حج اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسیاسلام کی تمام تعلیمات اور احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا اجتماعی سب کے گوناگوں آثار اور فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔اسلام شناس افراد ہر دور میں ان تعلیمات کی آفاقیت اور ان کے ہماری زندگی پر اثرات سے متعلق بحث کرتے آئے ہیں۔مثلاً اسلام کے عملی احکام نماز، روزہ، زکوۃ،خمس ،حج اور دیگر اعمال اگرایک طرف ان میں عبادی پہلو ہے تو دوسری طرف ان میں امت مسلمہ کے لئے اتحاد واتفاق کا بصیرت افروز درس پنہاں ہے ۔ان ہی اہم اور وسیع انسانی زندگی پر اثرات کے حامل اعمال میں سے ایک حج ہے جو کہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔نماز جماعت اور حج بیت اللہ اتحاد امت کا مثالی نمونہ ہےحج دنیا بھر سے حجاز مقدس میں آئے ہوئے مسلمانوں کی باہمی اور ہم آہنگی کے ساتھ امت کی وحدت کا بہترین اظہار ہے۔ہم زیر نظر مضمون میں حج کے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔

۱۔اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں!

۲۔حج کا اجتماعی پہلو قرآن و سنت کی روشنی میں!

۳۔حج کے اعمال میں وحدت کے آثار!

۱۔اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں:

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اجتماعی حکم اتحاد ہے،اسلام مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی طرف بساط سے زیادہ توجہ رکھتا ہے اور اسلامی وحدت،اسلام کے منجملہ عظیم اہداف میں سے ایک ہدف شمار ہوتی ہے ۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔ ‘‘اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور تفرقہ نہ ڈالو۔(۱)اور دوسری جگہ ارشاد فر ماتے ہیں:’’ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجآء ھم البینات۔‘‘اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آنے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کاشکار ہوئے۔(۲)

یہ دونوں آیت مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور اتحاد و وحدت پر محکم دلیل ہے جس میں ہر قسم کے تفرقے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث اور ان کی عملی سیرت بھی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو بہت ہی اہمیت دی ہے ۔احادیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا اور امور مسلمین سے غفلت برتنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا گیا ہے۔یہاں اس موضوع کی مناسبت سے پیغمبرؐ کی ایک حدیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں آپ ؐنے فرمایا:’’ ایھا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد کلکم لآدم وآدم من تراب ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔‘‘اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ،تمہارا باپ ایک ہیں تم سب فرزند آدم ہو اور آدم خاک سے ہیں،بے شک کم میں سے محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگار ہے ،عرب کو عجم کر فضیلت حاصل نہیں مگر تقوی کے ذریعے۔(۳)

یہ جملے اتحاد و وحدت اور ہم آہنگی کی عام دعوت ہے جس کو پیغمبر ؐنے آخری حج کے موقع پر ارشاد فرمایا۔کیوں اس مقام کو اس اعلان کے لئے منتخب کیا؟اس لئے کہ عرصہ قیامت تک جو اعمال حج برپا ہیں،لوگ آئیں اور اپنے عظیم پیغمبر ؐ کی وصیت کو یاد کریں اور اس  سے آگاہ ہوں اور اختلاف وتفرقہ میں نہ پڑھیں۔یہاں دوستی وبرادری کے عنوان سے ایک دوسرے سے صمیمیت کے ساتھ ہاتھ ملائیں،اختلاف وموانع کو ختم کریں۔مادی ومعنوی عہدو پیمان اور مبادلات کے ذریعے آپس میں تحریری فرمان(agrement)برقرار کریں۔

۲۔حج کا اجتماعی پہلو قرآن و سنت کی روشنی میں:

حج کے ارکان ومناسک اور اس سلسلے میں حاجی کے اوپر عائد ذمہ داریوں پرنظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اللہ سے انسان کا معنوی رابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل اور کفر استکبار کے خلاف اظہار نفرت اور آپس میں تعاون اور ہمکاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔سرزمین وحی کا یہ سالانہ اجتماع ایک بیش قیمت موقع ہے اس میں اسلامی دینا کو درپیش مشکلات ومسائل کو بیان کیا جاسکتا ہے ۔باطل کے مقابلے میں حق کی تقویت کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔اسلامی فرقوں کے پیروکارو خصوصاً علماء باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اورامت واحدہ کی تشکیل کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے۔

حج کا سب سے اہم فائدہ اتحاد امت:

’’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔لیشھدوا منافع لھم  ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منہاواطعموالبائس الفقیر۔‘‘

اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔تاکہ وہ ان فوائد کامشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیںاور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کئے ہیں،پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔(۴)

اس آیت میں ’’لیشھدوا‘‘ اس مقصد کی علت ہے ۔یہ آیۃ بطور صراحت اعلان کر رہی ہے کہ حج دنیوی اور اخروی منافع پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے آئیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہوں اور ایک دوسرے کے مسائل،مشکلات اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں اور ان کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ یعنی  ہر فائدہ شامل ہے لیکن ان میں سے سب سے  بنیادی فائدہ مسلمانوں کی قدرت وشان وشوکت کاعملی اظہار ہے جس سے ان میں ایک ہی امت کا تصور ابھرتا ہے اور ایک ہی مرکز سے اپنے اخوت وبھائی چارگی اور آپس میں ہمدردی کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کا عملاً انکار ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا آپس میں تعاون:

’’وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔‘‘نیکی اور تقوی  میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔(۵) 

یہ آیت بھی احکام حج کے بارے میں نازل ہوئی ہے ،جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے نیک کاموں میں ایک دوسر کے ساتھ تعاون اور ہر قسم کی برائی سے روکنے کاحکم دیا گیا ہے ،حج ایک اہم موقع ہے جہاں مسلمان پوری دنیا کو امن محبت کا گہوا رہ بنانے کے لئے  ایک  عالمی منشور مرتب کرے اور اس منشور کو عملی جامہ پہنانے  کے لئے ہر سال حکمت عملی حج کے مبارک ایام میں ہی بنائے اور تمام مسلمانوں کو اپنی زبان میں وہ منشور پیش کرے اور مسلمان علما ودانشوروں کو اس سلسلے میں ایک بھاری ذمہ داریاں سونپ دے۔تاکہ ہر ایک علاقے،شہر اور ملک میں اس کو اجرا کرنے اور اس کو ہر فرد تک پہنچانے کی کو شش کرے جس طرح پیغمبر نے حجۃ الوداع میں ایک عالمی منشور مسلمانوں کو پیش کیا اور حاظرین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ پیغام غائبین تک پہنچائیں۔

استکبار جہاں کے خلاف اتحاد کا عملی اظہار:

’’وآذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فھو خیرلکم۔‘‘اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کارسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگرتم توبہ کر لوتو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۶)

اسلام دشمن عناصر سے اور مشرکین سے اظہارنفرت کا بہترین موقع حج ہے کیونکہ اس میں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہوکر ایک باعظمت اجتماع برپا کرتے ہیںاور ایسا اجتماع دوسرے کسی فریضے میں ممکن نہیں۔ اور یہ اجتماع مسلمانوں کا مشترکہ اور متحد طور پر خدا ورسول کے دشمنوں سے اظہار نفرت اور برائت کے لئے بہت اہم فرصت ہے ۔جس میں اجتماعی طور پر اسلام دشمن اور استکبار جہاں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔

سیرت پیغمبر ؐ اور ائمہؑ:

حجۃ الوداع جو پیغمبرؐ کا پہلا اور آخری حج تھا جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اصحاب کے ہمراہ بجالایا اس حج کی خصوصیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پیغمبرؐ نے اعمال حج کی شکل میں اسلام کی طاقت،مسلمانوں کی عظمت و قیادت کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور تجلی روح توحیدکو،اتحاد وہمبستگی،استحکام واستواری،یکجہتی وہمدلی،اخلاص وطہارت نفس اور تمام کام صرف خدا کے لئے انجام دئیے جانے میں بتایا،پیغمبر اسلامؐ نے اس حج میں تمام مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے افراد سے ایک متحدہ طاقت وجود میں لائی جاسکتی ہے ،صحیح وسالم قیادت کے سائے میں اہداف ومقاصد کو متحد کیا جاسکتا ہے ۔آپ نے اس حج میں مکہ ومنی اور عرفات کی میدانوں میں خطبات دیئے اس میں سب سے بنیادی نکتہ مسلمانوں کے آپس کی اخوت وبھائی چارگی اور ایک دوسرے پر عائد ہونے والے حقوق اور فرائض کو ذکر کیا ہے۔

حج اور قیادت امت:

حج کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر ؐ کی قیادت کا مشاہدہ کیا اور اعمال حج کی بجاآوری میں اور اس کے اہداف تک پہنچنے میں  آپ کی قیادت کے کرادر کو اچھی طرح درک کیا اور آپؐ نے اس عظیم اجتماع کے اختتام پر اپنے بعد ایک الٰہی قیادت کا اعلان کیا اور اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ امت کو متحد رکھنے اور ایک منزل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے ایک صالح قیادت ضروری ہے کیونکہ قائد کے بغیر نہ حرم کی حرمت باقی رہے گی نہ عرفات کی معرفت حاصل ہوگی نہ مشعر میں شعور ہوگا،نہ منیٰ میں ایثا وفداکاری نظر آئے گی،نہ زمزم میں زندگی کی علامت ہوگی نہ صفا میں صدق وصفا ہوگا۔اور پیغمبرؐ کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے پیغام دیتا ہے کہ امت اپنے اس عظیم اجتماع فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صالح قیادت کا انتخاب کرے۔

حضرت علی ؑحج سے متعلق اپنے کلمات میں بعض اسلامی قوانین کے فلسفہ کے بیان کے ضمن میں فرماتے ہیں:

’’والحج تقویۃ للدین۔‘‘

یعنی فلسفہ حج دین کی مضبوطی ہے۔(۷)

حج کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف واکناف عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش وعبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔حج کے اجتماع سے مسلمانوں کے روابط مستحکم ہوتے ہیں مزید مسلمانوں کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اس وسیلے سے اسلام زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

 ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے

’’ لایزال الدین قائما ماقامت الکعبہ۔‘‘

جب تک کعبہ قائم ودائم ہے اسلام بھی قائم ودائم ہے۔یعنی جب تک حج زندہ وپائندہ ہے اسلام بھی زندہ وباقی ہے ۔کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے ،مسلمانوں کی وحدت اور استقلال کا رمز وراز ہے ۔یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ بغیر سمجھے بوجھے مکہ جائیں اور صرف ایک قسم کی خودبخود بغیر سمجھے بوجھے عبادتیں اور اعمال بجالائیں۔بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے پرچم تلے یعنی وہی گھر جوپہلی مرتبہ لوگوں کے درمیان خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا،ایک قوم وملت کی صورت میں ہم عزم،ہم رزم اور ہم بزم ہونے کے لئے جمع ہوں۔اسلام کااصل اور بنیادی شعار ’’توحید‘‘ ہے کعبہ مرکز توحید ہے ۔(۸)

اس کے علاوہ ائمہ ؑ نے حج کے ایام میں امت کی بیداری،احیا اسلام اور ظالموں سے مقابلہ اور امت کے اتحاد کی دعوت دی ہے ان میں وہ عظیم خطبہ جو امام حسین ؑ نے منیٰ کی میدان میں اصحاب وتابعین کے درمیان حج کے دوران ارشاد فرمایا۔

ہشام بن حکم امام صادق  ؑکے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں :میں نے امام ؑ سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا

’’خداوندعالم نے ان تمام بندوںکو پیدا کیا،اور دین ودنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے،ان میں مشرق ومغرب سے(حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے واجب قرار دیا تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہو،ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر ؐ کی احادیث وآثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کر لیں ان کو کبھی فراموش نہ کریں(دوسروں تک پہنچائیں۔)(۹)

امام ؑ کی یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج کے علمی،اقتصادی پہلو ہیں اور موسم حج مسلمانان جہاں کے درمیان ایک نقطۂ اتصال ہے جس کے ذریعے ایک دوسرے کے حالات،دنیا کے حالات،پیغمبر کے آثار سے آگہی جو علماء ومفکرین کے ذریعے شرق وغرب میں نشر ہوتے ہیں۔

۳۔اعمالِ حج میں وحدت کے آثار:

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ان میں سے ایک حج ہے حج اسلا کی وہ عظیم عبادی وسیاسی عبادت ہے جس میں پورا عالم اسلام دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہوتا ہے۔تمام مسلمان ایک ہی رنگ،ایک ہی لباس پہنتے ہیں،سب ایک ہی لباس میں تلبیہ کہتے ہیں،ایک ہی روش پر طواف اور سعی بجالاتے ہیں،تقصیر کرتے ہیں عرفات ،مزدلفہ،اور منیٰ کے مناسک بجالاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ کے ذریعے سب کو ایک کردیا ہے ،اب یہاں سے مسلمانوں کا فریضہ شروع ہوتا ہے جنہیں اللہ نے ایک انداز میں ایک محور پر جمع کردیا ہو ان کے دلوں کو بھی ایک دوسرے سے مل جانا چاہئے اور ایک دوسرے کے لئے دھڑکنا چاہئے انہیں احساس ہونا چاہئے کہ عالم اسلام میں جہاں مسلمان مشکلات کا شکار ہوں گویا انہی کے بھائی ہیں جس دن حج کی اس روح کو مسلمانوں نے درک کر لیا اس دن نہ صرف یہ زندہ عبادت ہوجائے گا بلکہ اللہ کی قدرت کے سائے میں ایک بڑی طاقت بن جائے گا۔(۱۰)

مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ حج کے اس پہلو کے احیا کے لئے جدوجہد کرے اور حج کو صرف ایک رسم سے نکال کر اس روح اور حقیقت کوزندہ کرے اور عملاً مسلمانوں کے عالمی اتحاد کیلئے حج کے پلیٹ فارم کو موثر بنائے اور ان اوقات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے عالم اسلام کے علما،مفکرین،دانشور حج کے اس اہم پہلو پر اپنی توجہ کو مبذول کرے تا کہ حج مسلمانوں کے تمام مشکلات ومسائل حل کرنے اور عالم استعمار کے خلاف امت کے اتحاد کا حقیقی مرکز بن سکے اور ان ایام میں ہر قسم کے ظلم وستم اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکے۔ 

حوالہ جات:

۔البلاغ القرآن۔شیخ محسن علی نجفی

۱۔آل عمران ،آیت۔۱۰۳

۲۔آل عمران۔۱۰۵

۳۔حج۔ص۳۳ شہید مطہری   ناشر مسجد جمکران قم

۴۔الحج۔۲۷۔۲۸

۵۔المائدہ۔۲

۶۔التوبہ۔۳

۷۔نہج البلاغہ۔کلمات قصار نمبر۔۲۵۲  از مفتی جعفر حسین

۸۔حج ص ۳۷  از شہید مطہری

۹۔۱۱۰سوال وجواب۔ناصر مکارم شیرازی

۱۰۔سہ ماہی شعور اتحادشمارہ ٥ ستمبر ،اکتوبر،نومبر۔۲۰۰۸ء

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...