سیرت رسول اعظم (ص) کا درخشاں پہلو وحدت و اتحاد

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن

اہمیت وحدت
وحدت کائنات کی سب سے مضبوط رسی ہے جس سے انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی سلامتی وابستہ ہے ،ایک سالم معاشرے کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد اور اتحاد کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن اسی کے برعکس جب لوگوں کے فکر و خیال ، آسائش حیات اور طریقۂ زندگی میں رشتۂ اتحاد و اتفاق برقرار نہ ہو اور لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کے شکار نظر آئیںتو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہیں سے معاشرے کی تنزلی کا آغاز ہو چکا ہے ،معاشرہ خوش بختی کی قدروں سے آہستہ آہستہ دور ہو رہاہے اور اس کی بنیادیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔
زندگی کے حادثات اور خواہشات نفس انسان کے لئے مشکلات پیدا کردیتے ہیںاور اس کے حل کرنے میں وہ دوسروں کے تعاون سے مستغنی نہیں ہوتاہے ،اسی لئے معاشرے کو مختلف طبقے میں تقسیم کیاگیاہے تاکہ ہر طبقہ کا انسان اپنے اپنے انداز سے تعاون کا ہاتھ بڑھائے ،ایک فرد کا تعاون چاہے وہ کتنا ہی ناچیز ہو معاشرے کی ترقی و تکامل میں بہرحال موثر و مفید ہوتاہے اور اجتماعی نقائص کے بعض حصوں کی تکمیل کرتاہے ۔
چونکہ معاشرے کے حالات افراد میں مجسم ہیں اسی لئے ہم مختلف اعتبار سے معاشرہ کو انسانی بدن سے تشبیہ دے سکتے ہیں،جس طرح انسان کا بدن اپنے مختلف اجزاء سے مرکب ہے جس میں فطری رابطہ پایا جاتاہے اور اس ارتباط کی بناء پر انسان کی بقاء موقوف ہے اسی طرح معاشرہ بھی اپنے اجزا(افراد ) سے مرکب ہوتاہے اور معاشرے کی بقاء بھی اس بات پر موقوف ہے کہ اس کے افراد متحد ہوکر اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔
اسلام کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ جس طرح اس کے افکار و عقائد کی بنیاد توحید پر رکھی گئی ہے اسی طرح اسلامی معاشرہ کی بنیاد میں بھی توحید،اتحاد اور وحدت ملحوظ ہے اسلام کی نظرمیںانسان ایک بہت بڑے معاشرے کا نام ہے اور افراد انسان اس کے اعضاء ہیں ایک عظیم فکری تحول کی بنیاد پر انسانوں کے تمام اختلافات اس عظیم معاشرے سے ختم ہوجاتے ہیںاور سب کے سب محبت والفت کے اٹوٹ رشتے سے منسلک ہوجاتے ہیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:”باایمان معاشرے کے افراد مہر ومحبت کے لحاظ سے ایک بدن کی طرح ہیں،بدن کے کسی حصے میں جب کبھی درد پیدا ہوتاہے تو سارے اعضاء اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں”۔(١)
اسی طرح اگر کوئی مسلمان رنج و غم میں مبتلا ہوجائے تو معاشرے کے تمام افراد پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں اور اس کے غم میں شریک ہو جائیں۔
تمام لوگوں کا سکون اور زندگی کی راہ میں پیدا ہونے والی مشکلوں سے نمٹنا اسی وقت ممکن ہے جب تمام لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کا تعاون کرنے کا جذبہ موجود ہو اس لئے کہ جب تک رشتۂ اتحاد مضبوط نہ ہوگا معاشرے کی گاڑی کا پہیہ ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔
خدا وندعالم نے وحدت و اتحاد کو معاشرے کی رشد و ترقی میں اہم ترین کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد معاشرہ کو باہم متحد رہنے کی خصوصی تاکید کی ہے : ” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ،اور تم جہنم کے دہانے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتاہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔(٢)
ایک دوسری آیت میں خداوندعالم نے اسلامی وحدت و اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے اختلاف کی شدید مذمت کی ہے ،خداکا ارشادہے : خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پید اکیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ہے ۔(٣)
دین اسلام کے رہبروں نے بھی اسلامی معاشرے کی ترقی میں وحدت کو اساسی حیثیت دے کر تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دی ہے ،حضرت علی فرماتے ہیں: ”جماعت و یکجہتی کی حفاظت کرواور تفرقہ و اختلاف سے پرہیز کرو” ۔(٤)
جو لوگ اسلامی معاشرے میں تفرقہ اندازی کے لئے اقدامات کرتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہوئے حضرت علی فرماتے ہیں: ”تم میں بد ترین افراد وہ ہیں جو سخن چینی کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں”۔(٥)

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ،بانی وحدت
بعثت سے پہلے جزیرة العرب عجیب وغریب حالات و ماحول سے دوچار تھا ،اس وقت پورا معاشرہ کفر و جہالت کی بھرپور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ،ہر طرف چوری ،رہزنی قمار بازی ،قتل و غارت گری اور نزاع و اختلاف کا بازار گرم تھا ، ضلالت و تاریکی میں ان کی زندگی بری طرح ڈوبی ہوئی تھی ،قبیلہ گرائی پر اپنی جان نچھاور کر دینا ان کی زندگی کا سب سے عظیم مقصد تھا ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ قتل و غارت گری کے لئے ہی پید ا ہوئے تھے۔
جس جگہ ایک اوٹنی کے بچے کے لئے چالیس چالیس سال تک دو قبیلوں کے درمیان تلوار چلتی رہی ہو وہاں کی قوم پرستی کے متعلق کچھ لکھنا یقینا محال ہے ۔
ایسے متفرق اور متعصب ماحول میں اسلام کا حیات بخش پیغام پہونچانا بہت مشکل تھا اسی لئے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے مبلغ الہی ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے اس مردہ جسم معاشرہ میں روح وحدت و یکجہتی پھونکی تاکہ ایک دوسرے کے تعاون اور ہمکاری کے ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں غور وفکر کریں اور نزاع و اختلاف کو برطرف کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر آکر زندگی کی گاڑی آگے بڑھائیں۔
وحدت و یکجہتی ہی ترویج معارف میں اہم کردار اداکررہی تھی اور اس کو بنیاد بنا کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے دین کے ارکان کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا یا ۔ایک انگریز محرر ”ہنری لوکاس ”اس حقیقت کو درک کرتے ہوئے کہتاہے :عرب ایک منظم معاشرہ نہیں تھا اور نہ ہی صلح و آشتی سے بہرہ مند تھا ،اس کے درمیان صلح و آشتی ایجاد کرنے کی سب سے بڑی علت اور اہم ترین سبب رسول اسلا صلی اللہ علیہ و آلہ م کا عربستان میں روح وحدت پھونکنا تھا۔(٦)
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں ترویج معارف اور اصلاح معاشرہ میں وحدت کی بے پناہ اہمیت تھی اسی لئے جب آپ نے مکہ میں وحدت و یکجہتی کا ماحول نہیں دیکھا تو مدینہ ہجرت فرمائی اورمدینہ میں سب سے پہلا حیات آفریں اقدام وحدت و یکجہتی ایجاد کرنا تھا۔آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان رشتۂ اتحاد قائم کرکے بتایا کہ قوم و قبیلہ کچھ نہیں ہے اور نہ ہی قوم و قبیلہ کے جھگڑوںمیں پڑکر اپنی زندگی کو مناسب صورت حال سے دوچار کرسکتے ہو بلکہ یہ رشتۂ اتحاد ہے جس کے سایہ میں آکر تم پوری دنیا کو مسخر کر سکتے ہو۔قرآن مجید نے (انما المومنون اخوة )کے عمومی خطاب کے ذریعہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ کے اس اقدام کو ابدی اور دائمی شکل دی اور بتایا کہ ہر دور کے انسانوں کے استحکام کا واحد ذریعہ ”اتحاد اوراخوت”ہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی سیرت و زندگی گواہی دیتی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں اسلامی اخوت و اتحاد کی حفاظت میں کافی مصمم تھے اور اس پر سختی سے عمل کرتے تھے ،ایک واقعہ اس سلسلے میں کافی اہمیت کا حامل ہے ”غزوۂ مصطلق” سے واپسی پر لشکر اسلام ایک کوئیں کے پاس آرام کرنے لگا ،اسی دوران عمر نے جو مہاجرین میں سے تھے اپنے غلام ”جہجاء ”کو بھیجا تاکہ وہ کوئیں سے پائی لائے ،وہ غلام پانی نکالتے وقت ایک سنان نامی انصار سے اختلاف کر بیٹھا ،ایک نے انصار کو اور دوسرے نے مہاجرین کو اپنی نصرت کے لئے طلب کیا ۔جب کافی لوگ جمع ہو گئے تو منافقین کا رئیس ”عبد اللہ بن ابی ”موقع سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنی غلط سلط باتوں سے انصار و مہاجرین کے درمیان پھوٹ ڈالنے لگا ۔جب رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فورا چلنے کا حکم دیا۔ان میں بعض کو رات و دن اپنا سفر جاری رکھنے کی تاکید کی اور بعض قافلہ رکنے کی وجہ سے خواب غفلت میں سوگئے ۔رسول اسلام نے خاص طور سے یہ کام انجام دیا تاکہ لوگوں کا اتحاد پراگندگی کا شکار نہ ہو،مدینہ پہونچنے کے بعدسورۂ منافقون نازل ہوا اور یہ قضیہ ختم ہوا۔(٧)
اس کے علاوہ آپ نے بہت سے ایسے اقدامات کئے ہیں جو اتحاد و یکجہتی کی منھ بولتی تصویر تھے چنانچہ عرب کے دو بڑے قبیلوں ”اوس و خزرج ”کے درمیان بہت پرانی دشمنی تھی رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے درمیان صلح کرادی تھی اور انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنادیاتھا لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھی ٹھن جاتی تھی اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ آپس میں متحد رہنے کی تلقین کرتے تھے ۔
خداوندعالم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس حیات آفریں اقدامِ اتحاد کو نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :”اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ،اس وقت خدا نے تمہارے دلوںمیں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی پس اس کی نعمت کے سبب تم بھائی بھائی بن گئے” ۔(٨)

مسلمانو! خواب غفلت سے جاگو
کتنا افسو س ہوتاہے اس وقت جب انسان کے دامن حیات میں اصول معاشرت کے درنایاب موجود ہوں اور پھر بھی وہ افلاس کا شکار نظر آئے ،آج مسلم معاشروں کے لئے سب سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ جس امت کے پیشوا اور رہبر نے جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی اور جسے انسانوں کی ترقی اور زینت و آرائش کاذریعہ قرار دیاتھا وہی آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جارہی ہے ۔آج مسلمان سب سے زیادہ کمزور ہیں اس کی سب سے بڑی علت یہ ہے کہ آپس میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے ،آج کے مسلمانوں کے پاس (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا)کا حیات بخش اور مستحکم نسخہ تو ہے لیکن اس پر غور وفکر کرنے اورعمل کرنے کا موقع نہیں ہے ۔
اسپین میں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سال حکومت کی لیکن جب ان کے اندر تفرقہ کا مرض پید اہوا تو آہستہ آہستہ ان کی حکومت جاتی رہی ،ذرا سوچئے !جس ملک میں مسلمانوں کا طوطی بولتاہو ،آج اس اسپین میں مسلمان خوف و ہراس کی زندگی گذار رہاہے ۔ایسا کیوں…؟اس لئے کہ ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے ،انہوں نے اپنے آپ کو اتنا کمزور کر لیاہے کہ اب اپنی ہی سر زمین پر بے بسی اور زبوں حالی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:”اے لوگو! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرتے اور باطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہوتے ”۔( ٩) باطل پرست لوگوں کے قوی اور مستحکم ہونے کی علت صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ لوگ آپس میں متحد تھے اور ایک مضبوط اور مستحکم قوم حق پر ہونے کے باوجود پسپا اس لئے ہوئی کیوں کہ وہ اختلاف کے شکار تھے ،امام علی فرماتے ہیں:”یہ لوگ اپنے باطل پر مجتمع ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو” ۔(١٠)
”ایھا الناس” کا عمومی خطاب آج کے مسلم معاشروں میںزندگی گذارنے والے ہر مسلمان کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ رہاہے کہ اگر تم متحد نہیں ہوئے اور اسی طرح اختلاف کے شکار رہے تو تم پر ایسی قوم مسلط ہوجائے گی جو تمہیں بہت جلد تباہی کے گھاٹ لگا دے گی ،امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:” خدا کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ عنقریب ہی یہ حکومت تم سے چھین لی جائے گی اس لئے کہ باطل پرست اپنے باطل پر متحد ہیں لیکن تم لوگ حق پر بھی متحد نہیں ہو ”۔ (١١ )
آج افغانستان،فلسطین اور عراق کی بگڑی ہوئی حالت مولا کے اس قول کی تصدیق کررہی ہے ،اور لوگوں کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ اگر اسی طرح اختلاف کے شکار رہے تو استعمارکادست قدرت پھیلتاہو ا ایک دن تمام مسلم ممالک کی اساس کو کمزور بناکر اپنے قبضے میں کر لے گا ۔
آج کے مسلم معاشروں کوکل کا اسلامی اور اتحاد سے بھرپور معاشرہ لمحۂ فکریہ دے رہاہے کہ وہ باہم متحد ہو کر اسی طرح اپنے دشمنوں سے نبرد آزما ہوں جس طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے مسلمانوں کو اتحاد کا زریں اور مستحکم لباس پہناکر اپنے دشمنوں سے مقابلہ کیا تھا۔

حوالہ جات
١۔سفینة البحار ج١ ص٥٦
٢۔آل عمران ١٠٣
٣۔آل عمران ١٠٥
٤۔شرح غرر الحکم ج٢ ص ٤٠
٥۔صول کافی ج٢ ص٣٦١
٦۔نقل از سیرۂ پیامبر اعظم بانگاہی دیگر ص١٢٤
٧۔المیزان ج١٩ ص٢٨٣ ۔٢٨٥
٨۔حجرات ١٠
٩۔نہج البلاغہ خطبہ ١٦٦
١٠۔ایضاً خطبہ ٢٧
١١۔ایضاً خطبہ ٢٥

تبصرے
Loading...