بنی امیہ کا مختصر تاریخی جائزہ

تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی،قم المقدس ایران 

حوزہ نیوز ایجنسی عبد اللہ عائلی ایک سنی عالم دین وہ  فرماتے ہیں بنی امیہ ایک ایسی نسل ہے جس کا طریقہ کا رقریب قریب یہودیوں سے مشابہ ہیں اور یہ سلسلہ تمام خاندانی افراد میں پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی اسکیموں اور پالیسیوں کو  ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔ قدیم مورخوں نے بنی امیہ کو ایک چالاک شیطان صفت رکھنے والی نسل  بتایا ہے ۔ 
اسلام مخالف دوسری جماعتوں کے  مقابلہ میں اس  قوم (بنی امیہ )نے  سب سے پہلے  اپنا نفع و نقصان بھاپ لیا تھا لہذا اس نے اپنی پوری طاقت اسلام کے مقابلہ میں لگا دی  اور جب اس کو لگا اسلام کو  طاقت کے ذریعہ نہیں روکا جا سکتا تو اس نے فتح مکہ ۸ھ کے موقع پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کے بنی پاکﷺ کی بیعت کر لی جب کہ اسلام ان کے دل کی گھرائیوںمیں نہیں اترا تھا۔
وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ (حجرات ۱۴)
مَا أَسْلَمُوا وَ لَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَ أَسَرُّوا الْكُفْرَ فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْهِ أَظْهَرُوه( مکتوب ۱۶)
(وہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے بلکہ اطاعت کرلی تھی اور دلوں میں کفر  کوچھپا رکھا تھا اب جبکہ یاوروں مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کردیا ) 
نبی رحمت ؐنے اپنی حین حیات میں کوئی منصب یا اہم کا م بنی امیہ کے سپرد نہیں کیا  لیکن آپ کی وفات کے بعد بنی امیہ تدریجا اسلامی شعبوں اور اداروں میں اثر انداز ہوتے گئے
تاریخ کی سب سے بڑی تاریخی اور سیاسی غلطی حضرت عمر بن خطاب  کے دور  حکومت میں ہوئی کہ جنھوں نے ۱۴ھ میں  ابوسفیان کے بیٹے کو جس کا نام یزید تھا شام کا گورنر بنا دیا جب وہ  ۱۸ھ میں مرض سرطان مین مرا تو اس کے دوسرے بیٹے معاویہ کو اس منصب پر مقرر کر دیا تقریبا  بیس سال یعنی حکومت حضرت عثمان کے آخری وقت  تک   شام لبنان فلسطین اور ترکی کے بعض علاقوں پر اسکا بھرپور تسلط ہو گیا۔
حضرت عثمان جب خلیفہ بنے اگرچہ دوسرے امویوں سے مختلف تھے مگر پھر بھی  اموی خون ان کے رگوں   میں موجزن تھا جس کی وجہ سے بنی امیہ کو اسلامی مملکت میں پاوں پسارنے کا خوب موقع  ملا اور دور دور تک اپنے  منحوسانہ قدم جما لیئے اور اہم اسلامی  عہدوں جیسے مصر وکوفہ اور بصرہ کی بڑی حکومتوں پر قبضہ کر لیا   ۔ 
ادھر حضرت عثمان کے حکومتی امور میں بیشتر دخالت مروان کی تھی جو داماد کے ساتھ ساتھ چچا حکم کا بیٹا  بھی تھا جن کو نبی اکرمؐ نے اپنی نقل اتارنے کہ سبب باپ  بیٹے دونوں کو مدینہ سے طائف کی طرف جلا وطن کر دیا  تھا  جس کی قرآن کریم نے صریح لفظوں میں   شجر ملعونہ کے ضمن میں شدید مذمت کی تھی ۔حضرت عثمان کی  خلافت میں ان ہی کے حکم سےگھر واپسی ہوئی  اس طرح  جس کام کی  ہمت حضرت  ابوبکرو عمر نہ کرسکے  اس کو  حضرت عثمان نے انجام دے دیا ۔ 
تاریخ بتاتی ہے کی حضرت عثمان معاویہ سے ذرا بھی باز پرس نہ کرتے تھے جس کے سبب روز با روز وہ اپنی ظلم و  زیادتی میں اضافہ اور حکومت  کو مضبوط کرتا رہا اگر ان کے دور میں معاویہ کی بربریت کو لکھا جائے جو اس نے   اصحاب رسول  اور دیگر افراد پر ڈھائےتو صفحات سیاہ ہو جائے نگے ۔ 
ادھرخلیفہ سوم کی آنکھ بند ہوتے ہی بہت ساری حکومتی  طاقتیں اپنے ہا تھ میں لے لیں اور  وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا(اسراء ۳۳) (جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم اس کے ولی کو قصاص کا  اختیار دیتے ہیں) کہ عثمان مظلوم مارے گئے کے بول کے ساتھ امیر المومنین علی بن ابی طالب کے مقابلہ میں آگیا جس کی وجہ سے تقربا ۷۰ ہزار مسلمان جنگ  صفین میں نوالہ اجل بن گئے امیر المومنین حضرت علی ؑ کی رحلت کے بعد معاویہ مسلمانوں کا مطلق  العنان خلیفہ بن گیا اور اس نے بہت سے دیگر  صوبات بھی اپنے  قبضے میں لے لیئے۔ اب ایک  کام رہ جاتا تھا کہ دین  و قلم  اورضمیر فروش افراد کو  خریدنا   لہذ   اس نے یہ کام  وافر مقدار میں دھن دولت کی  بدولت انجام دے کر خلفاء  کے حق میں حدیثیں گڑھوائی چونکہ اس میں اسکا فائدہ اور حضرت علیؑ کا نقصان تھا۔
امیرالمومنین حضرت علیؑ نے بنی امیہ سے ہونے والے خطرات و نقصانات کی  طرف نہج البلاغہ میں  متعدد مقامات پر اشارہ کیا ہے۔  
آپ کا ایک خطبہ جو آپ کی عمر کے آخری  ایام کا ہےجس کی ابتداء خوارج سے ہوئی اس میں آپ فرماتے ہیں فَأَنَا فَقَأْتُ عَيْنَ الْفِتْنَةِ  
میں نے فتنہ کی آنکھ نکال لیں( خوارج مرادہیں) پھر آچانک آپ اپنے خطبہ کا رخ بدل دیتے ہیں اور فرماتے ہیں : 
’’ أَلَا إِنَّ أَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِی عَلَیكُمْ فِتْنَةُ بَنِی أُمَیةَ، فَآن‌ها فِتْنَةُ عَمْیاءُ مُظْلِمَةٌ( خطبہ ۹۲)
میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے
یعنی خوارج کا فتنہ بڑا تو  تھا  مگر اتنا بڑا خطرہ نہیں  تھا  جتنا بڑا اور خطرناک بنی امیہ کا فتنہ ہے۔
بنی امیہ کے فتنوں  اور ان کی خصوصیات کے بارے میں  اسی  خطبہ میں ایک مقام پر آپؑ نے فرمایا: اسلامی مساوات ان لوگوں کے ہاتھوں بالکل مٹ جائے گی اور اسلام نے جو تعلیم دی کہ سب لوگ ایک دوسرے کے برابر ہیں بنی امیہ کے دور میں اسکا وجود نہیں رہے گا لوگ آقا اور غلام دو طبقوں میں بٹ جائیں گے اور تم عوام عملی طور پر غلام بن جاوگے ۔آپؑ نے اس کو اس طرح بیان کیا۔
حَتَّى لَا یكُونَ انْتِصَارُ أَحَدِكُمْ مِنْهُمْ إِلَّا كَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَبِّهِ،  ( یہاں تک کہ یہ صرف ان کو چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا کم ازکم  نقصان رسا نہ ہو) 
پھر آپ نے دانشوروں کی نابودی کی پیشنگوئی ان الفاظ میں  فرمائیعمت خطتها و خصت بلیتها    یہ ایک ایسی بلا ہے جو سب کو  لپٹ جائیگی لیکن اس سے ایک خاص طبقے میں پریشانیاں پیدا ہونگی۔
آپ کے الفاظ بہت نپے تلے ہیں آپ یوں فرماتے ہیںوَ أَصَابَ الْبَلَاءُ مَنْ أَبْصَرَ فِيهَا جس کے پاس سوجھ بوجھ ہوگی  آج کل کے حساب سے پڑھا لکھا عقل شعور رکھنے ولا طبقہ یہ بلا  ان ہی لوگوں کو  پکڑے گی کیونکہ  بنی امیہ نہیں چاہیں گے کہ سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ باقی رہے یہی وجہ ہیں کہ تاریخ بتاتی کہ جتنے دانشور اور ذہین  لوگ تھے سب کو بنی امیہ کے افراد نے مرغی کے دانے کی طرح ایک ایک کرکے  وحشیانہ قتل کر ڈالا۔
اسی طرح یہ قوم حرمت الہی میں بھی پیچھے نہیں رہے گی   اس کے متعلق آپؑ نے خطبہ نمبر ۱۰۷ میں   ارشاد فرمایا:  وللہ لا یزلون حتیٰ لا یدعوالللہ محرما الا استحلوہ ولا عقد الا حلوہ ( خدا قسم  وہ  ہمیشہ یو نہی  (ظلم  ڈھاتے) رہے  گے  اور کوئی  اللہ کی  حرام  کی  ہوئی  چیز  ایسی  نہ ہوگی  جسے وہ حلال  نہ  سمجھ  لیں  گے )یہ لوگ  عملی طور پر اسلام  کی  مخالفت کریں گے اور  لوگوں کو بدلنے کے لئے اسلام کو بدل دیں گے
ُلبِسَ الإِسْلاَمُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوباً (۱۰۷)»
 اسلام  کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اورڑھا  جائے گا
اسلام کولوگوں کے جسموں پر اس طرح پہنائیں گے جس طرح الٹی پوستین پہناتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ پوستین  کی  خاصیت جسم کو گرمی  پہنچانا اور  اگر برعکس  پہن لی جائے تو  وہ فائدہ نہیں پہونچا ئے گی اور لوگ ہنسی الگ سے اڑائیں گے۔
معاویہ حضرت  علی ؑکی فکر سے زندگی بھر لڑتا رہا مسجدوں اور منبروں سے برا بھلا کہتا اور کہلواتا رہا اور کہنے والواں کو انعامات سے نوازتا رہا پورے مملکت اسلامی  سے نماز جمعہ میں حضرت علی ؑپر لعنتیں کرواتا رہا مگر علی اور افکار  علی قوت ، علامت ،نظریہ ،عقیدہ  ایمان ،بن کر لوگوں  کی  روح میں  زندہ رہی اور ہیں یہاں تک کے معاویہ مخالفت و مبارزہ کرتے کرتے  واصل جہنم ہوا یزید پلید  حکومت پر آیا ِ،بھانڈا پھوٹ  گیا  ،قلعی کھل گئی ،  اسلام کا نقاب اتر گیا نفاق وکفر کا چہرا عیاں ہوگیا اور یہ عظیم کارنامہ علی  ؑکے لال فاطمہؐ کے دلبند  حضرت حسینؑ نے کربلا کے  کھلے میدان تپتی پر ریت پر کیا۔ 

تبصرے
Loading...