علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیہر ممکن کو فنا الہی حکم اور قرآنی فیصلہ ہے، “كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ” (سورہ رحمٰن آیت 26) یعنی سب کے لئے فنا ہے، اگر بقا ہے تو صرف اس پروردگار کے لئے جس کے کرشمہ قدرت سے یہ جہاں باقی ہے، وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ (سورہ رحمٰن آیت 27) یعنی بقا صاحب جلال و اکرام خدا کے لئے ہے۔ اس آیت میں لفظ “وجہ” کا ذکر ہے مفسرین نے جہاں اس سے مراد ذات خدا ک لیا ہے وہیں بعض مفسرین نے “إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ (ہم تمہیں خاص اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ سورہ انسان آیت 9) کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے بیان کیا کہ جو کام خاص اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے اس میں فنا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ باقی رہے گا اور یہی اخلاص کی منزل کمال ہے۔ 
کائنات میں کتنے ہیں جو دنیوی خواہشات کی اسیری کے سبب چلتی پھرتی لاش ہیں لیکن جو اخلاص میں منزل کمال تک پہنچ جائے تو صدیاں گذرنے کے باوجود وہ زندہ رہتا ہے اور اس کا تذکرہ زباں زد خاص و عام ہوتا ہے۔ 
انہیں نامور شخصیات میں ایک اہم ذات علامہ محمد باقر مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، 
آپ کے والد مجلسی اول رحمۃ اللہ علیہ نے نماز شب میں جب آپ گہوارہ میں تھے تو دعا کہ خدایا! میرے اس بیٹے کو اپنے دین کا خادم و مبلغ بنا دے، مومن و عابد و زاہد باپ کی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور رحمٰن و رحیم خدا نے اپنے دین کی خدمت کی ایسی توفیق دی کہ جب بھی دین کے مبلغین اور مذہب کے پاسبانوں کا ذکر ہوگا تو علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ابھر کر سامنے آئے گا۔
 ممکن نہیں کہ انسان دینی تعلیم حاصل کرے اور علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کا احسان مند نہ ہو، آپ کا تذکرہ، آپ کی یاد جہاں احسان مندی کا تقاضہ ہے وہیں قوم کی زندگی کی علامت ہے۔ 

علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ 1037 کو اصفحان کے ایک دینی اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد علامہ محمد تقی مجلسی رحمۃ اللہ علیہ جناب شیخ بہائی کے ہونہار شاگرد تھے، آپ کی والدہ معروف شیعہ عالم جناب صدرالدین رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی تھیں، علامہ مجلسی  رحمۃ اللہ علیہ کے دادا ملا مقصود رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم اور نامور شاعر تھے اور انکا تخلص مجلسی تھا جس کے سبب پورا خاندان مجلسی کے نام سے مشہور ہوا، آپ کے والد کو مجلسی اول اور آپ کو مجلسی ثانی کہا جاتا ہے۔

علامه مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کمسنی میں ہی دینی تعلیم کے حصول میں مصروف ہو گئے کہ چار برس کی عمر میں اپنے والد سے فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل فرمائی، بیس سے زیادہ نامور علماء و فقہاء کی زیر تربیت آپ کا بچپن گذرا۔ اپنے والد علامہ محمد تقی مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ جن علماء سے کسب فیض کیا ان میں علامه حسن علی شوشتری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ امیر محمد مومن استر آبادی رحمۃ اللہ علیہ، ملا محسن فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ اور ملاصالح مازندرانی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ محض چودہ برس کی عمر میں عظیم اسلامی فیلسوف ملا صدرا رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اجازہ روایت مرحمت فرمایا۔ 
جیسا کہ ذکر ہوا کہ آپ کا تعلق اصفھان (ایران) کے ایک عظیم دینی اور علمی خانوادہ سے تھا، آپ کے جد اعلیٰ عظیم شیعہ عالم حافظ ابو نعیم اصفهانی رحمۃ اللہ علیہ تھے جنہوں نے “تاریخ اصفحان” اور “حلیۃ الاولیاء” جیسی گرانقدر کتابیں لکھیں۔ آپ کے والد علامہ سید محمد تقی مجلسی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے نامور شیعہ عالم، فقیہ اور محدث تھے، مختلف علوم میں انکو ید طولی حاصل تھا نیز انکے تصنیفات و تالیفات کی طویل فہرست ہے۔
 علامہ محمد باقر مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ جس سے کسب فیض کیا وہ آپ کے والد ماجد علامہ محمد تقی مجلسی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ 
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی ملا عزیز الله رحمۃ اللہ علیہ اور ملا عبد الله رحمۃ اللہ علیہ تھے، جنکا علم، تقوی اور زہد اپنی مثال آپ تھا، ملا عزیز الله رحمۃ اللہ علیہ اور ملا عبد الله رحمۃ اللہ علیہ تبلیغ دین کے لئے ہندوستان تشریف لائے اور تا حیات یہیں قیام فرمایا۔ 
نہ صرف مرد بلکہ آپ کے خاندان کی خواتین نے بھی علم و فقاہت میں نمایاں مقام حاصل کیا، آپ کی چارو بہنیں عالمہ تھیں جنکے شوہر بھی عظیم المرتبت عالم تھے ملا صالح مازندرانی رحمۃ اللہ علیہ، ملا میرزای شیروانی رحمۃ اللہ علیہ، ملا علی استرابادی رحمۃ اللہ علیہ اور میرزا محمد فسایی رحمۃ اللہ علیہ ۔
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے معارف اہلبیت علیہم السلام کے تحفظ اور نشر و اشاعت میں بنیادی کام انجام دیا۔ خصوصا کتب اربعہ کی حفاظت کی خاطر اصول کافی اور تہذیب کی شرح لکھی اور اپنے ایک شاگرد کو تشویق فرمایا کہ وہ استبصار کی شرح لکھیں تا کہ شیعوں کی یہ چار اہم کتابیں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں۔ نیز سیکڑوں شیعہ کتابیں جو فراموشی کا شکار یا صندوق کی زینت بن گئی تھیں انکے احیاء میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ 
علامہ محمد باقر مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے عربی و فارسی میں 200 سے زیادہ کتابیں تالیف و تصنیف فرمائیں جنمیں بحارالانوار کی 110 جلدیں، مراۃ العقول کی 25جلدیں اور ملاذ الاختار کی 16 جلدیں شامل ہیں۔ 
آپ نے عقاید میں حق الیقین، اخلاق میں عین الحیاۃ، آداب و احکام میں حلیلۃ المتقین، تاریخ انبیاء علیہم السلام میں حیات القلوب اور تاریخ ائمہ علیہم السلام میں جلاالعیون فارسی زبان میں تالیف فرمائی۔ جنمیں سے کئی کتابیں اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔ المختصر آپ نے اپنی با مقصد اور با برکت زندگی میں کتابیں لکھیں جو رہتی دنیا تک طالبان ہدایت کے لئے مشعل راہ اور دین و مذہب کی پاسبان ہیں۔ جہاں شیعہ علماء و فقہاء آپ کی پاسبانی مذہب کے معترف ہیں وہیں اہل سنت عالم عبدالعزیز دہلوی کہ جنھوں نے مذہب اہلبیت علیہم السلام کے خلاف قلم اٹھایا وہ آپ کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:اگر شیعہ مذہب کو محمد باقر مجلسی کا مذہب کہا جائے تو بجا ہے، وہی ہیں جنہوں نے اس مذہب کو رونق بخشی ہے جبکہ اس سے قبل اس کی عظمت اس قدر نہ تھی۔ (بحوالۂ: محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج9، ص183)
73 برس کی با مقصد زندگی بسر کرنے کے بعد علامہ محمد باقر مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے  27 رمضان سنہ 1110 ھ کو شہر اصفہان رحلت فرمائی۔ وصیت کے مطابق اصفہان کی جامع مسجد کے نزدیک اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ آپ کا مزار مقدس محبان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔

تبصرے
Loading...