امام مہدی (عج) اور مہدویت

تحریر: مولانا اشرف علی تابانی

حوزہ نیوز ایجنسی اولاً تمام ائمہ علیہم السلام کی کوششوں کے نورانی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

١_ تلاش وکوشش برائے احیاءِ  اسلامِ نابِ محمدی
امیرالمومنین امام حسنِ مجتبیٰ اور امام حسین علیھم سلام کا دور اس عمل پر مشتمل  ہے۔جب دین حقیقی کو انحراف کیا جارہا تھا۔ اس انحراف کے مقابل میں اسلامِ ناب کو بیان فرمایا ۔ 

٢_ مکتب سازی کا دور
امام صادقؑ امام زین العابدین اور امام باقر علیھم سلام  کی امامت کا دورانیہ جس اسلامِ نابِ محمدی سابقہ آئمہ علیھم سلام نے ذکر فرمایا۔ اب اسکو ایک مکتب بنا کر  منشور ِ زندگی بنانا  تاکہ اسکے مطابق معاشرے اور لوگوں کی تربیت کیا جاسکے۔

٣_جامعِ سازی
مکتب سازی ہوچکی ہے اب اسکی اساس پر افراد ارادے اور گروہ متعدد جریانات اور تحریکوں کو ڈیزائن کیا جائے اور اسلامی دینی ادارے تشکیل دئیے جائیں جیسے سازمانِ وکالت۔یہ دورہ امام تقی امام نقی اور امام رضا علیھم سلام کا ہے۔

۴_آمادہ سازی برائے ظہور
امتوں کو شیعوں کو امام مہدی علیہ سلام کی غیبت کےلیے آمادہ و تیار کرنا یعنی  آپکا امام  تو ہوگا اور اس امام  عالی مقام سے رابطے میں بھی رہیںنگے۔لیکن ظاہر نہیں ہونگے۔
امام مہدیؑ وارثِ حضرتِ آدم تا حضرتِ خاتم ص ہیں۔اور رسولِ اکرم کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری دین کو غلبے کی پوزیشن تک لانا تھا۔
سورہ نور کی آیتہ نمبر۵۵ سورہ قصص کی آیہ نمبر ۵ سورہ توبہ کی آیہ نمبر ٣٣ واضح طور پر رسول اللہ کی اس ذمہ داری اور فریضے کی طرف اشارہ کررہی ہے مگر یہ رسول اللہ کے دور میں ممکن نہ ہوا اور آپ وفات پاگئے اور آپ کے جانشینِ برحق امیرالمومنین سے لے کر بعد کے آئمہ علیھم سلام کی یہ ذمہ داری تھی اور امام مہدیؑ کے قیام و حکومت کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ دنیا کو ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی پاک کرکے عالمی طور پر عدل و انصاف اور اسلامِ نابِ محمدی کی بنیاد پر غلبہ پائیں گے اور  دنیا پر اس منشور کے مطابق  کریں  حکومت گے۔ اور اسلام محمدی ص کو تمام ادیان پر غلبہ دینگے۔ انشااللہ
امام مہدی علیہ سلام (جو کہ حضرت آدم تا حضرت خاتم تک کے وارث ہیں۔) کی معرفت کی تاکید کی گئی ہے۔کہ جو بھی زمانے کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرے وہ جہالت کی موت مرا۔
(کمال الدین صفحہ نمبر ٢٠٩ جلد ٩)
اسی طرح جو اپنے امام کی معرفت حاصل کرلے تو اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو بھی امام کی معرفت کرے فرق نہیں کہ امام کا ظہور تاخیر سے ہو یا جلدی ہو۔ یہ معرفت رکھنے والا انسان ایسے ہے جیسے وہ امام کے خاص کمرے  (فسطاط )میں امام  کے ساتھ ہے اور امام کی امامت میں امام کا حامی و ناصر ہے 
(اصولِ کافی جلد نمبر۵ صفحہ نمبر۴٣٣)

القابات امام مہدی علیہ سلام
خلفِ صالح
رسول اللہ کے جانشینِ برحق ہیں۔
قُطب
یعنی محورِ کائنات آپکی وجہ سے قائم ہے- دنیا کو رزق و رحمت و برکت  آپ کے فیض سے عطا ہوتی ہے۔
صاحبِ امر
آپ ع حکومت قائم کریں گے   یہ آپکی الہی  ذمہ داری ہے۔ فجر
یعنی ظلمتوں کا خاتمہ اور ہدایت کو آپ پھیلانیں گے۔۔
بقیۃ اللہ
آپ ذخیرہ الہی ہیں۔

امام کی غیبت سے مراد
 آپکی غیبت سے مراد اس سورج کی طرح ہے جو بادلوں کے پیچھے چھپ جائے اور اس کی روشنی سے سب استفادہ کرتے ہیں اور غیبت امام سے مراد یہ نہیں کہ امام حاضر نہیں ہیں غیبت سے مراد امام ظاہر نہیں ہیں ہمیں نظر نہیں آرہے ہیں لیکن امیرالمومنین علیہ السلام کے مطابق آپ ہماری زندگی میں موجود ہیں آپ چلتے ہیں پھرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہی زندگی کر رہے ہیں ہماری بہت ساری مشکلات کو حل کرتے ہیں مگر ہم دیکھ نہیں سکتے۔جسطرح شبِ قدر میں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے ہم انہیں نہیں دیکھ پاتے جس طرح شہداء اللہ کے ہاں سے رزق کھا رہے ہیں وہ زندہ ہیں لیکن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پارہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ موجود ہی نہیں ہیں۔وہ موجود ہیں لیکن ہمارے لیے ظاہر نہیں ہیں۔  اسی طرح امام بھی موجود ہیں پر ظاہر نہیں ھیں

کیوں امام پردہِ غیبت میں گئے
 اس کی ایک وجہ مومنین کا امتحان ہے۔ اور انکی تربیت کرنا مقصود ہے
اور لوگوں نے جو ناشکری کی اس کی سزا ان لوگو ں کو غیبت امام سے مل رہیی ہے ۔اور جب تک امام کی حفاظت نہ کرسکیں اور خطرات سے بچا نہ سکیں۔  جب تک لوگ اس قابل نہ ہوں کہ اس ذخیرہ الہی کی حفاظت کر سکیں اور دشمنوں سے بچا سکیں امام نہیں آئیں گے۔ یہ  غیبت فلسفہ کا ہے۔ 

انتظار
ایک اور عمل انتظار انتظار کا مطلب یہ ہے کہ:
انتظارالفرج افضل العبادة
یہ ایک عمل کا نام ہے۔  انتظار حالت کا نام نہیں ہے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہنے کا نام نہیں ہے ۔خود بخود کوئی کام ہو گا اس طرح کے فکر کا نام انتظار نہیں ہے یا کچھ بھی نہیں ہوسکتا مایوسی کا نام بھی انتظار نہیں ہے سرگردانی کا نام بھی انتظار نہیں ہے۔ یا انجمن حجتیہ کی طرح ظلم و فساد پھیلائیں یا پھیلانے میں مدد کرنے کا نام بھی انتظار نہیں ہے ۔انتظار کا مطلب جس نا مطلوب حالت سے امام لوگوں کو باہر نکالیں گے ابھی سے ہم ان کاموں کو انجام دیں۔ہم بھی ابھی سے اپنے معاشرے اور اپنے دل کو اور افراد کو اس نا مطلوب حالت سے مطلوبہ حالت کی طرف حرکت دیں ۔ امید انتظار کا نام ہے آمادہ ہونا آمادہ کرنا تاکہ لوگ امام کی نصرت کر سکیں اور جہان امام کے استقبال کے لیے  تیار ہو اور یہ جہان اور لوگ امام کے عدل و انصاف کے نظام کو  و آپکی فکر کو قبول کرنے کے قابل ہوں۔اس آمادگی کی حالت کو ایجاد کرنا اور امت    کو اس نہج تک پہنچانے کیلیے انتھک کوشش کرنے کا نام انتظار ہے۔۔اور یہ بہت افضل عبادت ہے انتظار کے کتنے پہلو ہیں انتظار کے dimentions اور ابعاد۔۔اور یہ ابعاد انتظارسیاسی اقتصادی علمی عسکری میڈیا اور سماجی اور تمدنی حد تکپھیلے ہوئے ہیں۔
جس جس شعبے میں امام عالی مقام نے نا مطلوب حالت کو بدلنا ہے اس اس شعبے میں ہم نے امام کیلیے آسانیاں ابھی سے پیدا کرنی ہے اسطرح ہم نے انتظار کرنا ۔۔انتظار امام کی راہ میں کوشش کا نام ہے یہ کوشش نظری فکری شعبے میں  امام کی شناخت کرنا و کرانا منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اور امام علیہ سلام  کو اپنا رول ماڈل بنانا اور امام کی کمی کا احساس  شدت سے کرنا ہے یہ انفرادی طور پر یہ کہ انسان اپنی زندگی میں امام کی مانے اور انکے فرموات کے مطابق عمل کرے۔
اجتماعی  اقتصادی سیاسی   شعبوں میں امام کے معیارات کے مطابق فعالیت کرنی ہے اور سوسائٹی کو  الہی معیارات کمطابق استوار کرنی ہے   مومنین کے درمیان وحدت ہمدلی اور تعاون کی فضا کو ایجاد کرنا یہ اہم ترین منتظرین کی ذمہ داری میں سے ہیں۔

رجعت
 ایک مسلم قرآنی عقیدہ ہے پاکیزہ افراد اور کچھ نہ پاک افراد کو امام کے ظہور کے بعد دوبارہ زندہ کئیے جائیں گے  پہلے بھی رجعت ہوئی ہے اور یہ قرآن  میں موجود ہے  سورہ بقرہ آیت نمبر 56 اور 259 میں بھی ذکر ہوا ہے جناب عزیر علیہ السلام کے مرنے کے بعد دوبارہ زندگی انکو ملی۔ رجعت کا  فلسفہ  ہے کہ ناپاک افراد کی ذلت کو بھی دیکھا جا سکے اور ان کو مزید ذلیل و خوار کیا جاسکے۔اور پاکیزہ افراد جس میں نبی ائمہ علیھم سلام و اصحاب و دیگر پاکیزہ افراد آئیں گے انکی عظمت کو دیکھانا ہے لوگ ان کے بلند مقام کو بھی دیکھ سکیں۔  اور انھیں بھی توفیق ملے کہ مہدی علیہ سلام کی امامت میں نصرت کر سکیں۔  لھذا الہی بندوں کی عظمت اور ناپاک لوگوں کی ذلت و خواری کا ایک مظہر اور ایک نمونہ رجعت ہے۔
انقلاب اسلامی انتظار کا بہترین نمونہ ہے۔انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ سلام کی حکومت و دولت کریمہ کے منشور کو زندہ کیا ہے۔  وہ حکومت جو اسلام اور مسلمین کو عزت عطاکرے گی اور نفاق  و کفر کو ذلیل و رسوا کرے گی اسکی ایک جھلک انقلاب اسلامی نے بھی دیکھایا ہے۔اور انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ سلام کی حکومت کے اس منشور پر سختی سے عمل کیا ہے۔انقلاب کی کل سرمایہ کاری و کل ھدف امام مہدی علیہ سلام کے ظہور کےلیے عالمی سطح پر راہیں ہموار کرنا رکاوٹوں کو دور کرنا ہے یوں  دنیا کو امام کے ظہور کے لئے آمادہ و تیار کرنا ہے  اس طرح  کی کوششیں امام خامنہ ای کی امامت میں عالمی سطح پر ہو رہی ہیں۔ تاکہ حکومت جہانی امام علیہ سلام کے ہاتھ آئے جسکا وعدہ  امام علیؑ نے نہج البلاغہ حکمت نمبر 209 میں دیا ہے   حکومت اسطرح اہل بیت کی طرف پلٹ آئے گی جس طرح شریر اونٹ اپنے بچے سے بھاگ جاتی ہے لیکن کچھ عرصے بعد وہ بڑی محبت کے ساتھ اس بچے کی طرف آتی ہے اور اس کے بعد اس سے جدا نہیں ہوتی امام فرماتے ہیں کہ حکومت بھی اہل بیت سے غاصبانہ انداذ میں چھینی گئی مگر یہ   حکومت  امام مہدی علیہ السلام کے عالمی انقلاب کی صورت میں اہل بیت کے پاس آئے گی اور یوں امام مہدی کی الہی حکومت کا۔ دنیا پر غالب ہو گا۔
اور پھر امام نے سورہ قصص کی آیت نمبر 5 کی تلاوت کی تلاوت فرما کر الہی وعدہ کی بھی خبر دی۔ 
خدا ہمیں امام مہدی علیہ سلام کے حقیقی پیروکاروں میں شامل  ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔
آمین!!!

تبصرے
Loading...