧٤ھ)البدایة والنہایہ میں ،ابن خلدون (٨٠٨ھ)اپنے مقدمہ میں ،شمس الدین ذہبی تذکرة الحفاظ میں ،نویری(٨٣٣ھ)نہایة الادب من فنون الادب میں ،ابن حجر عسقلانی(٨٥٢ھ)اصابہ اور تہذیب التہذیب میں ابن صباغ مالکی (٨٥٥ھ)فصول المہمہ میں مقریزی(٨٤٥ھ)حظظ میں جلال الدین سیوطیی(٩١٠ھ)اپنی اکثر کتابوں میں قرمانی دمشقی (١٠١٩ھ) اخبار الدول میں نور الدین خلبی (١٠٤٤ھ)سیرت الحلبیہ میں اوراس کے علاوہ بھی مختلف مؤ رخین اور علما ء نے اس واقعہ کو تحریرکیا ہے اور اسی طرح مورخین کے علاوہ محدثین نے حدیث رسول کے ضمن میں اسے تحریر کیا ہے امام احمد بن حنبل (٢٤١ھ)نے (٢٠٤ھ)نے جیسا کہ ابن اثیر نے نہایہ میں تحریر کیا ہے ۔امام احمد بن حنبل (٢٤١ھ)نے اپنی مسند ومناقب میں ابن ماجہ(٢٧٣ھ)نے اپنی سنن میں ترمذی (٢٧٩ھ) نے اپنی صحیح میں نسائی (٣٠٣ھ)نے خصائص میں ابو یعلی موصلی (٣٠٧)نے اپنی مسند میں بغوی (٣١٤ھ)نے سنن میں دولابی (٣٤٠ھ)نے الکنی والاسماء میں طحاوی (٣٢١ھ)مشکل الآثار میں حاکم (٤٠٥)نے مستدرک میں ابن مغازلی (٤٨٣ھ)نے مناقب میں ابن منذہ اصفہانی (٥١٢ھ)نے اپنی تالیف میں خطیب خوارزمی (٥٦٨ھ)مناقب میں (٦٥٨ھ)کفایة الطالب میں محب الدین طبری(٦٩٤ھ)ریاج النضرہ اور ذخائر القبیٰ میں الحموینی(٧٢٢ھ)فرائدالسمطین میں ،الہیثمی(٨٠٧ھ)مجمع الزوائد میں الذہنی(٧٤٨ھ)تلخیص میں الجزری (٨٣٠ھ)اسنی المطالب میں ابو العباس القسطلانی (٩٢٣ھ)مواہب میں متقی ہندی(٩٧٥ھ)کنز ل العمال میں الہروی القاری (١٠١٤ھ)المرقاة فی شرح مشکوٰة میں تاج الدین المناوی(١٠٣١ھ)کنوز الحقائق فی حدیث خیر الحقائق اور فیض القدیر مٰں شیخانی القادری صراط السوی فی مناقب آل النبیۖ میں یا کثیر المکی (١٠٤٧ھ)نے وسیلة الامال فی مناقب الآل میں ابوعبداللہ الزرقانی مالکی(١١٢٢ھ)نے شرح مواہب میں ابن حمزہ دمشقی حنفی نے کتاب البیان والتعریف میں اس کے علاوہ مختلف محدثین نے اپنے اپنے مجموعوں میں ذکر کیا ہے۔
چونکہ غدیر کے موقع پر آیت نازل ہوئی اور آیت اکمال بھی آئی اس لئے مفسرین نے بھی اس واقعہ کو سورہ مائدہ کی ٦٧ ویں آیت کے تحت اور کچھ مفسرین نے سورہ معارج کی پہلی آیت کے سلسلے میں نقل کیا ہے ۔جیسے امام التفسیر طبری(٣١٠ھ)نے اپنی تفسیرمیں، ثعلبی (٤٢٧ھ)نے اپنی تفسیر میں، واحدی (٤٦٨ھ)نے اسباب النزول میں، قرطبی (٥٦٧ھ)نے اپنی تفسیر میں، ابو سعود نے اپنی تفسیر میں، فخر الدین رازی نے (٦٠٦ھ)اپنی تفسیر کبیر میں، ابن کثیر شامی(٧٧٤ھ)نے اپنی تفسیر میں، نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں، جلال الدین سیوطی (٩١٠ھ)اپنی تفسیر میں، خطیب شربینی نے اپنی تفسیر میں،آلوسی بغدادینے (١٢٧٠ھ)اپنی تفسیر میں اور ان کے علاوہ مختلف مفسرین نے اس واقعہ کولکھا ہے اور یہ فہرست ان علماء و مورخین ومحدثین و مفسرین کی ہے جن کا تعلق اہل سنت والجماعة سے ہے اس کے علاوہ تمام شیعہ علماء و مورخین محدثین ومفسرین کا تذکرہ یہاں اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہ تو علی ابن ابی طالب کو خلیفہ بلا فصل حکم پیغمبر کی بنا پر تسلیم ہی کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ غدیر میں اعلان ولایت کے بعد ہر ایک کا فریضہ ہے کہ وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کو مولیٰ تسلیم کرے اور انہوں نے بڑی آب و تاب سے اس واقعہ کو لکھا ہے لیکن ان کے حوالے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ سب ہی جانتے ہیں شیعہ اسی حدیث غدیر کے تحت امامت کے سلسلے کو مانتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو امامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
اب چودہ سو سال اس اعلان کو پورے ہورہے ہیں ۔ اس عید سعید کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ ہم سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اس اعلان کو عام کریں کیونکہ پیغمبر نے فرمایا تھا جو اس اعلان کو سن رہا ہے اور حاضر ہے وہ دوسروں تک پہونچائے تاکہ سب اپنا دین کامل کرسکیں اور اللہ ان کے دین سے راضی ہو اور اگر اس اعلان کا کسی نے انکار کیا اور ولایت کو تسلیم نہ کیا یا اس سے روگردانی کی تو تاریخ نے بڑے بھیانک نتائج ذکر کئے ہیں جن لوگوں نے حدیث غدیر سن لینے کے بعد اس سے انکار کیا یا اس کی گواہی نہ دی ان پر عذاب الٰہی نازل ہو ا ۔ا ن کے علاوہ وہ افرادکہ جنہوں نے خود پیغمبر اسلامۖ کی زبان سے اس حکم کو سنا تھا لیکن جب ان سے گواہی طلب کی گئی تو وہ انکار کر گئے اور جس کے نتیجے میں وہ عذاب کا شکار ہوئے اس فہرست میں (١)ابوحمزہ انس بن مالک (٢)براء بن عازب انصاری(٣)جریرابن عبد اللہ بجلی(٤)زید بن ارقم خزرجی(٥)عبد الرحمن بن مدلج(٦)یزید بن ودیعہ کا نام اکثر لوگوں نے ذکر کیا ہے ۔البتہ بعض موقعوں پر ان افراد میں سے بعض کے نام کسی فضائل کی حدیث میں یا خود غدیر کی حدیث کے سلسلے میں مل جاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ منکر تھے تو پھر روایت کے سلسلے میں ان کا نام کیسے آگیا حقیقت یہ ہے کہ کتمان حق کی سزا ملنے کے بعد یا اس سے پہلے یہ روایت کرچکے ہوتے ہیں اس لئے نام فہرست میں آجاتا ہے ۔لیکن جس موقع پر مولائے کائنات نے ان سے گواہی طلب کی تھی اس موقع پر کسی مصلحت سے خاموش رہ جانے کی سزا ان کو ملی۔اور شاید اسی لئے عثمان بن مطرف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے انس بن مالک سے ان کے آخر عمر میں علی بن ابی طالب کے لئے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے طے کرلیا ہے کہ اب علی کے فضائل کبھی چھپاوؐں گا نہیں ۔علی قیامت کے دن متقین کے سردادر ہوں گے خدا کی قسم میں نے یہ حدیث پیغمبر اسلام سے سنی ہے اور ابن ابی الحدیدی معتزلی شرخ نہج البلاغہ ج ١ ص٣٦١ پر تحریر فرماتے ہیں کہ بغداد کے کچھ علماء نے ذکر کیا ہے کہ کچھ صحابہ و تابعین اور علماء جو علی علیہ السلام سے منحرف تھے ان میں سے کچھ نے غلط باتیں کہیں کچھ نے فضائل چھپائے اور کچھ نے صرف دینار و درہم کی محبت میں علی کے دشمنوں کی مدد کی ان میں سے ایک انس بن مالک بھی تھے کہ علی نے ایک دفعہ کوفہ میں یہ گواہی طلب کی کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اکرم ۖکو یہ کہتے سنا من کنت مولاہ فعلی مولاہ تو ١٣ افراد نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ ہم نے خود پیغمبر کو کہتے سنا ہے اسی مجمع میں انس بن مالک بھی موجود تھے ان کی خاموشی دیکھ کر مولانے پوچھا تم کیوں خاموش ہو؟کیا تم نے نہیں سنا تھا ؟تو انس نے کہا اے امیرالمومنین میرا سن زیادہ ہوگیا ہے میں بھول گیا ۔اس موقع پر علی علیہ السلام نے بد دعا دی کہ اگریہ جھوٹ بول رہے ہیں تو اے خدا ان کو سزا کے طور پر وہ عذاب دے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔اور طلحہ بن عمیر کا کہنا ہے کہ کہ خدا کی قسم میں نے ان کی پیشانی پر واضح نشان دیکھا اس بات کو ابو محمد بن قتیبہ نے معارف میں صفحہ ٢٥١ پر یو ں لکھا ہے کہ انس بن مالک کے چہرے پر برص کا نشان تھا اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی نے ان سے جب روز غدیر رسول اللہ کے قول کے سلسلے میں پوچھا تھا تو انہوں نے کہا میرا سن زیادہ ہوگیا ہے میں بھول گیا اس موقع پر علی نے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو توخدا تمہیں ایسی سزا دے جسے عمامہ نہ چھپا سکے ۔اسی طرح احمد بن جابر البلاذری انساب الاشراف میں تحریر کرتے ہیں کہ علی منبر پر تھے اور آپ نے پوچھا کہ تم میں سے کس کس نے غدیر کے دن میرے سلسلے میں پیغمبر کا بیان سنا تھا جس جس نے سنا ہو کھڑے ہو کر گواہی دے، اس مجمع میں انس بن مالک، براء بن عازب ،جریر بن عبد اللہ بجلی بھی موجود تھے جب کسی نے جواب نہ دیا تو آپ نے پھر یہی کہا اور یہ لوگ پھر خاموش رہے تو آپ نے خداوند عالم سے یہ دعا کی کہ جس جس نے جانتے ہوئے اس گواہی کو چھپایا اسے اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک اسے کوئی ایسی سزا نہ مل جائے جس سے پتہ چلے کہ ا س نے کتمان حق کیا تھا۔اس کے بعد انس بن مالک مبروص ہوگئے ۔براء بن عازب اندھے ہوگئے اور جریر ہجرت کے بعد پھر واپس ہوکر بدو ہوگئے ۔ان واقعات کا ذکر ابن عساکر نے ج٣ ص٥١ پر علامہ خزرجی نے ص٣٥پر شعراء نے اپنے قصائد میں خوارزمی نے حافظ بن مردویہ کے ذریعہ خواجہ پارسا نے فصل الخطاب میں اور ابن حجر نے صواعق محرقہ میں ص٧٧ پر بھی ذکر کیا ہے ۔

ماخوذ از ولایت امیر المومنین نمبر ، مطبوعہ ادارہ اصلاح ۱۴۱۰ہجری

تبصرے
Loading...