ماسک، منظر اور پس منظر

حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا بھر میں پھیلی ہوئی وبا نما سیاست “کرونا” نے ہر انسان کو ماسک لگانے پر مجبور کردیا۔
کتنی تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان کی معمولی سی لغزش پوری دنیا میں تہہ و بالا مچادیتی ہے!۔

جس کو دیکھو اس کی زبان پر “اپنی جان بچاؤ” کے نعرے ہیں، ہر انسان سہما سہما سا اپنے دائرہ کو محدود سے محدودتر کرتا چلا جا رہا ہے کہ کہیں ہم اس مہلک وبا کی زد پر نہ آجائیں!۔
اب ایک سوال جو سر اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ماسک کوئی نئی شئے ہے؟ کیا ماسک کوئی عجوبہ ہے؟ کیا آج سے پہلے ماسک نامی شئے کا وجود نہیں تھا؟ کیا کوئی ماسک کو نہیں جانتا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہوگا کہ جی نہیں… ماسک کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ اس کی عمر کم سے کم چودہ سو سال ہے کیونکہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ماسک کا حکم دیا ہے البتہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں. آج کے ترقی یافتہ اور روشن فکری کے دعویداروں نے اس چیز کو ماسک کا نام دے دیا ہے۔
ماسک ہر زبان میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے. عربی میں اس کو حجاب یا نقاب کہتے ہیں، فارسی میں نقاب یا پوشہ کہتے ہیں، اردو میں پردہ یا نقاب یا حجاب جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔

اسلام نے اس چیز کا حکم چودہ سو سال پہلے دیا لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آیا. اسلام نے مرد کو بھی پردہ کا حکم دیا اور عورت کو بھی پردہ کا حکم دیا۔
لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ حکم نہ تو مرد کی سمجھ میں آیا اور نہ ہی عورت سمجھ سکی!۔
جب یہی حکم حکومتوں کی جانب سے آیا تو ہر شخص سراپا تسلیم نظر آنے لگا!۔

بالکل ویسے ہی جیسے اسلام نے خمس کا حکم دیا تو خمس دینے سے اپنی دولت میں بظاہر کمی ہوتی نظر آئی اور کسی آن خمس دینے کو تیار نہیں ہوتے لیکن جب حکومت نے ٹیکس لگایا تو راضی خوشی دینے کو تیار ہوگئے۔
اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا ٹیکس دینے سے دولت میں کمی واقع نہیں ہورہی ہے؟۔
خمس ادا کرنے کا کم سے یہ فائدہ تو ہوتا کہ آخرت کے لئے ذخیرہ ہوجاتا لیکن ٹیکس ادا کرنے سے تو صرف دولت میں کمی ہی کمی واقع ہوگی!۔

یہ تو دو چیزوں کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کے علاوہ نہ جانے کتنی چیزیں ایسی ہیں جو اسلام نے چودہ سو برس پہلے بتائی تھیں، انسان کی سمجھ میں اسلام کی کوئی بات نہیں آئی لیکن جب حکومتوں نے حکم دیا تو فوراً سمجھ میں آگیا۔
ان باتوں سے کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن اتنا ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اتنا زیادہ پست فکری کا شکار ہوچکا ہے کہ اس کو صرف ڈنڈے کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔
اگر حکومت کا حکم نہیں مانیں گے تو ڈنڈا ملے گا لیکن اسلام نے کبھی کسی کو کوئی ڈنڈا نہیں دکھایا۔
جس مذہب نے انسان کو ڈنڈا تک نہیں دکھایا اس مذہب پر یہ الزام لگانا کہ اسلام تلوار کے بل پر پھیلا ہے، کہاں تک معقول ہے؟۔

اسلام نے صفائی کا حکم دیا تو سمجھ میں نہیں آیا، حکومتوں نے حکم دیا تو سمجھ میں آنے لگا!. اسلام نے تو صفائی کی اتنی زیادہ تاکید کی کہ صفائی ستھرائی کو ایمان کی نشانی قرار دے دیا!۔
اسلام نے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم دیا تو ہماری سمجھ میں نہیں آیا لیکن کرونا نے سب کچھ ہندی میں سمجھا دیا۔

کرونا نے حجاب بھی سکھادیا، ہاتھ دھونا بھی سکھا دیا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بھی سکھا دیا۔
اگر دوسرے الفاظ میں یوں تعبیر کیا جائےتو شاید غلط نہ ہو کہ کرونا نے انسان کو اس کی اوقات یاد دلادی۔
بغیر ماسک لگائے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے. اگر نکل بھی گئے تو کوئی دکاندار اپنی دکان میں داخل نہیں ہونے دے گا کہ پہلے ماسک لگاکر آؤ تب کچھ سامان ملے گا۔
راستے کے لئے پانی لیکر چلو نہ یا چلو لیکن سینیٹائزر ضرور لیکر چلو، ہو سکتا ہے گاڑی میں کوئی کرونا کا مریض بھی سوار ہوا ہو لہٰذا پہلے اپنے آپ کو سینیٹائزر کے ذریعہ محفوظ کرلو تاکہ اس مہلک وبا سے محفوظ رہو۔

ہمیں اپنے مذہب پر فخر ہے کہ اس نے ہمیں گہوارہ سے لیکر قبر تک کی تعلیمات سے مالا مال کیا ہے. اس نے ہمیں پردہ کا حکم دیا ہم رعایت کرتے ہیں، اس نے ہمیں خمس کا حکم دیا ہم ادا کرتے ہیں،  اس نے ہمیں صفائی کا حکم دیا ہم خیال رکھتے ہیں یعنی ہم وبائی امراض سے بچنے کی احتیاطی تدابیر مستقل طور پر انجام دیتے ہیں۔

اگر تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود کرونا یا اس جیسی کسی دوسری مہلک وبا میں مبتلا ہوکر موت واقع ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قضا و قدر الٰہی یہی تھی۔
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ.

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،دہلی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...