الوداع حکیمِ امّت الوداع

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی (مدیر ساغرعلم – دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | حکیمِ مطلق کی تنظیماتِ گردش لیل و نہار نے نہ جانے کتنے گرانبہا جواہر اپنے دامن میں سمو لئے۔ 24/نومبر 2020ء (9/ربیع الثانی 1442ھ) کا وہ خوفناک لمحہ نہ جانے ذہن سے کب محو ہوگا جس لمحہ میں نے واٹسپ چیک کیا تو اس پر یہ پیغام نظر آیا کہ حکیم امّت مولانا ڈاکٹرسید کلب صادق نقوی صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا(اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)۔
رونق محفل و مجلس، زینت بزم احباب، زیور علم و عمل سے آراستہ و پیراستہ، خطیب توانا اور زمانہ کے مشہور و معروف ذاکر اہل بیت کی جدائی کی اطلاع پوری امّت کے لئے دل توڑ دینے والی خبر ہے۔
جو شخص کل تک ہمارے درمیان منبر رسولؐ کی زینت بنا ہوا تھا آج وہ مولا کی بارگاہ میں براہ راست مجلس خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔ یقیناً حکیم امّت کی جدائی سے دل کی یہی آواز آتی ہے: “زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے”۔ کبھی شکستہ دل سے یہ صدا ابھرتی ہے: “ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے”۔ کبھی روتا ہوا دل آواز دیتا ہے:  “ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے – بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”۔ آخر کار یہ سوچ کر دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں: “جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا – جب احمدِ مرسل نہ رہے کون رہے گا!”۔
حکیمِ امّت زندگی بھرتعلیم و تعلّم پر زور دیتے رہے اور صرف یہی نہیں کہ ان کی تبلیغ صرف زبان تک محدود ہو بلکہ آپ نے اس تحریک کو عملی جامہ بھی پہنایا ، آپ نے متعدد مراکز تعلیم کی بنیاد رکھی جن میں سے یونیٹی کالج اور ایم یو کالج سرفہرست ہیں۔
موصوف کی اکثر تقاریر سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی و حامی تھے یہاں تک کہ آپ نے کئی مقامات پر آیۃ اللہ سید علی حسینی سیستانی دامت برکاتہ کی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا: “ہم نے آیۃ اللہ سیستانی سے ملاقات کی تو ہم نے ان سے کہا: آپ ہندوستان کے مؤمنین کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ آیۃ اللہ سیستانی نے جواب دیا: ہندوستان کے شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اہل سنت حضرات کے ساتھ روداری سے پیش آئیں کیونکہ اہل سنت ہمارے بھائی نہیں بلکہ ہماری جان ہیں”۔ 
ہر دل عزیز اور شہرہ  آفاق خطیب کے فراق نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں کو زخمی کردیا۔ مرحوم کی جدائی سے وہ زخم بھی ہرا ہوگیا جو کچھ عرصہ قبل خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر صاحب اور مولانا مرزا محمد اشفاق صاحب کی جدائی سے ملا تھا۔
ایسے در بیش بہا کی جدائی یقیناً نا قابل فراموش سانحہ ہے۔ اگر ہمارے سامنے کربلا کی تاریخ نہ ہوتی تو مرحوم کی فرقت ناقابل برداشت ہوتی۔ ہمارے دلوں کی تسکین صرف ذکر کربلا سے ہوتی ہے۔ ذاکر شہیدان کربلا ہمارے درمیان سے چلا گیا لیکن جس طرح شہیدان کربلا کا ذکر زندہ جاوید ہے اسی طرح ذاکر شہیدان کربلا کا ذکر بھی زندہ و پائندہ رہے گا۔
حکیمِ امّت کی جدائی پر ہم صرف یہی دعا کرسکتے ہیں کہ پروردگارعالم مرحوم کی مغفرت فرمائے، انہیں اعلیٰ علیین میں شمار فرمائے اور تمام امّت کو صبر جمیل و اجر جزیل سے نوازے۔ آمین یارب العالمین۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔

تبصرے
Loading...