انتخابات اور اخلاقیات

تحریر محمد بشیر دولتی حوزہ علمیہ قم 

حوزہ نیوز ایجنسی|

اپنے لبوں کو دشمنِ اظہار مت بنا
سچے ہیں جو انہی کو گنہگار مت بنا
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا
شاید وہ تیرے منہ پہ ہی سچ بولنے لگیں
چہرے کو آٸینے کا پرستار مت بنا
 {قتیل شفاٸی}
ارض بلتستان میں جوں جوں الیکشن قریب آرہا لوگ بھاٸی چارگی ، شرافت اور اخلاقیات  کو بھولتے جارہے ہیں۔جھوٹ مکر وفریب دوغلہ پن کم ظرفی و عدم برداشت عام ہو رہا ہے۔تہمت اور الزام تراشی کی شکل میں دن بدن تند و تیز جملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔حق پرستی پہ مفاد پرستی کو ترجیح دی جارہی ہے ۔لوگ سوشل میڈیا پہ شریف النفس اور عملی زندگی میں الحفیظ والامان کی طرف جارہے ہیں۔
بقول کسی کے جسم میں شوگر بڑھ رہی ہے مگر زبان سے مٹھاس ختم ہو رہی ہے۔فیس بک پہ دوستوں میں اضافہ ہورہا ہے مگر خونی رشتوں میں کمی اور دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔سیاسی نماٸندوں پر جان قربان کے نعرے جبکہ خونی رشتوں سے دشمنی کی حد تک پہنچ رہے ہیں۔سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھ رہے ہیں۔عوامی ترجیحات نماٸندوں کی ترجیحات میں شامل نہیں نماٸندوں کی ترجیحات عوامی ضروریات میں شامل ہی نہیں۔جو ترقی کاغذوں میں ہے وہ زمین پر نہیں جو زمینی حقاٸق ہیں وہ کاغذوں میں نہیں ۔مرشدوں کو مفسد اور مفسدوں کو مرشد ، بےضمیروں کو باضمیر اور باضمیروں کو بےضمیر  کے القابات سے نوازا جا رہاہے۔ پچھلے الیکشن میں جن جھنڈوں کو اتارنے کے لیۓ لڑتے تھے آج ان جھنڈوں کو اٹھانے اور لہرانے کے لیے لڑرہے ہیں۔
یوں الیکشن کی لہر  رہی سہی اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہے۔
شخصیت میں یہ عدم توازن ، عدم استقرار ، منفی رجحانات اور اخلاقیات کی یہ پستی یقینا اقدار کی بجاۓ اقتدار کے گرد گھومنے کی عادت  اور اسلامی احکامات سے دوری اور تعلیم کے ساتھ تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ایسے میں علما ٕ کرام کو چاھیے کہ وہ قرآن و سنت کی رو سے معاشرے کے افراد کی از سرنو تربیت اور اپنی مسٸولیت شرعی کا بھی ایک  بار پھر سے جاٸزہ لیں تا کہ  دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کمی اور کوتاہیوں کا ازالہ بھی کر سکیں۔
بلخصوص الیکشن کے دوران  مذہبی تنظیموں اور ان کی  حمایت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ تنظیمی  منشور و اغراض و مقاصد سے لے کر سیاسی منشور تک ، سیاسی منشور سے لے کر سیاسی نعروں تک ،سیاسی نعروں سے لے کر میدان عمل میں دینی خدوخال اور  اپنی کار کردگی تک سب کا دینی خد وخال اور خداٸی رنگ کے مطابق جاٸزہ لے لیں۔
چونکہ یہی طبقہ  معاشرے کے دیگر تمام طبقوں کے لیے نمونہ عمل بنے گا تو انکی باتوں میں اثر بھی ہوگا.
یوں معاشرے میں اخلاقی زوال اور تربیت کے فقدان کو دور کیا جاسکے گا۔
بحیثیت مسلمان اگر ہم قرآن کے احکامات کو اپنے لیے میزان و نمونہ قرار دیں تو معاشرے میں اخلاقی زوال کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
تربیت میں اہم ترین چیز برے خیال کو اچھے خیال ، بری عادتوں کو اچھی عادتوں,
اور برے کردار کو اچھے کردار میں،بری بیٹھکوں کو اچھی نشستوں میں اور برے دوستوں کو اچھے دوستوں  میں بدلنا ہے۔ ۔جس کی ابتدا ٕ معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہوتی ہے۔حقیقی امر باالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے انسان کا حق گو ہونا ضروری ہے تاکہ انسان جو بات مجمع میں کرے وہی تنہاٸی میں بھی  کر سکے جو بات اسٹیج پہ کرے وہی بات کارنر میٹنگوں میں بھی کرے۔جو بات عوامی جلسے میں کہے وہی بات اسمبلی میں بھی کر سکے۔جو بات سرگوشی میں کرے وہ بات وہ بلند آواز میں بھی کہہ سکے جو کام ہاتھ اٹھا کر کرے وہی بات سر اٹھا کر بھی کرے جو کام سر اٹھا کر کرے وہ ببانگ دہل سینہ تان کر کہہ سکے۔جس طرح سچ ہمیشہ سچ ہوتا ہے اسی طرح سچے انسان کو بھی ہمیشہ ہر جگہ سچا ہونا چاہٸے ۔
البتہ کردار  میں کسی مثبت تبدیلی سے پہلے انسان کے خیال اور سوچ و فکر میں مثبت تبدیلی ضروری ہے یہی پھر گفتار میں تبدیلی کا باعث بنے گی گفتار یا اچھے محترمانہ الفاظ ہی آخر اچھے کردار سیرت یا عادت کا باعث بنیں گے۔گفتار ہی کے ذریعے آپ لوگوں کو امر باالمعروف و نہی عن المنکر کر سکتے ہیں ۔لہذا گفتار کا شاٸستہ اور متوازن ہونا بھی بہت اہم ہے۔
 ایک اچھے اور خوش اخلاق معاشرے کی تشکیل کے لیے شاٸستہ گفتگو اور کریمانہ الفاظ کی اداٸیگی  بہت ضروری ہے۔
اس حوالے سے قرآن نے مختلف پیغامات دیے ہیں جن پر عمل کر کے ہم بہترین شاٸستہ اور متوازن گفتگو کرسکتے ہیں۔
چند مثالیں قارٸیں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
۱۔ ہماری گفتار اور کردار میں تضاد نہیں ہوناچاہئے ۔
 وگرنہ یہ قابل سرزنش ہے-
*یاایھاالذین آمنوا لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ* سورہ الصف آیہ ٢

۲۔ اپنے مخالفین سے متعلق بھی گفتگو تحقیق کے ساتھ ہونی چاہیٸے۔ (ہدہد نے حضرت سلیمان ـ سے کہا کہ میں تحقیق شدہ اور یقینی خبر لایا ہوں۔بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ
  سورہ نمل٢٢
۳۔ گفتگو دلچسپ اور نفیس ہونی چاہیے۔
الطّیّب مِنَ الْقَول حج ٢٥
٤۔ گفتار کو عام فہم اور شفاف ہوناچاہیے۔
قولاً بَلِیْغًا نسا ٕ ٦٣
۵۔ اپنی باتوں کو نرم لہجے میں بیان کرنا چاہیے
فقولا لہ قولاً لَیّنًا طہ ٤٤
۶۔ گفتار کا انداز بزرگوارانہ ہو۔قولاً کریماً اسرإ ٢٣
۷۔ گفتار کو قابل عمل ہونا چاہیے جھوٹ یا فریب کے ذریعے ناقابل عمل گفتگو نہ ہو –
قولاً میسورًا اسرا ٕ ٢٨ 
۸۔ اچھی باتیں سب کے لیے ہونی چاہیے کسی خاص طبقہ یا گروہ  کے لیے نہ ہو-
وقولوا للنّاس حُسنًا سورہ بقرہ ٨٣
۹۔ اپنی گفتار میں بہترین انداز اور مطالب کا انتخاب کیا جائے۔وقل لعبای یقولوا الّتی هی احسن اسرا ٕ ٥٣
۱۰۔ گفتار میں لغویات، جھوٹ  اور باطل کی آمیزش نہ ہو۔اجتنبوا قَوْلَ الزُّور حج ٣٠ 
اورعن اللغّوِ مُعْرِضون مومنون ٣
١١۔حق اور باطل کو ایک ساتھ مت ملاٶ۔اور حق کو مت چھپاٶ
 لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۲} اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔

١٢۔ہرکسی کی بات کو سنیں اور اچھی باتوں پر عمل کریں۔
الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ سورہ زمر{۱۸} جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی صاحبان عقل ہیں۔

اگر ہمارے عوام ، علماء  کرام، اور ہمارے تمام سیاست دان اور انکے حمایتی  کم از کم دوران الیکشن ہی انہی دستورات پر عمل کریں تو نہ فقط تنظیموں کے منشور اور سیاست دانوں کے اہداف ، اخلاص و پاکیزگی  واضح ہونگے بلکہ ہمارے معاشرے سے بدکلامی ، بدتہذیبی ، جھوٹ، گالم گلوچ ، تہمت اور الزام تراشی ، مفاد پرستی و عدم برداشت کی سیاست کا بھی مکمل خاتمہ ہوگا۔ جب بھی ہم اپنی گفتگو کو ان آیات کی رنگت اور سانچوں میں ڈھالیں گے تب ہماری باتوں کا لوگوں کے دلوں پر اثر ہوگا۔ووٹرز سیاست دانوں پر اعتبار کریں گے۔سیاست دان بھی زمین و آسمان کی قلابیں ملانے کی بجاۓ فقط امکانی گفتگو اور وعدے کرینگے۔ صرف الیکشن کے قریب ہمدرد بننے کی بجاۓ ہمیشہ ایک دوسرے کے ہمدرد رہینگے۔
اگر ہماری گفتگو مٶثر ہو تب ہم لوگوں کو مزید اچھاٸی کی دعوت دے سکیں گے اور براٸیوں سے بچا سکیں گے۔ یہی روش معاشرے میں اچھے کرداروں کی تبلیغ کے ساتھ برے اور پست کرداروں کے خاتمے کا بہترین پیش خیمہ بھی ثابت ہوگی۔ اور لوگوں میں سچ اور حقیقت کو سننے کی عادت اور حوصلہ پیدا ہو گا تب معاشرے میں سچاٸی اور حقانیت کا بول بالا ہوگا۔تب سچ کا کہنا اور سننا باعث اختلاف کی بجاۓ باعث اتحاد ہوگا۔ 
 اس کے لیے ہمیں ایام عزا ٕ کی مجالس سے بھی بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ فکر کربلا ہماری فکر سوچ اور گفتار سے ہوتا  ہوا کرداروں و عادتوں پر اپنا دینی و عاشوراٸی اثرات چھوڑ سکے۔تاکہ ہم دنیاوی معیارات سے نکل کر عاشوراٸی معیارات کے مطابق اپنی دنیا و آخرت کو سدھار سکیں۔جب فکری طور پر ہماری ترجیحات بدل جاٸیں۔دنیا کی بجاۓ دین کو اہمیت دینے لگ جاٸیں۔دنیا کو لینے اور دنیا کو دینے کی بجاۓ دین کو لینے اور دین کو دینے کا جزبہ آجائے پھر بندہ خود بخود دیندار بن جاتا ہے۔جب بندہ دیندار بنے گا تو وہ اپنا ہرعمل دین کی پاسداری کے لیے انجام دےگا۔وہ نفس پرستی کے بجاۓ دین کو فوقیت اور اولیت دے گا۔اس کی وابستگیاں بھی خود بخود بدل جائیں گی۔جب دین کو پسند کرے گا تو دیندار کو بھی پسند کرے گا جب دیندار کو پسند کرےگا اور خود بھی دیندار بنے گا تو دینداروں کا ساتھ بھی دے گا۔۔وہ پھر امام حسین ع کے فرمان *مثلی لایبایع مثلة*  کے عین مطابق کسی پست کردار والے کرپٹ چور اور کسی اخلاقی مجرم  کو خود پر مسلط ہونے دیگا اور نہ ہی اپنے معاشرے پر ایسے لوگوں کو با آسانی مسلط ہونے دے گا۔
وہ پھر دنیاوی ہار جیت کے معیارات کو بھلا کر اپنی شرعی مسٸولیت کو ادا کرتے ہوٸے ذینبی معیارات سے فتح و شکست کو دیکھےگا۔تب اسکا عاشوراٸی مزاج سینہ تان  کر کہے گا مارأیت الا جمیلا ۔تب وہ مادی معیارات سے نکل کر معنویت کے اوج پہ چڑھ کر ببانگ دہل کہے گا کہ حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہے۔تب وہ کہے گا کہ کربلا کی تپتی ریت پہ قتل ہوکر بھی امام حسین ع جیت گئے اور یزید بظاہر زندہ رہ کر تخت پہ بیٹھ کر بھی ہار گیا چونکہ یہ جنگ اقدار پسندوں و اقتدار پسندوں کی جنگ تھی۔امام حسین ع اور ان کے چاہنے والے اصلاح معاشرہ ۔امرباالمعروف نہی عن  المنکر سیرت پیامبر کی احیا ٕ اور ظالم ، جابر و کرپٹ مافیا کی بیعت سے انکار  چاہتے تھے۔جب کہ یذید اور یذیدی معاشرے میں دین و شریعت کی پامالی اور اپنی ظالمانہ حکومت کی بقا ٕ کے لیے بلند کرداروں اور پاکیزہ مزاجوں سے بیعت یا انکی طرف سے  خاموش حمایت چاھتے تھے۔ جس میں یزید اور یزیدی ناکام و نامراد رہے۔کرداروں اور فکروں کی یہ جنگ اب بھی جاری و ساری ہے اور ہم میں سے ہر ایک آزاد ہے کہ چاہے تو دین سے دوری ، پست کرداری اور ظلم کے خلاف خاموشی سے یزید کی جیت میں حصہ ڈالیں یا دین پہ کما حقہ عمل ، بلند کرادار اور ظالم و کرپٹ مافیا کے خلاف آواز احتجاج بلند کر  کے  حسینیت کی جیت میں اپنا حصہ ڈالیں۔
البتہ بقول شاعرکے
باطل کے سامنے نہ جھکاۓ جو اپنا سر 
سمجھو کہ اس کے ذہن کا مالک حسین ہے۔
پھر وہ بصیرت کے اس مقام پہ ہوگا کہ وہ اپنے ایک معمولی نظر آنے والے عمل کی معنویت کو پہچان کر دیکھ لےگا کہ اس سے باطل کی تقویت ہے یا حق کی تقویت۔حسینیت کی بقا ٕ کے لیے ہے یا یذیدیت کی بقا ٕ کے لیے۔تب اس کی زندگی کے ہرگوشے میں حسینیت  زندہ باد ہوگٸی اور یذیدیت مردہ باد۔آٸیں فقط شعروں ، نعروں ، مجلسوں ، محفلوں اور ریلیوں  میں ہی نہیں بلکہ اپنے عمل اور طرز زندگی کے ذریعے سے کہیں 
حسینیت ذندہ باد
یذیدیت مردہ باد
وگرنہ صرف ماتمی لباس پہننے اور زبانی دعوی کرنے سے کوٸی حسینی نہیں بن سکے گا۔
آٸیں اپنا محاسبہ کرتے ہوۓ اپنی شناخت کرلیں۔اپنی فکروں ، وابستگیوں اور رویوں کا جاٸزہ لیں ۔ہم کیا ہیں اور کیا کرتے ہیں دوسروں سے مت سنیں بلکہ اپنے ضمیر کی سنیں ۔ چونکہ ضمیر جھوٹ نہیں بولتا،ضمیر شور نہیں کرتا۔ضمیر دب نہیں جاتا، ضمیر بک نہیں جاتا،ضمیر خاموش نہیں رہتا ، ضمیر اگر زندہ ہو تو ہر حال میں سچ بولتا ہے ، ضمیر سرگوشی کر کے بھی ہمیں جگاتا ہے ، ضمیر ہر حال میں سچ بولتا ہے آٸیں اپنے ضمیر کی سن لیں۔ 
کچھ تو ہم اپنے ضمیر سے بھی کرلیں مشورہ 
گرچہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
غم تو یہ ہے گرگٸی دستار عزت بھی قتیل 
ورنہ ان کاندھوں پہ سر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...