شخصیت شہید مطہری و افکار و خصوصیات اور اثرات

تحریر :سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی। اسلامی تاریخ کے ہر دور میں ایسے علماء اور فقہاء گزرے ہیں جنہوں نے عمر بھر اسلام کی بقا اور فروغ کے لئے جدوجہد کی اور اسلام کے اوپر کئے گئے اعتراضات کا جواب دینے اور اسلام کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لئے جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ایک طرف ان علماء نے بیرونی دشمنوں کی طرف سے مکتب اسلام پر کئے گئے اعتراضات  کا بھر پور جواب دیا تو دوسری طرف خود نادان مسلمانوں کی طرف سے دین میں کئے گئے تحریفات اور غیر اسلامی رسومات(جن کی وجہ سے دین کا حقیقی چہرہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا)کے خلاف آواز بلند کی،دین کو ایک حیات بخش نظام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس راہ میں ہر قسم کی مشکلات اور اتہامات کو بھی برداشت کیا۔
عصر حاضر میں مغرب کی طرف سے اسلام کے خلاف ہونے والے فکری اور ثقافتی یلغار کے خلاف علمائے حق، سید جمال الدین افغانی،امام خمینی اور شہید مطہری جیسی شخصیات نے حقیقی اسلامی فکر کے احیا اور بیداری کے لئے بے پناہ قربانیاں اور کلیدی کردار ادا کیا ہے خصوصاً اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں شہید مطہری کے افکار انتہائی اہمیت کےحامل ہیں۔

افکار مطہری کے اثرات:

شہید مطہری عصر حاضر کی وہ بے مثال شخصیت ہیں جس کے نظریات اور بلند افکار نے اسلامی معاشرے کی فکری و اجتماعی تبدیلی میں بہت اہم کردار ادا کیا اور اسلامی بیداری ، انقلاب اسلامی کے پیغام،اجتماعی اور سیاسی پہلو کے احیا سمیت مغرب کے الحادی نظریات کے بطلان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

زیر نظر مضمون میں آپ کے دینی افکار اور خصوصیات  کا مختصر جائزہ لیں گے۔

مطہری کی علمی منزلت:

مطہری ایک ایسے فقیہ تھے جن کو اسلام کے اصول اور مبانی سمیت ہر موضوع پردسترس حاصل تھا ،آپ اس بات کے معتقد تھے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں انسانیت کے لئے درپیش مشکلات کا حل موجود ہے اور اسلام ہر حوالے سے ایک بے نیاز اور کامل مکتب ہے۔

تفسیری روش:

آپ ایک ایسے مفسر قرآن ہیں کہ  جن کو تفسیر کی گوناگوں اقسام پر عبور حاصل تھا آپ نے تفسیر قرآن بالقرآن،پیغمبر وائمہ کی روایات ،عقلی اور فلسفی روش سے استفادہ کیا لیکن سب سے اہم خصوصیت، قرآنی آیات کے اندر تدبر اور تعقل ہے، جس کے ذریعے الحادی مکاتب فکر اور آیات قرآنی سے غلط استفادہ کرنے والوں کو آپ نے دندان شکن جواب دیا۔

انحرافات سے مقابلہ:

دین اسلام کی تعلیمات سے ناآشنائی،اس کی من پسند تفسیر اور خرافات نے دین مقدس کے اصلی پیغام کو نظروں سے اوجھل کردیا اور اس کی جگہ دین کو صرف چند رسومات کے مجموعے کے طور پر پیش کیا۔شہید مطہری نے اس انحرافی طرز فکر کا مقابلہ کیااس راہ میں آپ کوجامد فکر رکھنے والے متعصب اورتنگ نظر افراد کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔آپ نے خصوصاً عزاداری میں پائے جانے والے غلط رسومات اور انحرافات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ساتھ ہی قیام امام کے اصلی مقصد اور واقعہ عاشورا کی حقیقی اقدار کو زندہ رکھنے اور ائمہ کی زندگی کے درخشاں اور مجاہدانہ پہلو سے معاشرے کو روشناس کرایا۔ 

مغربی علوم سے آشنائی:

ایک ایسے دور میں جہاں علماء  کے بارے میں یہ تصور پایاجاتا تھا کہ وہ صرف اسلامی علوم سے آگاہی رکھتے ہیں اور مغربی افکار ونظریات سے نابلد ہیں آپ نے یہ ثابت کردیا کہ علمائے دین اسلامی علوم کے ساتھ نہ صرف مغربی افکار اور نظریات سے آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کے نظریات کو باطل ثابت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور آپ نے انقلاب سے پہلے اور بعد میں مغرب زدہ افراد کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے اشتباہ اور انحراف کو گہرائی سے سمجھا اور چشم پوشی کئے بغیر ان کے ساتھ سختی سے مقابلہ کیا۔مغربی نظریات پر اپنی محکم دلائل کے ذریعے اسلام کے حقیقی نظریے کی برتری کوثابت کیا۔

الٰہی تصور کائنات پرنظریات کی تشریح:

شہید مطہری کو اگرچہ مختلف علوم پر مکمل عبور حاصل تھامگر آپ دیگرتمام علوم کے حق اور باطل کا معیار قرآن وسنت ہی کو قرار دیتے تھے ،آپ اجتماعی،فلسفی،عرفانی ، تاریخی اور دیگر مباحث میں اسلامی آئیڈیالوجی پر اعتماد کرتے تھے اور کسی بھی مصلحت کاشکار ہوئے بغیر مسائل کوصراحت کے ساتھ بیان کرنے کے ساتھ اسلام کےفکری،اعتقادی اور فلسفیانہ پہلو کو اجتماعی اور سیاسی افکار کے لئے بنیاد قرار دیتے تھے۔

عالمِ زمانہ شناس:

انقلاب اسلامی کی کامیابی میں امام خمینی(رح) کے بعد آپ دوسری شخصیت ہے جنہوں نے انقلاب اسلامی کے لئے ثقافتی  اور سیاسی دونوں سطح پرجدوجہد کی۔ایک طرف آپ نے انقلاب کے لئے مختلف گروہوں کو منظم کیا اس سلسلے میں آپ کا تمام فقہاء اور مجتہدین  سے رابطہ تھا۔آپ کی فعالیت اور جدوجہد نے آپ کو تاثیر کے اعتبار سے دوسری اہم شخصیت بنا دیااور امام خمینی(رح) کی ملک بدری کے دور میں بھی آپ کا ان سے خصوصی رابطہ تھا ایران کی صورتحال کے علاوہ آپ دنیا میں امت اسلامی کے مسائل سے آگاہ تھے اور مسلمانوں کی مشکلات کا حل وحدت اسلامی اور قرآن وسنت پرعمل پیرا ہونے کو ہی سمجھتے تھے۔

آپ نے انقلاب  کی کامیابی سے پہلے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور مسلمانوں کی بے حسی پر آواز بلند کی۔آپ نے روزِعاشور کی ایک تقریر میں فرمایا:
’’اگر ہم اپنی عزت ووقار کے متمنی ہیں،اگراپنا احترام پیدا کرنا چاہتے ہیں‘اگر خدا اوررسول کی نظر میں محترم ہونا چاہتے ہیں‘اگراقوام عالم کی نظر میں عزت ووقار کے خواہشمند ہیں‘تو ہم پر لازم ہے کہ اس اصول کو زندہ کریں۔اگر آج پیغمبر اسلام بقیدحیات ہوتے،تو کیا کر رہے ہوتے؟کس مسئلے کے بارے میں فکر مند ہوتے؟واللہ باللہ میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرمؐ اپنے مرقد مطہر میں یہودیوں کی طرف سے کئے جانے والے مظالم پر لرزہ اندام ہوں گے۔یہ دو جمع دو چار کی طرح کا مسئلہ ہے اگر کسی نے (مسئلہ فلسطین کے بارے میں) نہیں بولا،تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے،اگرمیں خاموش رہوں ‘تو واللہ گناہ کا مرتکب ہوں گا۔کسی بھی خطیب اور کسی بھی واعظ نے اگر اس بارے میں خاموشی اختیار کی ،وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔

اسلامی فکر کا احیا:

اسلام کے اوپر کئے گئے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا ہے اس دور میں انسان نے ترقی نہیں کی تھی آج دنیا نے ترقی کی ہے اور انسان کی نجات وکامیابی کے راستے ڈھونڈ لئے ہیں۔اسلام کا نظام بوسیدہ وکہنہ ہوچکا ہےجو کہ اب قابل عمل نہیں۔

شہید مطہری نے اس قسم کے نظریات اور اعترضات کامدلل جواب دیا اور ان اعتراضات کا اصل سبب،حقیقی اسلام اور اس کے مفاہیم سے ناآشنائی کو قرار دیااور اسلام کی اصل روح کےاحیاپر تاکید کی۔
1۔ مثلاً یہ اعتراض؛ اسلامی تعلیمات دور حاضر کے مسائل حل کرنے سے عاجز ہیں اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:اسلام کے قوانین جاویداں ہونے کی وجہ سے اس میں کمی وبیشی ناممکن ہے بلکہ خود اسلامی قانون اولیہ وثانویہ اور ثابت ومتغیر ہے اور مجتہد جامع الشرائط وآگاہ اجتہاد کے ذریعے جدید موضوعات وسوالات کے جوابات استنباط اورزمانے کے تقاضوں کے مطابق راہ حل پیش کر سکتے ہیں اور قرآن کریم تمام ادوار کے لئے ہے اورانسانی معاشرے کے اجتماعی،سیاسی اور اقتصادی مسائل کا حل بھی، اجتھاد اورقرآن کو جدید مصادیق پر تطبیق کر کے پیش کرنا ممکن ہے۔ 
2۔اسلام کے فہم میں ایک اہم رکاوٹ بعض اسلامی مفاہیم کی غلط تفاسیر ہیں جو اسلام کی اصل روح سے ناآشنا افراد نے پیش کیا ہے ۔جو اسلام کو چند بے روح رسومات کا مجموعہ بنا کر پیش کرتے ہیں،مگر آپ نے ان جامد اور نقصان دہ رسومات اور نظریات کے خلاف کھل کر مقابلہ کیا۔ 
3۔دین کے اجتماعی پہلو کونظر انداز کر کے اس کے انفرادی پہلو پر توجہ بھی اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات کا ایک سبب ہے آپ کاشمار ان شخصیات میں ہوتاہے جنہوں نے اس اہم اجتماعی پہلو کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

معاشرے کی ضروریات پر نظر:

آپ اپنی تقاریر وتحریروں میں معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے تھے ۔ایسے موضوع پر قلم اٹھاتے تھے جس پر کسی شخصیت نے قلم نہیں اٹھایا ہو یا اس موضوع پر مکمل بحث کرنے کی ضرورت ہو ہو اسی پر زیادہ تر توجہ دیتے تھے ۔اس لئے شہیدمطہری  نے اسلامی معارف کو عام فہم،اسلامی معاشرے کی ضروریات اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے اور مختلف افراد اور گروہوں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔

روح شجاعت وشہامت :

آپ  انقلابی طبیعت کے مالک انسان تھے آپ کے آثارمیں ایک انقلابی روح موجود ہے جس کا مطالعہ کرنے والا تبدیلی اور اصلاح کے لئے عملی قدم اٹھاتا ہے۔
 امام خمینی(رح) نے آپ کے تمام آثار کو نوجوان نسل کے لئے مفید قراردیتے ہوئے فرمایا:
’’مرحوم مطہری ایک ایسا فردتھا جس میں مختلف پہلو جمع تھا جو خدمت، جوان نسل اور دوسروں کے لئے مطہری نے انجام دی ہے، کسی نے انجام نہیں دی ہے اس کے تمام آثار بغیر استثناء مفید ہیں، میں نے کسی اور کو نہیں پایا ہے جس کے بارے میں کہہ سکوں کہ اس کے تمام آثار خوب ہیں،شہید کے تمام آثار بلا استثناء مفید اور انسان ساز ہیں۔

اسلامی مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عظیم شہید کے افکار اور علمی آثار سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کے لئے درپیش مشکلات کا حل پیش کریں اور آپ کے انقلابی افکار سے معاشرے کو روشناس کرائیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...