الحاج مولانا سید ذیشان حیدر نقوی طاب ثراہ کی دینی خدمات

تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی 

حوزہ نیوز ایجنسی بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ انا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت۔   یقینا ہرنفس کو موت کا ذائقہ   چکھنا ہے یہاں موت سے مراد نقل مکانی ہے بہت  سے ایسے افراد ہوتے ہیں جن کے مرنے کے بعد معاشرہ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کے دنیا سے چلےجانے کے بعد معاشروں  کا بہت بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔ انہیں افراد میں سے فقیہ اور عالم دین ہوتا جس کی رحلت سے معاشرہ کا بہت بڑا نقصان ہوجاتا ہے درحالیکہ عالم کی موت ظاہر میں ہوتی  ہے مگرحقیقت میں وہ زندہ ہوتا ہے۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “العالم حی و ان کان میتا” عالم زندہ رہتا ہے خواہ اس دنیا سے رحلت فرما جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم کے علم سے لوگ صدیوں فیضیاب ہوتے رہتے ہیں اور وہ اس طرح زندہ ہوتا ہے۔ علماء اپنی علم رسانی، عزم، ہمت اور ثبات قدمی  سے بنیاد انسانیت کو محکم رکھتے  ہیں اور اسلام کی جڑوں میں آبیاری کرتے رہتے ہیں واقعا یہ ایسے قلعے ہیں جن کی رحلت کے بعد شیطان یا شیطان فطرت افراد خوش ہوتے ہیں۔  امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَحَبَّ إِلَى إِبْلِيسَ مِنْ مَوْتِ فَقِيهٍ” شیطان کسی مومن کی موت پر اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا عالم فقیہ کی موت پر خوش ہوتا ہے۔(كافی ج‏1ص 38) 
جب کوئی عالم رحلت کرتا ہے تو شیطان بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے یہ ہی علماء ہیں جو اسلام کے مضبوط اور محکم قلعے ہیں اور  اپنے علم کی روشنی سے لوگوں کو گمراہی سے محفوظ رکھتے ہیں۔  امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں جب کوئی مومن فقیہ مرتا ہے تو اس پر ملائکہ اور زمین کے وہ مقامات کہ جہاں وہ عبادت کیا کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے کہ جن سے اس کے اعمال صعود کرتے تھے روتے ہیں اور اسلام میں ایسا  رخنہ پڑجاتا ہے کہ جس کی کوئی بھرپائی  نہیں کرسکتا کیونکہ علماء اسلام کے قلعے ہیں جیسے کہ شہر کی چار دیواری ہوتی ہے۔   ایک بار پھرایک قلعہ کے کم ہونے کی خبردہلی کےلال بہادر اسپتال سے 13/ ذیقعدہ  1442ہجری (25/جون  2021م بروز جمعہ  کو سنے کو ملی  جس سے عالم انسانیت اور روحانیت  پر  عالیجناب الحاج مولانا سید ذیشان حیدر نقوی نوراللہ مرقدہ  کی رحلت سے غم کا  ماحول چھا گیا ہے اور اور عالم اسلام  بھی اپنے اس قلعہ کی کمی سے مغموم تھا۔  دہلی، امروہہ اور ان کے آبائی وطن عثمانپور میں غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔  اپنے اس مختصر تعزیت نامہ کے ساتھ مولانا مرحوم کی زندگی پر سرسری نظر کا ہوجانا بھی مناسب سمجھتا ہوں لہذا  ذیل میں ان کی سوانح حیات پر نظر کرکے ان کی خدمات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 
 الحاج مولانا سید ذیشان حیدر نقوی طاب ثراہ  سنہ 1967 عیسوی میں سرزمین عثمانپور ضلع امروہہ صوبہ اترپردیس پر پیدا ہوئے آپ کے والد سید ضرغام حسین اپنے علاقہ کےایک مذہبی اور بااثر و رسوخ شخص تھے۔ مولانا مرحوم  نہایت شریف النفس، خوش اخلاق، ملنسار، کامیاب مبلغ،  ذمہ دار انسان اور ہردلعزیز عالم باعمل  کہ جس نے اپنی پوری زندگی خدمتِ دین  کو بہت خاموشی سے انجام دینے میں گزاری ۔ آپ نےسنہ 1982عیسوی میں تحصیل علم کی غرض سے نوگاواں سادات کا رخ کیا اور مدرسہ عالیہ جعفریہ میں داخل ہوکر جید اساتذہ کہ جن میں مولانا سید سلمان حیدر عابدی، مولانا سید عمار حیدر عابدی، مولانا سید طاہر حسین گوولی، بجنوری سے کسب فیض کیا۔ مولانا نے کچھ مدت کے  بعد مدرسہ عالیہ جعفریہ کو ترک کرکے مدرسہ باب العلم کا رخ کیا  اور وہاں رہکر مولانا سید محمد باسٹوی بجنوری، مولانا ہاشم نقوی سرسوی، مولانا سید شبیہ الحسن عابدی وغیرہ سے کسب فیض کیا    اس کے بعد مدرسہ سید المدارس  امروہہ میں مولانا محمد عبادت امروہوی کے سامنے زنوئے ادب تہ کرکے  اپنی علمی  تشنگی کو بجھایا۔ 
مولانا نے اپنے مدارج علمی کو طے کرتے ہوئے الہ آباد عربی فارسی بورڈ سے منشی، مولوی، عالم، کامل،   فاضل اور جامعہ اردو علیگڑھ سے ادیب،  ادیب ماہر،  ادیب کامل اور معلم کی اسناد حاصل کیں۔   دروس کی تکمیل کے بعد کچھ مدت تک وظیفہ تبلیغ کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے مگر وسط تبلیغ احساس تشنگی علوم ہوا تو  سنہ  1997 عیسوی میں تحصیل سطوح عالی کی غرض سے حوزہ علمیہ قم ایران کی جانب رخت سفر باندھا اور ایک مدت تک وہاں بزرگ و جید اساتذہ جیسے مولانا ناصر مہدوی، مولانا جواد نقوی  مولانا حسن رضا وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ موصوف عالم با عمل، خوش اخلاق، دلسوز اور ملنسار انسان تھے ہمیشہ اپنے خانوادہ اور بھائی بہنوں کو راہنمائی اور مدد کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں امور دینی کو اچھی طرح انجام دیا  جس میں سات سال تلاجہ گجرات میں امامت نماز پنجگانہ کے ساتھ جوانوں اور نو جوانوں کو قرآن مجید، عقاید،  تاریخ  ، اخلاق اور احکام کا درس  دیتے  رہے ایک مرتبہ ملاقات کے دوران ذکر کررہے تھے کہ میں ان سب کلاسوں کو برگزار کرنا اپنا وظیفہ سمجھتا ہوں، چھ سال برہم پوری ضلع چندر پور میں اپنے وظیفہ کو بہت اچھی طرح نبھایا سنہ  1992عیسوی میں مسجد شیعیان علی سوئی والان پرانی دہلی میں امام جماعت نماز پنجگانہ  منتخب کرلئے گئے اور سنہ 1997عیسوی تک اسی مسجد میں امور تبلیغ کو انجام دیتے رہے۔  
مولانا نےقم المقدسہ ایران سے ہندوستان واپسی کے بعد سنہ 2005 عیسوی میں وظیفہ تبلیغ کی انجام دہی کی غرض سے مڈاگاسکر کا رخ کیا اور سنہ 2012ء تک امور تبلیغ کو انجام دیا پھر اس کے بعد سنہ 2012ء سے 2016ء تک کسگانی کونگو میں وظیفہ امام جمعہ و جماعت کو انجام دیا پھر سنہ 2016ء ہی میں کنگو سے سیمپل فرانس کا رخ کیا اور ایک سال خدمات دینی کو انجام دیا۔ مولانا نے ان مقامات کے علاوہ بہت سے شہروں جیسے نیروبی، کینیا، زنجبار، کمپالا، یوگانڈا وغیرہ میں بھی عشرہ مجالس، محافل اور امور تبلیغ کو انجام دیتے رہے ہیں۔  
موصوف  ایک وظیفہ شناس عالمی مبلغ  تھے آپ نے ہندوستان اور بیرونی ممالک  و شہروں  جیسے  کسنگانی (کونگو آفریقا)، سیمپل (فرانس)،  نیروبی،  کینیا،  زنجبار،  کمپالا،  یوگانڈا ،  لکری والان  مرادآباد، احمد آباد،  برہم پوری  ضلع چندر، تلاجہ گجرات، دہلی   وغیرہ  میں تبلیغ دین کو انجام دے کر  اپنے وظیفہ پر عمل کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2017عیسوی میں بیرونی ممالک سے واپسی کے بعد مسجد شیعیان علی حوض سوئی والان پرانی دہلی میں نماز پنجگانہ کی امامت اور دیگر امور دینی کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے اور ساتھ ہی میں دہلی کے مختلف مقامات پر مجالس و محافل میں سخنرانی کی حیثیت سے سفر کرتے رہتے تھے۔ موصوف نے حج بیت اللہ اور زیارات عتبات عالیات کے لئے کئی مرتبہ ایران، عراق، شام اور سعودی عربیہ کا سفر کیا اور اپنے واجب اور مستحب وظیفہ کو انجام دیکر اپنے رب کو راضی کیا۔ 
بالآخر یہ علم و عمل کا ماہتاب 13/ ذیقعدہ  1442ہجری (25/جون  2021م بروز جمعہ  لال بہادر اسپتال دہلی میں داعی اجل  کو  لبیک کہہ گیا آپ کے جنازہ کو دہلی سے ان کے آبائی وطن عثمانپور امروہہ لے جایا گیا اور جنازہ کے ہمراہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید فرمان حیدر نقوی، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضی حیدر زیدی ان کے بھائی  کمال حیدر، شجر عباس، بیٹا علی اظہر داماد عاشو نوگانوی اور  بھانجا فیض موجود تھے۔ آپ کی تشیع جنازہ میں  کثیر تعداد میں علماء  اور مؤمنین نے شرکت کی اور  مولانا قرۃ العین مجتبٰی عابدی مدیر مدرسہ منتظر نوگاواں سادات نے نماز جنازہ  ادا کرائی اور ان کے جدی  قبروستان عثمانپور میں سپرد خاک کردیا گیا۔  
آخر میں ان  کے پسماندگان خصوصا ان کی اہلیہ ، پسران علی اظہر، محمد غازی ، دختران ، برادران، مؤمنین، علماء و فضلاء اور جملہ عزیز و اقارب  کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں پالنے والے  ان کے خانوادہ کو صبرجمیل و اجر جزیل عطا فرما آمین والحمد للہ رب العالمین۔ 

تبصرے
Loading...