عیدالاضحی اور قربانی

تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی عید کے معنی خوشی کے ہیں اور اضحی کے معنی قربانی کے ہیں کیونکہ لفظ اضحی عربی زبان میں اضحاۃ یا اضحیہ کی جمع ہے جس کے معانی قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرا نام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے جس کے معنی قربانی والے دن کے ہیں اور ان  دونوں ناموں کو  خود آنحضرت  (ص) نے استعمال فرمایاہے، یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حج والی قربانیوں کے لئے قرآن شریف اور حدیث میں ’’ھَدْیٌ‘‘ کا لفظ استعمال ہو ا ہے نہ کہ اضحی کا لفظ جو کہ عیدالاضحی کی قربانیوں کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔لغت میں  “قربانی”لفظ “قربان” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعہ خداوند متعال کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعہ ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعہ۔اصطلاح میں “قربانی” عیدالاضحی کے دن جانور ذبح کرنے کو کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام منیٰ میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کی کسی بھی جگہ پر انجام دیں۔
10 ذی الحجہ کو دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ دن دراصل اس عظیم قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت اور تعمیل حکم میں پیش کی تھی۔ اس بے مثال قربانی کے ذریعہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اہلِ ایمان کے پاس جان و مال کا جو بھی سرمایہ ہے وہ اِسی لیے ہے کہ خدا کے اشارے پر اسے قربان کردیا جائے۔ جانوروں کی گردن پر چھری پھیرنا اور ان کا خون بہانا دراصل اِس بات کاعہد ہے کہ اے پروردگارجس طرح تیری رضا کے لیے ہمارے نزدیک جانوروں کے خون کی قیمت نہیں ہے، اسی طرح ہماری جانیں بھی تیری  رضا کے لیےبےقیمت ہیں۔
قربانی ایک ایساعمل ہے جس پر حضرت محمد (ص)کی امت قیامت تک عمل کرتی رہے گی۔ خدا وند کریم قرآن مجیدمیں نبی اکرم(ص) کوبھی اپنی  طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو (سورہ کوثر آیت 2 )قربانی کرنا ہرحاجی پر واجب ہے جس کے مخصوص احکام اور شرائط ہیں جن کو ہم نیچے بیان کریں گے۔ حجاج کے علاوہ باقی  دیگر مسلمان بھی اپنے اپنے شہروں میں 10 ذی الحجہ، عید قربان کے روز  اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فائدے ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑتا۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸، مؤسسہ الوفاء)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے انجام کی تاکید غیرحاجی سے بھی کی گئی ہےکیونکہ اللہ نے اس میں خیر و برکت قرار دی ہے۔خدا وند کریم ارشاد فرماتاہے: ہم نے قربانی کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے(سورہ حج/ 36) 
اللہ نے قربانی میں حکمتوں کو پوشیدہ کیاہے: عہد جاہلیت میں لوگ قربانی کرکے اس کا گوشت خانہ کعبہ کے سامنے لاکر رکھتےاور اس کا خون اس کی دیواروں پر ملتے تھے قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے اس کے یہاں تقویٰ  پہنچتاہےجوذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتاہے خداوند کریم  ارشاد فرماتا ہے: خدا تک ان جانوروں کانہ گوشت جانے والا ہے اور نہ خون … اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو(سورہ حج، آیت نمبر 37)ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: “جب قربانی کے حیوان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸، مؤسسہ الوفاء)آج معاشرے میں لوگ  قربانی نہ قربت خدا کے لیے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے بلکہ اپنی شہرت کے لیے ایک ہفتہ پہلے سے قربانی کے جانور کی نمایش  کرناشروع کردیتے ہیں کہ لوگ دیکھ لیں کہ ہم نے کتنا قیمتی جانور لیا ہے اورسب لوگ ہماری قربانی کے جانور اور اس کی قیمت کی تعریف اور واہ واہی کریں۔اب ایسے انسان کی قربانی غیرخدا کے لیے ہی ہوسکتی ہےاللہ کے لیے نہیں کیونکہ اللہ ہرانسان کی ہرنیت سے بخوبی واقف  ہے۔
قربانی میں اللہ نے ضرورتمندوں کی مددجیسی حکمت کو بھی رکھا ہے،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: “خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ مساکین اس کے گوشت سے استفادہ کر سکیں(بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸) اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور ضرورتمندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے(تحریر الوسیلہ ، امام خمینی ، ج ۱، ص ۴۲۳ـ۴۲۴، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی )قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہواہے: اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ(سورہ حج/ 36)
حج میں  ہونے والی قربانی کے شرائط:حج میں  ہونے والی قربانی کے شرائط ہم یہاں پر ذکر کررہے ہیں تاکہ وہ افراد جن پر قربانی واجب ہے ان شرائط کا خیال رکھیں:  نمبر1 ۔سب سے پہلے نیت کا کرنا ۔نمبر 2 ۔جانورکی عمر، بنابر احتیاط واجب اونٹ چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو اوربھینس اور بکری تیسرے سال میں اور بھیڑ دوسرے سال میں داخل ہوئے ہوں اور مذکورہ عمر کی حد بندی، جانور کی کمترین عمر کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے لیکن زیادہ عمر کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے اور قربانی کی عمر اس سے زیادہ ہو تو بھی کافی ہے اس شرط پر کہ جانور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔نمبر 3 ۔جانور صحیح و سالم ہو۔ نمبر 4 ۔بہت دبلا اور کمزور نہ ہو۔ نمبر 5 ۔اسکے اعضا پورے ہوں پس ناقص حیوان کی قربانی کرنا کافی نہیں ہے مثلاً وہ جانور جس کے بیضے نکال لئے گئے ہوں۔ لیکن جس کے بیضےکوٹ دیئے جائیں لیکن خصی کی حد کو نہ پہنچاہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دم کٹا، اندھا، مفلوج، کان کٹا اور وہ حیوان جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا پیدائشی طور پر ہی معذور ہو تو اس کی قربانی کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے حیوان کی قربانی کافی نہیں ہے کہ جس میں ایسا عضو نہ ہو جو اس صنف کے جانوروں میں عام طور پر پایا جاتا ہواور ایسے عضو کا نہ ہونا نقص شمار ہوتا ہو۔لیکن جس جانور کے باہر کا سینگ ٹوٹا ہوا ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے اور جس جانور کا کان پھٹا ہوا ہو یا اسکے کان میں سوراخ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔( ویب سائٹ دفتر حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای)
قربانی سے متعلق چند مسائل: اگر ایک جانور کو صحیح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح کرے پھر اس کے مریض یا ناقص ہونے کا انکشاف ہو تو مالی توان کی صورت میں دوسری قربانی کو ذبح کرنا واجب ہے۔ (1)احتیاط واجب یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کی جائے۔(2)احتیاط کی بنا پر قربانی کے ذبح کرنے کو اختیاری حالت میں روز عید سے زیادہ تاخیر نہ کرے پس اگر جان بوجھ کر ، بھول کر، لاعلمی کی وجہ سے، کسی عذر کی خاطر یا کسی اور وجہ سےذبح کو تاخیر میں ڈال دےتو احتیاط واجب کی بنا پر ، ممکن ہوتو اسے ایام تشریق میں ذبح کرے ورنہ ذی الحجہ کے مہینے کے دیگر دنوں میں ذبح کرے اور علی الظاہرذبح کو دن میں انجام دے یا رات میں اس میں کوئی فرق نہیں ہے-(3) ذبح کرنے کی جگہ منیٰ ہے پس اگر منیٰ میں ذبح کرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح کرنے کیلئے جو جگہ تیار کی گئی ہے اس میں ذبح کرنا کافی ہے۔(4)احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ اثنا عشری ہو ہاں اگر نیت خود کرے اور نائب کو صرف رگیں کاٹنے کیلئے وکیل بنائے تو شیعہ اثنا عشری کی شرط کا نہ ہونا بعید نہیں ہے۔(5)قربانی کو خود انجام دے یا اس کی طرف سے وکالت حاصل کر کے کوئی دوسرا انجام دے لیکن اگر کوئی اور شخص بغیر اسکی ہماہنگی اور وکیل بنانے کے اسکی طرف سے ذبح کرے تو یہ محل اشکال ہے اور بنابر احتیاط اسی پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔(6) ذبح کرنے کے آلے میں شرط ہے کہ وہ لوہے کا ہو اور اسٹیل (وہ فولاد جسے ایک ایسے مادہ کے ساتھ ملایا جاتا ہے جس کی وجہ سےاسے زنگ نہ لگ پائے) لوہے کے حکم میں ہے۔ لیکن اگر شک ہو کہ یہ آلہ لوہے کا ہے یا نہیں تو جب تک یہ واضح نہ ہو کہ یہ لوہے کا ہے یا نہیں اسکے ساتھ ذبح کرنا کافی نہیں ہے۔۔( ویب سائٹ دفتر حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای)(7) جانور  کو ذبح کرتے وقت بہتر ہے اس دعا کو پڑھاجائے: بِسمِ الله الرّحمن الرّحیم، یا قَومِ اِنّی بَریءٌ مِمّا تُشرِکون اِنّی وَجَّهتُ وَجهی لَلَّذی فَطَرَالسَّمواتِ وَالاَرضَ حَنیفاً مُسلِماً وَما اَنَا مِنَ المُشرِکینَ اِنَّ صَلاتی وَ نُسُکی وَ مَحیایَ وَ مَماتی لِلّه رَبِّ العالَمینَ لا شَریکَ لَهُ وَ بِذالِکَ اُمِرتُ وَ اَنا مِنَ المُسلِمینَ اَللّهمَّ مِنکَ وَلَکَ بِسمِ الله وَ بِاللهِ وَ اللهُ اَکبَرُ اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍاس دعا کے بعد ذبح کرے -(8) اگر ذبح کرنے والا خود اپنی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو یہ کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِنّی-(9) لیکن اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِن فُلانِ بنِ فُلان فلان بن فلان کی جگہ اس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے۔البتہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اور ذبح کر رہا ہے اور ممکن ہو تو صاحب قربانی ذبح کرنےوالےکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اور مذکورہ دعا کو خود پڑھے۔
عید کا دن یقینا شکر گزاری اور اظہارِ فرحت ومسرت کا دن ہے، لیکن عیدالاضحی کا مقصد صرف نئے کپڑے پہننے اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کا نام نہیں ہےبلکہ عید الاضحی کا بنیادی مقصد تقویٰ، ایثار، قربانی، اور اخلاص پیدا کرنا ہے، انسانی زندگی کا ہر عمل اللہ کے لئے ہونا چاہیے۔
خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے :کہو میری نماز ،میری تمام عبادات ،میرا مرنا اور جینا سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے(سورہ انعام آیت 162)میں آخر میں تمام مسلمانوں کی خدمت میں عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنے رب سے دعا کرتا ہوں : اے وہ اللہ جس نے اس دن کو عید قرار دیا ہےتمام  مسلمانوں کےلیے اس دن کو مبارک قرار دے  اور عیدالاضحی کے مقاصد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ، کرونا جیسی مہلک وبا کا خاتمہ فرما اور دنیا میں امن و امان قائم فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔

تبصرے
Loading...