کربلا میں حضرت زینب کبری (ع)کا کردار

کربلا میں حضرت زینب کبری (ع)کا کردار

 
تاریخ ولادتآپ کی تاریخ ولادت جو شیعوں کے درمیان مشہورہے پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ۔
نام گزاریجس طرح امام حسین (ع) کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا اسی طرح آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے معین ہوا ۔ جب آپ پیدا ہوئیں ؛فاطمہ (س)نے علی (ع) سے کہا : سمّ ھذہ المولودۃ ۔ فقال ما کنت لاسبق رسول اللہ (کان فی سفر) ۔ ولما جاء النبی(ص) سالہ علی(ع) فقال ماکنت لاسبق ربّی اللہ تعالی ۔ فھبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من اللہ الجلیل وقال لہ سمّ ہذہ المولودۃ زینب ۔ ثمّ اخبرہ بما یجری علیھا من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب ھذہ البنت کان کمن بکی علی اخویھا الحسن والحسین -1-یعنی فاطمہ (س) نے علی سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علی (ع) نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خدا (ص) پر سبقت نہیں کی ہے ۔ کہ آپ سفر پر تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو علی (ع) نے سوال کیا ۔ آپ (ص) نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خدا کا سلام پہنچایا اور فرمایا: اس بچی کا نام زینب رکھا جائے ۔پھررسول خدا (ص) کو اس نومولود پر بیتنے والی ساری مصیبتیں سنائی ؛ تو رسول خدا (ص) آنسو بہانے لگے ۔ پھر فرمایا : جوبھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا ایسا ہے کہ ان کے بھائی حسن اور حسین (ع)پر آنسو بہایا ہو۔
اسم گرامیزینب ہے ۔ اصل میں زین اب یعنی باپ کی زینت ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے الف گر گیا ہے ۔اسی لئے بعض نے کہا :ام ابیھا کے مقابلے میں زین ابیھا رکھا گیا ۔
کنیت :ام المصائب ہے ۔
مشہور القابشریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ کہ امام سجاد (ع)نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء یعنی کربلا میں پنجتن پاک کے نائب موجود تھے جو بدرجہ شہادت فائز ہوئے :پیامبر اسلام (ص) کا جانشین علی اکبر(ع)تھے ۔امیر المؤمنین (ع)کا جانشین ؛علمدار عباس(ع) تھے ۔حسن مجتبیٰ (ع)کا جانشین ؛ قاسم بن الحسن(ع) تھے۔فاطمۃ الزہرا (س)کا جانشین آپ کی بیٹی زینب کبریٰ(س)تھیں ۔اور اس جانشینی کو اس قدر احسن طریقے سے انجام دیا کہ کربلا میں بھائی کے آخری وداع کے موقع پر اپنی ما ں کی طرف سے حلقوم اور گلے کا بوسہ بھی دیا-2-۔
آپ کا حسب ونسبویسے تو آپ کا نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن فن مقالہ یا کتاب نویسی کی رعایت کرتے ہوئے مختصر اً ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے :آپ کا دادا:شیخ البطحیٰ مؤمن قریش ، اہل مکہ کا سردار حضرت ابوطالب (ع) تھے۔آپ کا نانا:سید المرسلین حضرت محمد مصطفی (ص) ہیں ۔ چنانچہ ینابیع المودۃ میں عمر فاروق سے روایت ہے کہ: قَالَ عُمَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ كُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا حَسَبِي وَ نَسَبِي وَ كُلُّ بَنِي أُنْثَى عَصَبَتُهُمْ لِأَبِيهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ وَ أَنَا عَصَبَتُهُمْ-3-۔رسول خدا (ص) نے فرمایا : قیامت کے دن ساری نسبتیں ختم ہوجائیں گی سوائے میری اور میری اولادوں کی ۔اور ہر بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف دی جائے گی لیکن میری بیٹی فاطمہ الزہرا (س)کی اولاد کی نسبت میری طرف دی جائے گی۔معاشر الناس هو ناصر دين الله و المجادل عن رسول الله و هو التقي النقي الهادي المهدي نبيكم خير نبي و وصيكم خير وصي و بنوه خير الأوصياء معاشر الناس ذرية كل نبي من صلبه و ذريتي من صلب علي‏ -4- اے لوگو! وہ (علی(ع))دین خدا کا مدد گار ، رسول اللہ(ص) کامحافظ ، اور وہ متقی ،پرہیزگار،ہدایت کرنے والا ہے اور تمھارے نبی سب نبیوں سے اعلیٰ ، ان کا جانشین بہترین جانشین ، اور ان کی اولاد بہترین جانشین ہیں ۔ اے لوگو! ہر نبی کی ذریت کا سلسلہ ان کے اپنے صلب سے جاری ہوتا ہے ، لیکن میری ذریت کا سلسلہ علی (ع) کےصلب سے جاری ہوا ہے ۔‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ أَبِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَالِسَيْنِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص إِذْ دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ص السَّلَامَ وَ بَشِرَ بِهِ وَ قَامَ إِلَيْهِ وَ اعْتَنَقَهُ وَ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ أَجْلَسَهُ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ أَ تُحِبُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ وَ اللَّهِ اللَّهُ أَشَدُّ حُبّاً لَهُ مِنِّي إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ وَ جَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ هَذَا-5-۔ ‏عبد اللہ بن عباس روایت کرتا ہے کہ میں اور میرے بابا عباس بن عبدالمطلب (ره) رسول خدا (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی ابن ابیطالب (ع) تشریف لائے اور سلام کی ، رسول خد(ص) نےبھی سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا اور گلے ملائے اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) بوسہ دیا اور اسے اپنے دائیں طرف بٹھادئے ؛ عباس نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول (ص) !کیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں ؟رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے رسول خدا کے چچا جان ! خدا کی قسم انہیں مجھ سے بڑھ کر خدا دوست رکھتا ہے ؛ بیشک خدا نے ہر نبی کی اولاد کو ان کے اپنے صلب پاک میں رکھا ہے لیکن میری اولاد کو ان کے صلب میں رکھا ہے ۔———1 ۔ عباس جیانی دشتی ؛نائبۃ الزہرا، ص۱۷۔2 ۔ سید نورالدین ، جزائری؛ خصائص زینبیہ ، ۲۵۔3 ۔ العمدة ،ص 287، فصل ۳۵۔4 ۔ الاحتجاج ، ج1 ،ص 61 ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق۔5 ۔ كشف‏الغمة ۔ج1، ص 94۔
 

http://shiastudies.com/ur/2310/%da%a9%d8%b1%d8%a8%d9%84%d8%a7-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ad%d8%b6%d8%b1%d8%aa-%d8%b2%db%8c%d9%86%d8%a8-%da%a9%d8%a8%d8%b1%db%8c-%d8%b9%da%a9%d8%a7-%da%a9%d8%b1%d8%af%d8%a7%d8%b1/

تبصرے
Loading...