ظالم کے عشرت کدہ میں حسین (ع) کا صف ماتم

تحریر: مولانا سید منظور علی نقوی

حوزہ نیوز ایجنسیجب مخدرات عصمت و طهارت درباره‌ی یزید میں پیش کی گئیں اور محل سرا میں اس کی اطلاع ہوئی تو خاندان یزید اور بنات معاویہ اور دیگر عورتوں نے فریاد کی رونا پیٹنا شروع کر دیا ظالم نے مجبور ہو کر اپنی زوجہ ہند بنت عبداللہ ابن عامر ابن کریز کو گریہ کی اجازت دے دی تھی، خاندان معاویہ کی کوئی عورت ایسی نہ تھی جس نے اہل حرم کی خدمت میں آن کر گریہ و زاری نوحہ و فریاد کرکے صف ماتم نہ بچھائی ہو. صرف محل سرا کے اندر ہی نہیں بلکہ اموی خاندان کے مشہور افراد بھی دربار عام میں نوحہ پڑھا کرتے اور ماتم غم بپا کرتے تھے۔
چنانچہ مروان کے بھائی یحییٰ ابن اطکم اموی نے حسین علیہ السلام کے مصائب کو سن کر بھرے دربار میں یزید کے سامنے حزینہ انداز میں مرثیہ پڑھا اس کو کہتے ہیں مظلومیت کی فتح جس کو تاریخ کامل ابن اثیر جلد ٤ طبع مصر کے حوالے سے قلمبند کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی مظلومی صبر و استقلال جہاد و استقرار علی الحق کا ایسا نمونہ پیش کیا تھا کہ دشمن بھی اس سے متاثر تھے۔
آل زبیر جو علی اور اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھے. جنھوں نے ایک مدت تک صرف اس وجہ سے رسول اللہ پر درود بھیجنا ترک کر دیا تھا کہ اس میں آل محمد کا تذکرہ ہے. عبداللہ ابن زبیر نے چالیس جمعوں تک نماز میں درود نہیں بھیجا صرف اس لئے کہ اس میں اہل بیت بھی شامل ہیں۔
نصائح کافی محمد ابن عقیل المصری ص/٩٣
خیال کیا جائے کہ جو علی و اولاد علی کے ایسے دشمن تھے کہ ان کے نام سن کر ہی غصہ میں کانپنے لگتے تھے لیکن واقعات کربلا کے بعد ان دشمنان اہل بیت کی یہ حالت ہوئی کہ عبداللہ ابن زبیر شہادت امام مظلوم کی خبر سنتے ہی ممبر پر گیا اور فضائل و مصائب بیان کرنے لگا ( طبری ج/٢ ص/٣٩٦) اور اس کا دوسرا بھائی مصعب ابن زبیر جب عبد الملک ابن مروان سے جنگ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو واقعات کربلا اور شہادت حسین کے حالات سننے کی خواہش کرتا ہے. ان واقعات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ واقعات کربلا میں کس قدر اثر تھا کہ دشمن تک ذکر کرنے کو مجبور ہو جاتے ہیں. جب دشمن کی یہ حالت تھی تو دوستوں کا کیا عالم ہوگا. شیعان علی سخت مضطر اور بیچین تھے کربلا کے مظالم کو یاد کرکے روتے تھے جذبہ انتقام سے مجبور ہوکر امور حکومت کے خلاف انقلاب پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے.

تبصرے
Loading...