امامت کا چوتھا چراغ، امام علی ابن الحسین، زین العابدین (ع)

حوزہ نیوز ایجنسیماہ جمادی اوّل سن 38 ہجری کی پندرہویں تاریخ تھی جب مالک کائنات نے امام حسین علیہ السلام کو پہلا فرزند عطا کیا جس کا اسم مبارک ‏”علی ” قرار پایا۔ اس طرح امام حسین کے گھر میں اس نام کے باقی رکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور پھر آپ کے بعد جو بھی بیٹا پیدا ہوا وہ علی کے نام سے ہی پکارا گیا ۔ کوئی علی اکبر تھا تو کوئی علی اصغر۔ زین العابدین علیہ السلام مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کے دور خلافت میں پیدا ہوئے تھے اور سن چالیس ہجری میں دادا کی شہادت کے بعد اپنے والد امام حسین اور چچا امام حسن علیہما السلام کے زیر سایہ رہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ جناب شہر بانو تھیں جو ایران کے بادشاہ یزد گرد کی بیٹی تھیں ۔

امام علی ابن الحسین کا لقب زین العابدین ، رسول اللہ (ص) کا دیا ہوا لقب تھا کیونکہ آپ نے خبر دی تھی کہ قیامت کے دن جب زین العابدین کو آواز دی جائيگی تو میرا ایک فرزند علی بن الحسین لبّیک کہتا ہوا بارگاہ الہی میں حاضر ہوگا۔ سید الساجدین اور سجاد جیسے القاب کی وجہ ہر چھوٹی بڑی نعمت کے حاصل ہونے  یا مصیبت کے دفع ہوجانے یا مومنین کے درمیان اصلاح ہوجانے پر آپ کا سجدۂ شکر تھا ۔

آپ کی زندگی کا آغاز حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام جیسی عظیم شخصیات کے زیر سایہ ہوا تھا اسی لیۓ آپ کے اپنے وجود کی روشنی بہت زیادہ سامنے نہیں آسکی تھی ۔ بس بچپن کے کچھ ہی ایسے واقعات تاریخ قلمبند کرسکی ہے جن سے آپ کی جلالت اور قدر و منزلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے : 

ابراہیم بن ادہم سے روایت ہے کہ میں نے راہ مکہ میں ایک کمسن بچّے کو مکّہ کی جانب جاتے ہوئے دیکھا تو گھبرا کر پوچھا :  آپ کون ہیں ، کہاں جارہے ہیں ، سواری کیوں نہیں ہے اور زاد راہ کا انتظام کیوں نہیں کیا؟ بچّے نے جواب دیا :” زاد راہ میرا تقوی ہے ، میری سواری میرے دونوں پیر ہیں اور میرا مقصود میرا مولا ہے”۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ بیمار ہوئے اور آپ کے پدر بزرگوار امام حسین علیہ السلام نے عیادت کرتے ہوئے پوچھا کہ میرے بیٹے کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔ تو آپ نے عرض کی کہ خواہش صرف یہ ہے کہ قضا و قدر الہی پر راضی رہوں ، اس کے علاوہ کوئی خواہش نہیں ہے ۔ جو وہ چاہتا ہے وہی بہتر ہے ، اس سے بہتر میں کیا طے کرسکتا ہوں ۔ امام حسین(‏ع) نے یہ سن کر گلے لگا لیا اور فرمایا کہ میرے لال تمھارا جواب بالکل ابراہیم خلیل (ع)  کے جواب سے ملتا جلتا ہے۔

دس محرم سن اکسٹھ ہجری کو آپ کے دور امامت کا آغاز ہوا تھا۔ یہ ایسا انوکھا آغاز تھا کہ آپ شدّت تپ کی بنا پر بے ہوش تھے ، دشمنوں کے ڈھول، طبل  اور تاشوں کے شور سے غشی سے چونکے اور پھوپھی سے خیمے کا پردہ ہٹانے کو کھا ۔ پردہ ہٹا تو نواسۂ رسول کے سر کو نیزے پر بلند ہوتے دیکھا ۔ السلام علیک یا ابا عبداللہ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد امامت کا پہلا فتوا پوچھا گیا۔ زینب بنت علی کہہ رہی تھیں : بیٹا تم امام وقت ہو ، خیموں میں آگ لگا دی گئی ہے ، اب بتاؤ کہ ہم جل کر مر جائیں یا جان بچانے کو باہر نکل جائیں؟ اس کے بعد قوت برداشت کے اور بڑے امتحان شروع ہوگئے۔ ان موقعوں پر شاید امام سجاد علیہ السلام نے سوچا ہوگا کہ میرے بابا اور چچا عباس بڑی سخت آزمائشوں سے گزرے ہیں ،سارے انصار و اصحاب و اعزہ کو خون میں لوٹتے دیکھا ہے ،جوانوں اور بچّوں کی لاشیں اٹھائی ہیں ، خیموں میں سسکتے بلکتے بچّوں کی  العطش العطش کی آوازیں سنی ہیں اور سب سے بڑھ  کر میرے تنہا و بےکس بابا  نے، شش ماہے کے لیۓ ستمگروں سے تقاضۂ آب کرکے اتمام حجت کا سخت امتحان دیا ہے اور آخر میں کربلا کی گرم ریت پر اپنی نورانی پیشانی رکھ کر خالق کائنات کے حضور اپنے سر کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ میں نے یہ سب نہیں کیا ، نہ جنگ کی نہ کسی کو شہید ہوتے دیکھا لیکن کیا ناموس رسالت کو کھلے سر دیکھنا ، رسیّوں میں جکڑا ہوا دیکھنا ، بھوکے پیاسے بچّوں کو تماچے لگتے دیکھنا ،بابا اور چچا کے امتحانوں سے چھوٹا امتحان ہے ؟ کیا بازاروں اور درباروں اور زندانوں  میں علی و فاطمہ کی بیٹیوں کے ساتھ جانا کسی شہادت عظمی سے کم ہے؟ بابا آپ کا بیمار بیٹا صبر کی بڑی سخت منازل طے کررہا ہے۔ 

واقعات کربلا اور کوفۂ و شام کی منازل سے گزرنے کے بعد جب رسول کا کنبہ مدینے پہنچا اور مدینے والوں کو یزید کے مظالم کا اندازہ ہوا تو احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی اور اہل مدینہ نے یزید کے نمائندے عثمان بن محمد  کو معزول کرکے عبد اللہ ابن حنظلہ کو حاکم بنا لیا ۔ یزید نے اس بغاوت کو دبانے کے لیۓ مسلم بن عقبہ کا انتخاب کیا ۔ اس ظالم نے مدینۂ منوّرہ پر چڑھائی کی اور مقام حرّہ پر اہل مدینہ کے ساتھ زبردست جنگ ہوئی ۔ اس جنگ میں سات سو حافظان قرآن سمیت دس ہزار مسلمان قتل کردیئے گئے ، عورتوں کی عصمت بھی محفوظ نہیں رہی ۔ لشکر یزید نے سارے مدینے سے غلامی کی بیعت لی لیکن امام سجاد علیہ السلام سے مطالبۂ بیعت کی جرات نہیں کرسکا۔ کیونکہ ایک بار حسین سے بیعت کے مطالبے کا حشر دیکھ  چکا تھا۔اس خطرناک دور میں مروان جیسے بد ترین دشمن نے آپ سے پناہ کی درخواست کی کہ مدینہ مخالف ہوگیا ہے اور میرے بچّے خطرے میں ہیں تو آپ نے کہا کہ انہیں میرے گاؤں بھیج دو ، میں ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں۔

آل محمد (ص) میں ہر فرد کا اخلاق ایک انفرادی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن امام سجّاد (ع)نے اخلاقیات کے مظاہرے کے ساتھ فلسفۂ اخلاقیات کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ کے سامنے اگر کوئی دینی طالب علم آجاتا تو اس کی تعظیم کے لیۓ کھڑے ہوجاتے تھے کہ یہ رسول کی وصیت ہے ۔ اس طرح ایک طرف  اسلام میں علم دین کی اہمیت کا اظہار ہوجاتا تھا اور دوسری جانب علم دین کے طلاب کی حوصلہ افزائی ہوجاتی تھی۔ اگر کوئی سائل آجاتا تو اس کا استقبال کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو میرے مال کو دنیا سے آخرت تک پہنچا دیتا ہے۔ 

آپ کی مصلحت اندیشی اورشجاعت کو دیکھنے کے لیۓ دربار یزید میں آپ کے خطبے پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے۔ بعد از حمد و ثنائے الہی آپ نے فرمایا تھا : ہمیں چھے صفتیں عطا کی گئی ہیں اور سات باتوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے: علم ، حلم، سخاوت، فصاحت، شجاعت اور مؤمنین کے دلوں میں ہماری محبت ہماری صفتیں ہیں ۔ اور ہمارے اسباب فضیلت یہ ہیں کہ رسول مختار ہم میں سے ہیں ، صدیق (علی)ع ، طیار(جعفر) ، اسداللہ(حمزہ) ، سیدۃ نساء العالمین(فاطمہ)اور سیدا شباب اہل الجنۃ(حسنین ع) ہمارے ہی بزرگ ہیں ۔ جس نے مجھے پہچان لیا اس نے پہچان لیا اور جس نے نہیں پہچانا وہ پہچان لے کہ میں مکہ و منا کا فرزند ہوں ، میں زم زم و صفا کا لال ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک طولانی تعارف کے بعد آپ نے مصائب کربلا کا ذکر کرکے دربار میں انقلاب پیدا کردیا ۔ اس صورتحال سے گھبرا کر یزید نے اذان شروع کروادی جو امام ع کی فتح مبین کا اعلان تھا کہ رسالت کو بنی ہاشم کا کھیل کہنے والا اشہد انّ محمدا رسول اللہ کہلوانے پر مجبور ہو گیا تھا۔

تبصرے
Loading...