اپنے نونہالوں کو حسینیؑ کیسے بنائیں ؟

تحریر: ابو مصطفیٰ

حوزہ نیوز ایجنسی دنيا کا ہر ذي حيات ، آئيڈيل  کی تلاش ميں ہے ليکن سب اپنے آئيڈيل کي تلاش ميں صحيح راستے پر قدم نہيں اٹھاتے۔ اس دنيا ميں بعض افراد ايسے بھي ہيں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون سي شخصيت ہے جو آپ کے ذہن و قلب پر چھائي ہوئي ہے تو یقینا وہ اُن حقير اور پست انسانوں کا پتہ بتائيں گےجنہوں نے اپني زندگي خواہشات نفساني کي بندگي و غلامي ميں گزاري ہوتی ہے مثلا: ایکٹرز، کرکٹرز، ماڈلز اور فنکار وغیرہ۔

اب ہمیں ایسی ہستی کو تلاش کرنا ہوگا جسے اسوہ بنا کر ہم دنیاو آخرت میں سرخرو ہو سکیں لہذا امام حسینؑ کی ذات ایسی ہے جسے حضرت ختمي مرتبت ؐ اور امام علیؑ کے گھر ميں مرکزيت حاصل تھي اور يہ ذات ہميشہ اِن عظيم المرتبت ہستيوں کے عشق و محبت کا محور رہی ہے اور آج بھي ہر مومن کے دل کی دھڑکن ہے۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے آغاز سے ہی انہیں ایسی ہستی سے روشناس کروائیں جس کی پیروی سے وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور یہ بچےکی اولین ضروریات میں سے ہے ورنہ وہ ہو گاجو آج ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔

لہذا وہ والدین جو چاہتے ہیں کہ ان کے پیارے اور پھول جیسے بچے ان کے فرمانبردار، ان کے لیے دنیا و آخرت میں باعث عزت اور اپنے زمانے کی کربلا میں کربلائی کردار ادا کر پائیں تو انہیں چاہیے تربیت کے ان چند بنیادی اصولوں کو ضرور بالضرور عملی جامہ پہنائیں۔

تربیت کے چند بنیادی اصول

رزق حلال
رسول اللہؐ فرماتے ہیں: اولاد کا حق ہے کہ والدین اسے حلال رزق کھلائیں۔
ہمیشہ بچے کو لقمۂ حلال کھلائیں۔ وہ بچہ جو حرام کھائے گا کبھی بھی حق کو قبول نہیں کرے گا۔ چاہے اس کے سامنے وقت کا امام ہی کیوں نہ بات کر رہا ہو!۔ دیکھیں کربلا میں امام حسینؑ کے مقابلے میں کلمہ گو، حفاظ، نمازی حتی امام علیؑ کے ساتھی ہیں  لیکن پھر بھی  اسی کے فرزند کو مارنے پر تلُے ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ جب وقت کا امام بات کرتا ہے آگے سے تالیاں، قہقہے اور تلواروں سے رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہی امامؑ وجہ بیان کرتے  ہوئے فرماتے ہیں کہ میری بات کا اثر ان پر اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ ان کے شکموں میں لقمۂ حرام ہے۔

بچے جو دیکھتے ہیں اس کی بنیا د پر تربیت پاتے ہیں۔
بچوں نے کیا دیکھنا ہے؟ اس پر بڑی توجہ ہونی چاہیے۔ اگر گھرمیں بچے والدین کو قرآن، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ یا کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرتا دیکھیں گے تو انہیں بھی مطالعے کی عادت ہو گی۔ جب ہم رسول اللہؐ کے گھرانے کا ماحول دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ  رسول اللہؐ کے گھرانے کا ماحول قرآنی تھا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جناب فضہؓ، کنیزِ حضرت زہرا (س) ہر بات کا جواب قرآن کی آیت سے دیتی تھیں۔ یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ گھریلو ماحول ایسا تھا۔ بچے اگر والدین کو دوسروں کی خدمت اور مدد کرتا دیکھیں گے تو ان کے اندر بھی دوسروں کی خدمت اور مدد کا احساس پیدا ہو جائے گا۔ امام علیؑ شب کی تاریکی میں یتیموں اور مسکینوں کی خدمت کرتے اور یتیم بچوں کو گود میں بٹھاتے، انہیں پیار کرتے اور ان کی دادرسی کرتے اسی لیے امامؑ کی شہادت کے وقت ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا شفیق باپ ہم سے بچھڑ گیا ہے!۔ بچوں کو مستقل مزاجی، صبر، اپنے ہدف پر ایمان و استقامت اور  معاف کرنا سکھائیں۔ کربلا میں بعض افراد نے امام حسینؑ  کی خدمت میں آکر اپنے ماضی سے توبہ کی تو امامؑ نے انہیں معاف فرما دیا جیسے حُر ابن یزید ریاحیؓ…۔

بچے جو سنتے ہیں اس کی بنیاد پر تربیت پاتے ہیں
بچوں نے کیا سننا ہے؟ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیشہ بچوں کو اچھی چیزیں سننے کی ترغیب دلائیں۔ انہیں تلاوت قرآن، مجالس عزا، نوحے اورسبق آموز کہانیاں سنائیں۔ بالخصوص آج کل جب ایام عزا ہیں تو انہیں کربلا کو  کہانیوں کی صورت میں سنائیں، انہیں اس لُٹے ہوئے قافلے کا قصہ سنائیں، انہیں سنائیں کہ قاسم ، عون و محمد ، اکبر و اصغر نے کیسے دشمن کے ارادوں کو ناکارہ بنا یا۔ بچوں کے لیے یہ بھی بیان کیا جائے کہ کیسے امام کے اصحاب با وفا نے اپنا وعدہ وفا کیا؟  انہیں یہ بھی بتائیں کہ کیسے ایک بہن نے بھائی کو الوداع کیا اور کوفہ و شام کے بازاروں میں مقصد حسینی کو قیامت تک کے لیے زندہ کیا؟ انہیں یہ کیوں نہ بتایا جائے کہ کس طرح حضرت زینب (س) نے کربلا میں اپنے عزیزوں کی قربانی کا زخم سہہ کر بھی استقامت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا اور آپ نے دشمنِ خدا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: ” مارأیت الا جمیلا”۔ انہیں بتائیں کہ ایک کمسن  مظلومہ بیٹی کا اپنے باپ سے کتنا پیار تھا۔

لہذا ہم اپنی اولاد کو سکھائیں کہ کبھی بھی اگر وقت کے حسینؑ کو آپ کی ضرورت پڑے تو ” امیری حسین و نعم الامیر” کہتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیں۔

بچوں کو با ادب گفتگو کرنا سکھائیں
امام علیؑ فرماتے ہیں: اپنی فکر کی حفاظت کرو کیونکہ یہ کلام بناتی ہے، اپنے کلام کی حفاظت کرو کیونکہ یہ آپ کی شخصیت بناتا ہے۔

بچوں کو باادب، بااخلاق اور اچھا بولنا سکھائیں۔دشتِ کربلا میں امام کا ہر جانثار ایک دوسرے سے پہلے شہید ہونے کے لیے آمادہ ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ موت ہمارے لیے شہد سے بھی میٹھی ہے تو کوئی کہہ رہا ہے ہزار دفعہ بھی ہمیں مارا اور زندہ کیا جائے تب بھی ہم اپنے ہدف سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹیں گے۔ اورتو اور مختصر سی فوج کے ۱۲ سالہ شیر دل مجاہد کا جملہ پڑھیے جو کہہ رہا ہے ” امیری حسین و نعم الامیر”

امام حسینؑ  اپنے چمن کے آخری پھول ، اپنے لخت جگر حضرت علی اصغرؑ  کو دفنانے کے بعد فرماتےہیں خدایا! جو تھا سب کچھ تیری راہ میں لٹا دیا۔ ملاحظہ فرمائیں  یہ کیسی تربیت ہے؟ یہ کوئی معجزانہ کلمات نہیں ہیں بلکہ ماؤں نے کربلا کے ان پھولوں کی نگہداری ہی ایسے کی تھی۔ یہ خالصتا تربیت کا نتیجہ ہے لیکن متاسفانہ  آج کا جوان ہمارے سامنے ہے کیونکہ اس کی تربیت کرنے میں ہم نے کوتاہی کی ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...