توحید ذاتی در کلام امام رضا علیہ السلام

از قلم: مولانا علی اختر ہندی اصفہانی 

حوزہ نیوز ایجنسی “توحید” اسلام کے سب سے بنیادی  اور اعتقادی اصولوں میں سےایک اصل ہے اور دوسرے معارف  ہستی  اسی توحید سے وجود میں آئے ہیں   یا یوں کہوں کہ  توحید ذاتی ایک ایسی رسی کا نام ہے جسے صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ادیان آسمانی کا ہر فرد اس سے  وابستہ رہا ہے۔

خداوند عالم کے وجود کی معرفت   پڑھنے اور لکھنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا وجود اور توحید فطری ہے یعنی ہر انسان بغیر کسی غور و فکرکے  اپنے خالق کو پہچانتا ہے  جس طرح سے اگر کوئی بھوکا یا پیاسا ہے تو اس کو  یہ سمجھانے کی ضرورت  نہیں  پڑتی کہ تم بھوکے یا پیاسے ہو،  بلکہ وہ شخص خود سمجھ جاتا ہے کہ بھوک یا پیاس لگی ہے۔
  اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں جس سے  توحید کا فطری ہونا ثابت ہوتا ہے  جیسے: اگر کوئی انسان مریض ہوجاے چاہے وہ  مذہبی ہو یا غیر مذہبی اور ڈاکٹر اس کو یہ کہے کہ بھائی تیرے بچنے کی اب کوئی امید نظر نہیں آتی مگر وہ مریض پھر بھی اس امید رہتا ہے کہ کوئی تواس دنیا میں ضرور  ہے  جو  میری مدد کرسکتا ہے اسی امید کا دوسرا نام خدا ہے۔

اسی وجہ سے ہم اپنی اس تحریر میں بطور  نمونہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زبان مبارک سے  توحید اور  انواع  توحید کو ذیل میں قارئین  کی خدمت میں اختصار سے بیان کر رہے ہیں تاکہ امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر اللہ کی معرفت میں اضافہ ہوجاے:

الف) توحید ذاتی: 
یعنی خداوند عالم کی ذات یکتا ہے اور اس کا اس عالم ہستی میں کوئی شریک نہیں ہے یا جملہ کو بدل کر یوں کہوں کہ  خداوند عالم کاکوئی شریک نہیں ہے اور اگر معاذاللہ کوئی دوسرا خدا ہوتا  بھی تو  وہ دوسرا خدا خالق نہیں مخلوق ہوتا کیوں کہ یہ  خدائے ثانی در حقیقت خدائے اول سے وجود میں آیاہے پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ خداوند عالم ہمیشہ واحد ہے اور  وہ کہیں سے نہیں آیا  بلکہ وہ  ہمیشہ  سے تھا۔ 
1۔ خدا وند متعال کے جیسا اورمثل  کوئی نہیں ہے امام سے روایت ہے:
عن الرضا (ع) : فَلاَ تَجْعَلُوا لِلّهِ  أَنْدَاداً ، ای اَشْبَاهاً وَ اَمْثَالاً مِنَ الاَصنَامِ الَّتِی لاتَعقِلُ و لا تَسمَعُ وَلَاتُبْصِرُ وَ لَا تَقِدرُ عَلَی شَیءٍ وَ اَنتُم تَعْلَمُونَ أَنَّها لاتَقدِرُ عَلَی شَیْءٍ.
حضرت امام رضا علیہ السلام سے آیہ مذکور کے بارے میں کہ خداکے لئےکسی کو شریک مت بناؤ  جب  سوال کیا گیا، تو   آپؑ نے ارشاد فرمایا:
خداوند متعال کے لئے بت مت بناؤ کیوں کہ یہ نہ تو  فکر کرسکتے ہیں، نہ ہی سننے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی چیز دیکھ سکتے ہیں۔ جب کہ تم   لوگ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ان بتوں کے اندر یہ سمجھنے والی صفات نہیں پائی جاتی ہیں۔ 
نکتہ:  اوپر کی دو حدیثیں جو ہم نے بیان کی ہیں اگر ہم ان احادیث میں غور کریں تو  میرے مولا  حضرت امام رضاؑ نے توحید کو قرآن سے  استناد کیا ہے یعنی شاید آپ  یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ جو کچھ بھی تم حاصل کرنا چاہتے ہو فقط قرآن سے حاصل کرو۔
2۔ خداوند  ہمیشہ یک و تنہا ہے اس سلسلہ میں امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں: عن الامام الرضا (ع) هُوَ اللَّطِیفُ‏ الْخَبِیرُ السَّمِیعُ‏ الْبَصِیرُ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ وَ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُولَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً أَحَدٌ.(كنز الدقائق ج4 ص418)
خداوند متعال لطیف،دانا،سنے والا، دیکھنے والا،یکتا ہے اور  واحد ہے یعنی  اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا   اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور کوئی اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔

ب) توحید صفاتی
1۔ خداوند عالم کا کوئی مکان ومحل نہیں اس کی وضاحت میں امام نے فرمایا:عن الرضا (ع):یا ابا اصلت انّ الله تبارک و تعالی لایوصف بمکان.  ایک دن  اباصلت نے جو آپ ؑکے سب سے عزیز صحابیوں میں سے تھے مکان خدا کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اے اباصلت، یہ بات اچھی طرح سے جان لو کہ خداوند عالم کا کوئی محل اور مکان نہیں ہے۔
2- خداوند متعال کو چشم سے دیکھا نہیں جا سکتا: عن الرضاإِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی لَا یُوصَفُ بِمَکَانٍ وَ لَا یُدْرَکُ بِالْأَبْصَارِ وَ الْأَوْهَامِ۔(عيون أخبار الرضا عليه السلام، جلد‏1، صفحه 116 – 115) یعنی در حقیقت خداوند متعال کو کسی مکان و محل  سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا کوئی مکان نہیں اس کو کبھی بھی آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا۔
3- خدا ،مخلوق  جیسا نہیں :
الف) عن الإمامُ الرِّضا عليه السلام:مَن شَبَّهَ اللّه َتعالى بخَلقِهِ فهُو مُشرِكٌ»(التوحید، ج1ص80)جس کسی نے بھی خداوند متعال کو مخلوق جیسا سمجھا بیشک یہ جان لو کہ وہ مشرک ہے۔
ب) » عن الرضا (ع) :« مَا عَرَفَنِي مَنْ شَبَّهَنِي بِخَلْقِي»  (عون الأخبار ،ترجمه آقا نجفی ;  ج ۱  ص ۷۵) اگر کسی نے بھی ہمیں مخلوق سے تشبیہ دی تو   گویا اس نے مجھے نہیں پہچانا۔
ج) » عن الرضا (ع) : «انّی بری یا الهی من الذین بالتشبیه تلبوک لیس کمثلک شیئی» اے میرے پالنے والے! میں ان  تمام لوگوں سے بیزار ہوں جو تمہیں مخلوق سے نسبت دیتے ہیں جبکہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ کوئی بھی تم جیسا نہیں ہے۔ آپ اپنے اس کلام میں اس آیہ کریمہ«لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْ‏ءٌ »  کے ذریعہ سے استناد کرتے ہیں
آپؑ  در  اصل امت مسلمہ کوباخبر کر رہے تھے کہ خداوند عالم کو ہرگز مخلوق سے نسبت مت دینا  لیکن اگر کوئی خداوند متعال کو مخلوق سے نسبت دیتا ہے تو گویا اس نے قرآن کے مخالف قدم اٹھایا ہے۔

آخر میں اس مبارک موقع پر میں  تمام مؤمنین کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ساتھ میں خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ  دنیا میں  پھیلی ہوئی اس کرونا جیسی مہلک بیماری سے  سب کو نجات دے اور خاص کر ہمارے ملک ہندوستان کو ترقی اور کامیابی عطا فرما اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں پالنے والے آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما آمین ثم آمین۔  والحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے
Loading...