مجلس دوم

مجلس دوم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمایاک نعبد و ایاک نستعین”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔”
سامعین گرامی!انسان بارگاہ رب العزت میں طہارت و پاکیزگی کے ساتھ کھڑے ہوئے دن میں بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیری ذات میری معبود ہے۔ میری گردن تیرے ہی سامنے جھکے گی۔ میرا سر فقط تیرے سامنے خم ہو گا۔ اس انسان نے جب کلمہ پڑھا یعنی کہا لا الہ الا اللّٰہ‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تیرے علاوہ کسی کو خدا نہیں مانتا۔ اب جب عبادت کر رہا ہے اس کا بدن پاک و پاکیزہ ہے‘ اس کے کپڑے پاک ہیں‘ خشوع و خضوع سے اس کے دربار میں کھڑا ہے‘ اپنے سامنے ذات کردگار کو پاتا ہے۔ اس وقت بھی یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ یااللہ میں تیرے سامنے جھکوں گا‘ تیرے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ اتنا بڑا دعویٰ انسان کرتا ہے‘ ظاہر ہے دعویٰ کرتے وقت اس کے ذہن میں یہ چیز ضرور آنی چاہئے کہ میں اتنی بڑی ذات کے سامنے افراد کر رہا ہوں۔ یہ وہ ذات ہے جو کبھی غافل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس سے مخفی ہے‘ جسے کبھی نسیان نہیں ہوتا۔ وہ ذات میرے ہر ہر عمل کو ہر ہر وقت دیکھ رہی ہے۔ یہ وہ ذات ہے کہ جس کے سامنے دعویٰ کر رہا ہوں۔ آیا اس دعویٰ کے مطابق میرا عمل بھی ہوتا ہے… یا… نہیں۔ اسے یہ سوچنا‘ چاہئے۔ صلواةانسان مرکب ہے دو چیزوں کا‘ ایک ہے بدن اور دوسری ہے اس کی روح۔ بدن اور روح مل کر انسان مکمل کرتے ہیں‘ جہاں تک بدن کا تعلق ہے جس طرح انسان کا بدن ہے اسی طرح حیوان کا بھی بدن ہے‘ بدن کی وجہ سے انسان ممتاز نہیں ہے حیوان سے اگرچہ اس کا بدن ہڈی اچھی پیدائش سے بنایا گیا ہے۔کما احسن اللہ الخالقینانسان بدن کی وجہ سے ممتاز نہیں ہے بلکہ انسان کی عظمت‘ صفت اس کی روح کی وجہ سے ہے۔ اگر روح بلند ہے‘ انسان بلند ہے‘ اگر روح پست ہے تو انسان پست۔جتنا اپنے اندر روحانیت کو بلند کرتا جائے اتنا ہی مرتبہ بلند ہو گا۔ جتنا روحانیت سے ہٹتے ہوئے مادیت کی طرف ہو گا‘ اتنا ہی اس کے اندر پستی آتی جائے گی۔ اگر روحانیت کو بلند کرتا جائے اور مادیت کو اپنے پیروں تلے روندتا چلا جائے تو اس وقت انسان میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا‘ کسی اور سے نہیں ڈرتا‘ حتیٰ کہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا… کیوں؟ اس لئے کہ اس کی توجہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف ہے۔ اس کی توجہ ذات اقدس کی طرف ہے‘ اپنے خالق کی طرف ہے۔ اس وقت یہ سمجھتا ہے کہ مجھے نفع و نقصان صرف میرا خالق ہی دے سکتا ہے‘ مجھے تباہی سے میرا خالق ہی بچا سکتا ہے‘ کوئی دوسرا نقصان دے ہی نہیں سکتا‘ یعنی صحت ہے تو خالق کی طرف سے اگر نہیں تب بھی خالق کی طرف سے مال و دولت ہے وہ بھی خالق کی طرف سے۔اس وقت اس کی روحانیت اتنی بلند ہوتی ہے… کہتا ہے… کہ یااللہ تجھے دیکھ رہا ہوں‘ تیرے علاوہ کسی کو نہیں دیکھ رہا۔ اس وقت اپنے رب کی عظمت اس کے دل میں اس قدر ہوتی ہے کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ آپ خود دل میں سوچیں‘ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں‘ جب عظمت خدا پیدا ہو جائے‘ پھر دنیا کی جتنی بھی قوتیں ہوں وہ کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس وقت یہی کہتا ہے… خدایا‘ تیری ذات ایسی ہے جو سب کچھ کر سکتی ہے‘ تیرے علاوہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ جب یہ حالت پیدا ہو جائے‘ اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے تو اس وقت کہتا ہے‘ کون میرے ساتھ ہے‘ میرا اللہ میرے ساتھ‘ میرا خالق میرے ساتھ ہے‘ میرا معبود میرے ساتھ ہے۔اس وقت اگر کسی سے ٹکرائے‘ کسی کے ساتھ مقابلہ کرے چونکہ اس کی توجہ خدا کی طرف ہوتی ہے‘ لہٰذا جتنا بڑا ہو‘ اس کے مقابلے میں کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس سے مار کھا جائے۔جب بھی مار کھائے‘ جب بھی ذلیل و خوار ہو‘ جتنی روحانیت بلند ہو گی‘ چاہے اس کے سامنے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ کیا آپ نے دیکھا نہیں؟ کتنی بڑی طاقت تھی امریکہ جس نے اپنی قوت کے بل پر حملہ کیا‘ مقابلے میں کوئی آدمی بھی موجود نہ تھا‘ حملہ کیا اور خود ہی تباہ ہو گیا۔ تباہ ہونے کے بعد ان کے بڑے نے یہ کہا کہ ہم کیا کرتے ہم نے تو سوچ سمجھ کر حملہ کیا تھا‘ ہمیں توقع تھی کہ ہمیں ضرور کامیابی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کے ساتھ تھی۔ دیکھئے… کہ عظمت پیدا ہو گئی‘ طاقت پیدا ہو گئی‘ قوت پیدا ہو گئی‘ انسان میں…آپ اپنی طرف دیکھیں‘ ہماری حالت کیا تھی۔ جب ہم میں جذبہ ایمان پیدا ہوا‘ ہماری روحانیت بلند ہوئی‘ جب ہماری توجہ خدا کی طرف ہوئی تو سامنے ایک قوت تھی‘ ایک طاقت تھی جو اپنی فرعونیت میں غرق تھی‘ جس کی گردن اکڑی ہوئی تھی اور وہ یہ کہتا تھا کہ کون ہے جو میری بات کو نہ مانے‘ کون ہے جو میری بات کو ٹالے گا۔ لیکن جب آپ اسلام آباد پہنچے تو سامنے توپیں تھیں‘ سامنے قوت تھی‘ طاقت تھی‘ لیکن چونکہ آپ کی خدا کی طرف توجہ تھی‘ روحانیت تھی‘ نتیجہ کیا نکلا؟ کہ وہ قوتیں روندی چلی گئیں اور ہمیں عزت دی گئی۔
عزیزانِ محترم!یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟کیونکہ مادیت فنا ہو گئی‘ روحانیت بلند ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مطلق آمر اپنی پوری طاقت کے ساتھ مفتی جعفر حسین کے پاس بیٹھ کر بار بار یہ کہتا ہے کہ میں تو علماء کا خادم ہوں‘ آپ حکم کریں‘ میں آپ کا ہر حکم ماننے کو تیار ہوں۔یہ سب کچھ کیوں؟ اس لئے کہ روحانیت پیدا ہو گئی‘ روحانیت کے ہوتے ہوئے کسی طاقت کا خوف نہیں‘ ڈر نہیں تھا۔ ہمارے امام۱یہی فرماتے ہیں‘ خدا یہی فرماتا ہے کہ اگر روحانیت پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کسی طاقت کا ڈر نہیں رہتا۔
صلواةانسان کی روح‘ انسان کا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے‘ بدن اور روح سے اصل روح ہے۔ روح اگر بلند ہو جائے تو انسان بلند ہو جائے۔ روح کا مسئلہ مشکل ہے تھوڑی سی توجہ کی جائے‘ انسان کی زندگی کا دار و مدار اس کی روح پر ہے‘ روح اگر ہمارے اندر ہے تو ہم زندہ ہیں‘ اگر روح چلی جائے‘ طاقتیں ختم ہو جائیں گی‘ قوتیں ختم ہو جائیں گی‘ انسان مردہ ہو جائے گا۔ اس وقت گھر والے‘ خاندان والے یہی کہیں گے کہ جتنی جلدی ہو‘ اسے دفن کریں اور اپنے گھر چلیں۔انسان کی روح میں تین خصوصیتیں ہیں:۱۔ روح پہلے پیدا کی گئی‘ انسان بعد میں پیدا گیا۔ روح ہزاروں سال پہلے پیدا کی گئی‘ انسان ہزاروں برس بعد پیدا کیا گیا۔لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ روح ہے پہلے… جسم انسان بعد میں پیدا ہوا۔۲۔ روح سارے اعضاء کا علم رکھتی ہے‘ اسے پتہ ہے کہ کس عضو سے میں نے کیا کام لینا ہے‘ کونسا عضو کونسا کام کرے گا۔ انسان کی روح اپنے جسم کی تمام چیزوں کی عالم ہے‘ اسے سارا علم ہے‘ بدن میں جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں‘ چھپی ہوئی نہیں۔۳۔ روح کا کنٹرول ہے بدن پر‘ قبضہ ہے بدن پر‘ جس عوض سے روح جو کام لینا چاہے‘ بدن انکار نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ اس کا قبضہ‘ اس کا کنٹرول اس قدر ہے کہ روح کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ روح کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کام ہو اور وہ کام فوراً شروع ہو جاتا ہے‘ زبان بولنا شروع کر دیتی ہے‘ روح کی خواہش ہوتی ہے‘ ہاتھ حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔گویا کہ… روح کی جیسی نیت ہو گی یہ اعضاء سارے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اسی طرح پوری کی پوری کائنات پورے کا پورا عالم بمنزلہ ایک بدن کے ہے۔ میں نہیں کہہ رہا‘ آپ کے میرے مولا حل مشاکل امیرالمومنین۱کا فرمان ہے کہاتزعم انک جدم صغیر فیک الطوی عالم الاکبر”اے انسان! تو یہ خیال کرتا ہے کہ چھوٹا سا جسم ہے‘ نہیں‘ پورے کا پورا عالم تیرے اندر پوشیدہ ہے‘ عالم اکبر میں جو کچھ پایا جاتا ہے‘ انسان کے اندر پوشیدہ ہے۔”گویا انسان میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ پوری کائنات میں پایا جاتا ہے جیسے اس انسان کا چھوٹا سا بدن۔ اس میں بدن بھی ہے‘ روح بھی ہے۔ اسی طرح پوری کائنات بمنزلہ ایک بدن کے ہے۔ اس پوری کائنات کی بھی ایک روح ہونی چاہئے‘ اس کی بھی ایک روح ہو گی‘ البتہ فرق یہ ہو گا کہ مارا بدن ایک چھوٹا سا بدن ہے‘ اس کی روح کو فلسفی زبان میں روح کلی کہا جائے گا‘ ایک بدن کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ عالم چونکہ بہت بڑا ہے‘ عالم کی روح جو ہو گی‘ اس کو روح کلی کہا جائے گا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ایک انسان میں ایک روح ہے جس کو روح جزوی کہا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی کا دار و مدار اسی روح جزوی پر ہے۔ کائنات کی زندگی کا دار و مدار اس روح کلی پر ہے۔ بعینہ یہ کائنات جو آپ کو نظر آ رہی ہے‘ آسمان‘ زمین‘ سورج‘ چاند ان میں روح کلی موجود ہے‘ تبھی یہ کائنات موجود ہے۔ جیسے انسان کی روح جانے سے انسان مردہ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح کائنات کی روح کے ایک سیکنڈ کے لئے بھی جانے سے پورے کا پورا عالم کائنات تباہ و برباد ہو جائے گا۔
صلواةظاہر ہے روح کی خصوصیت میری روح بدن سے پہلے پیدا کی گئی۔ آپ کی روح آپ کے بدن سے پہلے پیدا ہوئی۔ تواسی طرح یہ کائنات‘ یہ عالم اس کی روح بھی اس سے پہلے پیدا کی گئی ہو گی اور یہ عالم‘ یہ جہاں بعد میں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس عالم کی روح کلی نہ ہوتی تو عالم کو پیدا نہ کیا جاتا‘ یعنی اس عالم کے وجود کا دار و مدار اس روح کلی پر ہے۔روح کلی پہلے تھی‘ عالم بعد میں اور یہ روح کلی جب تک رہے گا اس وقت تک عالم رہے گا۔خداوند عالم حدیث قدسی میں اپنے حبیب ۱کو مخاطب کر رہا ہے:اے میرے حبیب!انت المرید و انت المرادمرید کے معنی پیری مریدی نہیں ہوتی بلکہ اس کے معنی انت المرید یعنی تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے‘ تو ہمیشہ میری ذات کو دیکھتا ہے‘ میری مشیت کے مطابق چلتا ہے‘ جس طرح میری مشیت ہو تو‘ توُ اس کے مطابق بولتا ہے‘ جیسے میری مشیت ہو اس کے مطابق کام کرتا ہے‘ تیری توجہ اپنی طرف بھی نہیں ہوتی بلکہ میری طرف ہوتی ہے۔ حالانکہ تو دیکھتا ہے کہ میرا خالق مجھ سے کیا چاہتا ہے‘ حالانکہ تیری توجہ ہوتی ہے کہ میرا مالک مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ اگر یہ کلمہ ہوتا یعنی رسالتمآب کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہوتی ہے۔رسالتمآب دنیا سے کسی چیز کو نہیں دیکھتے‘ اپنے بدن کی طرف بھی توجہ نہیں فرماتے‘ اپنی ذات کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑا کلمہ تھا‘ لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑا کلمہ کہا گیا۔ارشاد ہوا کہانت المرید و انت المراد”اے میرے حبیب! جس طرح تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے‘ اسی طرح میری توجہ تیری طرف ہوتی ہے۔”
صلواة”جس طرح تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے تو دیکھتا ہے کہ میرا مالک کیا چاہتا ہے‘ اسی طرح میری توجہ تیری طرف ہوتی ہے‘ میں دیکھتا ہوں کہ میرا حبیب ۱کیا چاہتا ہے۔”ارشاد ہوا کہانت سیدی فی خلقی”پوری کائنات میں سے میں نے تجھی پسند کیا‘ میں نے تجھے چن لیا۔”اب وہ کلمہ جس کے لئے یہ حدیث قدسی بیان کی۔ارشاد قدرت ہوا کہوعدنی و خلاتی لولاک لما خلقت الا فلاک”مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر تجھی پیدا نہ کرتا تو کائنات میں سے کچھ نہ بناتا۔”
حضرات گرامی!آپ نے غور فرمایا کہ جناب رسالتمآب ۱کی ذات گرامی وہ ذات ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات پیدا کی گئی‘ جس کی وجہ سے افلاک پیدا کئے گئے۔ گویا کہ رسالتمآب کا وجود پہلے تھا‘ یہ کائنات بعد میں پیدا ہوئی۔اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری کائنات بمنزلہ ایک جسم کے لئے پوری کی پوری کائنات بمنزلہ ایک بدن کے لئے اس کی روح خیا ہے؟اس کی روح حقیقت محمدیہ ہے‘ یہ پہلے خلق ہوئی اور بعد میں کائنات۔ تو پوری کائنات کی غرض و غایت حقیقت محمدیہ ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ جب تک روح کلی اس کائنات میں موجود رہے گی‘ حقیقت محمدیہ کا کوئی فرد اس کائنات میں موجود رہے گا‘ اس وقت تک یہ کائنات موجود رہے گی‘ کیونکہ کوئی چیز اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کی روح موجود نہ ہو۔ تو یہ حقیقت محمدیہ‘ اس کا کوئی فرد جب تک موجود ہو گا‘ کائنات رہے گی اور اگر موجود نہ ہوتا تو کائنات نہ ہوتی۔اسی لئے ارشاد ربانی ہوا کہلولا الحجة یسخط الارض وما فیھا”اگر حجت خدا زمین میں موجود نہ ہوتی تو یہ کائنات ایک سیکنڈ کے لئے بھی باقی نہ رہتی۔”تو اس کائنات کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں بارہویں لعل ولایت۱موجود ہیں‘ جن کی وجہ سے یہ کائنات باقی ہے۔
عزیزان محترم!عرض کیا ہے کہ عالم کلی کی بھی ایک روح ہوتی ہے اور وہ روح حقیقت محمدیہ ہے‘ اس کو پہلے ہونا چاہئے‘ کائنات کو بعد میں‘ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام‘ جنہیں ابوالبشر کہا جاتا ہے‘ ان سے پہلے بھی یہ روح ہونی چاہئے‘ کیونکہ عالم کلی کی روح حقیقت محمدیہ ہے۔ حقیقت محمدیہ کو پہلے ہونا چاہئے‘ آدم۱کی پیدائش بعد میں ہونی چاہئے۔اس لئے حقیقت محمدیہ نے یہ ارشاد فرمایا:کنت بنیاو آدم بین الماء والطین”میں اس وقت بھی نبی تھا‘ جب کہ حضرت آدم۱پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔”اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حقیقت محمدیہ پہلے تھی یا اس نور کے جتنے اجزاء ہیں وہ سب کے سب اکٹھے موجود تھے‘ سب کے سب اکٹھے روح عالم کلی کہلاتے ہیں۔حضور ارشاد فرماتے ہیں۔امیرالمومنین۱کی طرف دیکھ کر ایک کلمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ”اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ امیرالمومنین۱کو امیرالمومنین۱کا لقب کیوں دیا گیا ہے تو وہ امیرالمومنین۱کا کبھی انکار نہ کرتے۔”وہ امیرالمومنین کب کہا گیا؟مولائے کائنات۱کو امیرالمومنین اس وقت کہا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام کا جسم اور روح ابھی اکٹھے نہ ہوئے تھے‘ بلکہ جدا جدا تھے۔ہاں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ عالم کلی کی ایک روح ہے‘ وہ حقیقت محمدیہ ہے۔ یہ روح جب تک موجود ہے‘ کائنات موجود ہے۔ حقیقت محمدیہ کو پہلے پیدا کیا گیا اور یہ پوری کائنات بعد میں وجود میں آئی۔ اب روح کی دوسری خصوصیت کہ روح اپنے بدن کی عالم ہوتی ہے‘ روح کو پتہ ہوتا ہے کہ کیسے کام لینا ہے۔ تو جیسے ایک انسان کی روح اس کے بدن کی عالم ہے‘ اسی طرح کائنات عالم کلی کی روح ہو گی‘ اس کو پتہ ہے پوری کائنات کی عالم ہے‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں‘ حالانکہ وہ کائنات کو دیکھ رہے ہیں‘ ہر وقت دعویٰ کرتے ہیں‘ ہر چیز ان کے سامنے ہے‘ اس کی دلیل ہے‘ روح کو عالم ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس روح کلی کے جتنے افراد تھے‘ جتنا جتنا علم دینا چاہئے تھا‘ ان کے زمانے میں ان کو دے دیا گیا۔اب دیکھئے!حضرت آدم علیہ السلام کا مقابلہ فرشتوں سے ہو رہا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ ہم تقدیس کرتے ہیں‘ ہم خدا کی پاکیزگی کو بیان کرتے ہیں‘ لہٰذا منصب ہمیں ملنا چاہئے‘ منصب حضرت آدم۱کو مل گیا۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ عہدہ کیوں ملا؟قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:وعلم آدم الاسماء کلھاحضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم کیوں دیا گیا؟ حضرت آدم۱کیوں ممتاز ہوئے؟ مسجود ملائکہ کیوں ہوئے؟ آپ۱کو یہ عہدہ کیوں دیا گیا؟ کیونکہ اسماء کا علم فرشتے نہ جانتے تھے۔ حضرت آدم۱کے پاس یہ علم تھا‘ تو اب آپ نے دیکھا کہ آدم۱کیوں ممتاز ہوئے؟ عالم کلی کی بد روح کیوں ممتاز ہوئی؟ آدم۱معمولی شخصیت نہ تھے‘ آدم۱مسجود و ملائکہ تھے۔ تمام قوتیں جس کے سامنے جھکی ہیں‘ تمام قوتوں نے جس کو سجدہ کیا ہے‘ اس آدم۱کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے کہ ان کو اسماء کا علم تھا۔اب آدم۱کے بعد ذرا آگے چلیں۔ آدم۱کا علم سب سے زیادہ تھا‘ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام۔ حضرت نوح۱کا علم حضرت آدم۱کے علم سے بھی زیادہ تھا۔حضرت نوح علیہ السلام کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ آنے والی نسلوں کی طرف دیکھ رہے تھے‘ ان کی توجہ آنے والی نسلوں کی طرف تھی‘ وہ دیکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے:رب لا نذر علی الارض من الکفرین دیارا”اے میرے پالنے والے! اس زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی نہ چھوڑ سب کو تباہ و برباد کر دے۔”اے اللہ کے نبی۱یہ کیوں فرمایا… اس لئے کہ ان کے جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی کافر ہوں گے۔ تو نوح۱کو اس قدر علم دیا گیا کہ وہ آنے والی نسلوں کو دیکھ رہے ہیں۔ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ…جنگ صفین میں ایک رات جنگ ہو رہی تھی‘ لیلة الحدیر کے باوجود بھی مولائے کائنات۱نے نماز تہجد نہیں چھوڑی‘ میرے مولا۱نے صفوں کے درمیان نماز تہجد ادا فرمائی۔ابن عباس کہتے ہیں کہ مولا۱یہ نماز کا وقت ہے‘ اتنی جنگ ہو رہی ہے…مولا۱فرماتے ہیں‘ اسی نماز کے لئے ہی تو ہم لڑے ہیں۔بہرحال اس رات کو مولا۱نے تین سو (۳۰۰) آدمیوں کو فی النار کیا اور آپ کے صحابی خاص ساتھی مالک اشتر نے بھی ۳۰۰ آدمیوں کو فی النار کیا۔ مالک اشتر آپ۱ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ عرض کرتا ہے کہ مولا۱! آپ۱کا غلام ہوں‘ آپ ۱کا خادم ہوں‘ اس کے باوجود بھی آپ۱نے بھی ۳۰۰ آدمیوں کو فی النار کیا اور میں نے بھی‘ اس لحاظ سے آقا اور غلام دونوں برابر ہوئے۔مولا۱ارشاد فرماتے ہیں:”اے مالک اشتر! ایک فرق ہے تیری اور میری تلوار میں‘ جو تیرے سامنے آیا تو اس کو گاجر اور مولی کی کاٹ دیتا ہے‘ تیری تلوار یہ نہیں دیکھتی کہ کوئی مومن ہے یا منافق۔ لیکن علی۱کی تلوار میں یہ فرق ہے کہ میری تلوار یہ دیکھتی ہے کہ آیا اس کی پشتوں میں کوئی مومن پیدا ہونے والا تو نہیں ہے‘ سات پشتوں تک علی۱کی تلوار دیکھ کر چلتی ہے کہ اس کی نسل سے کوئی مومن پیدا ہونے والا نہیں ہے‘ اس لئے میں نے تین سو آدمیوں کو فی النار کیا۔”حضرت آدم۱کو اسماء کا علم عطا کیا گیا۔ حضرت نوح۱آنے والی نسلوں کو دیکھ رہے ہیں‘ ان کا علم بڑھ گیا تو جب حضرت ابراہیم۱کا زمانہ آیا تو قرآن کہہ رہا ہے کہکذلک”ہم نے ابراہیم۱کو آسمان اور زمین کے حقائق بتائے۔”یعنی ان کا علم حضرت نوح۱سے بڑھ گیا‘ روح خلی کا علم اب اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت ابراہیم۱حقائق آسمان کو دیکھ رہے ہیں‘ لیکن کیوں…ارشاد ہوا کہولیکون من المومنین”تاکہ حضرت ابراہیم۱کو یقین ہو جائے۔”اب تمام معاملات حضرت ابراہیم۱آسمان اور زمین کے حقائق دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کو یقین ہو جائے اور وہ مومنین میں شمار ہو جائیں‘ لیکن اس کے باوجود ایک وقت ایسا آتا ہے‘ حضرت ابراہیم۱کہتے ہیں کہ اے رب العزت! تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے اور کس طرح مارتا ہے؟ارشاد ہوتا ہے کہ”اے ابراہیم! کیا تم۱۱ایمان نہیں رکھتے۔”حضرت ابراہیم۱عرض کرتے ہیں کہ پاک پروردگار اطمینان قلب چاہتا ہوں۔گویا مطلب ہوا کہ ابھی تک حضرت ابراہیم۱کے علم میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کمی کو دور کریں‘ اطمینان قلب‘ وہ چاہتے ہیں۔اب علم اتنا بلند ہو گیا کہ آسمان و زمین کے حقائق سامنے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود کمی پائی جاتی ہے۔ایک زمانہ ایسا آیا کہ علم اپنے عروج پر تھا‘ وہ کس کا زمانہ؟حبیب خدا کا زمانہ جن کے لئے یہ ساری کائنات بنائی جاتی ہے۔ اس کا علم اس قدر بڑھا‘ اتنا بلند ہوا کہ انہیں کہنا پڑا:انا مدینة العلم و علی بابھا”میں۱ علم کا شہر ہوں اور علی۱اس کا دروازہ ہے۔”
صلواةرسول کے بھائی رسول کے شاگرد کے علم کی انتہا کہاں تک پہنچ گئی۔لیکن یہ ذہن میں رہے حضرت ابراہیم۱کے سامنے صرف آسمان اور زمین کے حقائق کھولے گئے تو ابھی اطمینان قلب حاصل نہیں ہوا‘ کمی رہ گئی‘ لیکن رسول اللہ کے بھائی رسول اللہ کے شاگرد علم کی انتہا بیان فرماتے ہیں:لو کشف الفطا لما ازدرت یقیناعلی۱کا علم اس حد تک پہنچ گیا کہ اب کوئی پردہ نہیں رہا جس کو ہٹانے کی ضرورت ہو۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ علم اب اپنے عروج کو پہنچ گیا کہ پوری کائنات ہر وقت سامنے ہے‘ کوئی چیز مخفی ہے تاکہ علم کی کمی ہو‘ پردہ ہٹانے کی ضرورت ہو۔ اس لئے مولا۱کا فرمان ہے۔حضور فرماتے ہیں:رسول اللہ۱ کو تکلیف دیتے ہو‘ رسول اللہ۱ کو اذیت دیتے ہو۔ مومنین سے کہا جا رہا ہے۔مومنین حیران ہو کر عرض کرتے ہیں کہ مولا۱! ہم کیا تکلیف دے سکتے ہیں‘ ہمارے ماں باپ آپ۱پر قربان‘ ہم کیسے اذیت پہنچا سکتے ہیں؟حضور ارشاد فرماتے ہیں:کیا تم نہیں جانتے ہو…ہم اس وقت جو عمل کر رہے ہیں‘ گھر میں جو عمل کرتے ہیں‘ چھپ کر کرتے ہیں‘ تاریکی میں کرتے ہیں‘ اس حالت میں کرتے ہیں کہ کوئی بچہ بھی نہیں دیکھتا‘ بیوی نہیں دیکھ رہی ہوتی‘ لیکن کیا تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے اعمال سے رسول اللہ واقف ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ۱ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔جب تم کوئی اچھا عمل کرتے ہو تو رسول اللہ خوش ہوتے ہیں اور دعا فرماتے ہیں۔ جب تم کوئی برا عمل کرتے ہو تو رسول اللہ کو اذیت ہوتی ہے۔ ہمارا ہر عمل ذات مقدسہ کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم جب کوئی کام کرتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا ہر عمل رسول اللہ کے سامنے ہوتا ہے‘ امام۱کے سامنے ہے۔ آیا ہمارے عمل سے ان کو کوئی اذیت تو نہیں ہو گی‘ آیا دن رات میں کتنی مرتبہ ان کو خوش کرتے ہیں اور کتنی مرتبہ ناراض…اگر ہم ان کو خوش نہیں کرتے تو رسول اللہ کا فرمان صادق آئے گا۔تم رسول اللہ۱ کو اذیت کیوں دیتے ہو؟
صلواةسامعین گرامی!تو میں عرض کر رہا تھا کہ عالم کلی کی روح پوری کائنات کی عالم ہے‘ جس طرح ایک بدن کی روح اس کے پورے بدن کی عالم ہوتی ہے۔ رسول اللہ نے اپنے بھائی علی۱کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:من اراد ان ینظر الیٰ آدم فی علمہ و الیٰ نوح فی حلمہ و الیٰ ابراہیم فی خلة والی یوسف فی جمالہ والی موسیٰ فی ھیبہ والی عیسیٰ فی کملہ والی یحیی فی زھدہ فلینظر الی وجہہ علی ابن ابی طالب”اگر آدم۱کے علم کو دیکھنا چاہو‘ نوح۱کا حلم دیکھنا چاہو‘ ابراہیم۱کی خلت دیکھنا چاہو‘ یوسف۱کا جمال دیکھنا چاہو‘ موسیٰ۱۱کی ہیبت‘ عیسیٰ کا کمال علی۱کے چہرئہ مبارک کی طرف دیکھئے‘ تمام کمالات نظر آئیں گے۔”گویا کہ ان تمام بڑی بڑی شخصیتوں کے کمالات اگر اکٹھے کر دیئے جائیں تو بنتے ہیں اور اگر علی۱کے کمالات کو پھیلا دیا جائے تو انبیاء۱بنتے ہیں۔ذرا غور کے ساتھ سماعت فرمائیں…حضرت۱نے یہ نہیں کہا کہ اگر حضرت آدم۱کے علم کو دیکھنا چاہتے ہو تو علی۱کو دیکھ لو‘ مطلب یہ ہوتا کہ علی۱کا علم اور آدم۱کا علم برابر ہے۔ آدم۱کے علم کو دیکھنا ہے تو علی۱کے علم کو دیکھو‘ آدم۱کے علم کا پتہ چل جائے گا۔حضرت ابراہیم۱کی خلت کو دیکھنا چاہتے ہو تو علی۱کی خلت کو دیکھو۔ موسیٰ۱۱کی ہیبت کو دیکھنا ہے تو علی۱کی ہیبت کو دیکھو۔ یہ نہیں فرمایا گیا‘ بلکہ یہ فرمایا گیا کہ اگر آدم۱کے علم کو دیکھنا ہے تو علی۱کے چہرے کو دیکھو۔یہ نہیں فرمایا گیا کہ آدم۱کا علم دیکھنا ہے تو علی۱کو دیکھو‘ اگر علی۱کو دیکھا جاتا تو آدم۱اور علی۱کا علم برابر ہو جاتا۔ کہا کیا جاتا ہے کہ آدم۱کے علم کو دیکھنا ہے تو علی۱کے چہرے کو دیکھو۔کمالات کا مرکز انسان کا باطن ہے‘ کمالات کا منبع انسان کا باطن ہے۔ کمالات انسان کا اپنا باطن ہوتا ہے‘ اس کے اثرات انسان کے چہرے پر ہوتے ہیں‘ اس کے کچھ…مثلاًفرض کیجئے اگر آپ کسی چیز سے خوذ ہوتے ہیں تو خوشی کا تعلق دل کے ساتھ ہے‘ خوشی کا تعلق باطن کے ساتھ ہے اور خوشی کے آثار انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔اگر غمی ہے تو غمی کا تعلق باطن کے ساتھ ہے‘ اس کے کچھ آثار انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جتنا بھی غم کو چھپانے کی کوشش کرے پھر بھی ظاہر ہو جاتے ہیں‘ جتنا بھی خوشی کو چھپانے کی کوشش کرے پھر بھی آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔ تو جتنی خوشی انسان کے دل میں ہو وہ پوری کی پوری چہرے سے معلوم نہیں ہوتی‘ اس کے فقط نشانات معلوم ہوتے ہیں۔ جتنی غمی دل میں ہو وہ بھی ساری ظاہر نہیں ہوتی‘ بلکہ اس کے کچھ نشانات چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔اب آپ غور فرمایئے کہ کہا جا رہا ہے کہ آدم۱کے علم کو‘ ابراہیم۱کی خلت کو‘ نوح۱کے حلم کو‘ موسیٰ۱۱کی ہیبت‘ عیسیٰ کی حکمت دیکھنی ہو تو علی۱کے چہرے کی طرف دیکھو۔ گویا بتلانا مقصود ہے کہ علی۱کے علم اور آدم۱کے علم میں کوئی نسبت نہیں۔ اگر آدم۱کا علم دیکھنا ہے تو مقابلہ نہیں ہے‘ بلکہ علی۱کے چہرے کو دیکھ آدم۱کا علم اتنا ہے‘ جس طرح علی۱کے علم کے کچھ نہ کچھ نشانات ان کے چہرے میں پائے جاتے ہیں۔ورنہ علی۱کا علم کجا اور آدم۱کا علم کجا۔تو میں ذکر کر رہا تھا کہ روح پہلے ہے‘ یہ عالم بعد میں پیدا کیا گیا۔ روح عالم کی تمام چیزوں کی عالم ہے‘ یہ روح کلی حقیقت محمدیہ ہے۔ حقیقت محمد و آل محمد۱کے سامنے عالم کی ہر چیز موجود ہے۔چونکہ حقیقت محمدیہ روح ہے عالم کے لئے اور عالم اس کا بدن ہے۔ تو اب عالم میں جو کچھ ہو گا اس کے اثرات روح پر پڑیں گے اور روح کو اگر تکلیف ہو گی تو اس کے اثرات عالم پر پڑیں گے۔ جس ذات نے اپنے خالق کے سامنے جھکنا ہے‘ اپنے خالق کے سامنے گردن خم کرنی ہے تو اس کی گردن اس کی روح کی قسم ہو گی۔ بدن میں جب تک روح ہے‘ بدن جھکے گا‘ اگر روح نہ ہو تو بدن جھک نہیں سکتا‘ تو جب روح نے جھکنا ہو تو انسان کے اندر عظمت ربی پائی جائے‘ خوف خدا پایا جائے‘ انسان کی روح میں محبت خدا ہو تو وہ خدا کے سامنے جھکے گا۔ اگر روح میں محبت خدا نہ ہو‘ خوف خدا نہ ہو تو اگر وہ کسی وقت جھک بھی گیا تو یہ ایسے ہے‘ جیسے ڈنڈے کے خوف سے جھکا ہو‘ ادھر ڈنڈا ہٹا ادھر روح جھکنے سے ہٹی…تو حقیقت میں جھکنا تب ہے جب محبت خدا دل میں پائی جائے‘ خوف خدا پایا جائے‘ عظمت خداوندی کا احساس ہو۔ جن ذوات مقدسہ کو ہم عالم کائنات حاکم سمجھتے ہیں‘ صادق کائنات سمجھتے ہیں‘ ان کی توجہ اپنے خالق کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح ہوتی ہے کہ جب وہ عبادت کر رہے ہوتے ہیں‘ ان کی اپنے بدن کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔مشہور واقعہ ہے کہایک نیزہ حضرت امیر علیہ السلام کے پاؤں میں لگ گیا‘ اس کو نکالنے کی کوشش کرتے تو بڑی تکلیف ہوتی۔ تو جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ میرا بھائی علی۱جب نماز پڑھ رہا ہو اس وقت نیزہ نکال لینا‘ میرے بھائی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔کیونکہ ان کی توجہ صرف اور صرف خدا کی طرف ہے۔ تو علی۱عبادت خدا میں اس قدر غرق ہوتے تھے کہ خدا کے علاوہ ان کی توجہ ان کے اپنے بدن کی طرف بھی نہ ہوتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ اے علی۱! آپ۱خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ کیا آپ۱نے خدا کو دیکھا ہے؟تو علی۱فرماتے ہیں:لم اعبد من لم اراہ”علی کبھی ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھا نہ ہو۔”حیران ہوں کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:لا تدرکہ الابصار ویدرک الابصار”یہ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھتیں بلکہ خدا ان آنکھوں کو دیکھتا ہے۔”آپ۱نے فرمایا کہ میں۱خدا کو دیکھا‘ تبھی اس کی عبادت کرتا ہوں۔اس وقت مولا۱نے فرمایا‘ یہ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھتیں بلکہ یں نے اپنے دل کی آنکھوں‘ قلب کی آنکھ سے خدا کو دیکھا ہے۔تو پوچھا گیا‘ جب آپ۱نے اپنے دل کی بصیرت‘ قلب کی آنکھ سے خدا کو دیکھا ہے تو کیسا پایا؟تو حضرت۱فرماتے ہیں:میں نے خدا کو ایسا پایا کہ چیز سے پہلے خدا تھا‘ ہر چیز کے بعد بھی خدا ہے اور ہر چیز کے بعد خدا ہی رہے گا۔یہ عبادت ہے مولا۱کی‘ ہم اس مولا۱کے ماننے والے ہیں‘ ہماری توجہ اس مولا۱کی طرف ہوتی ہے‘ ہم مولا۱کو حل مشاکل کہتے ہیں‘ مشکل کشا عالم کہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہماری عبادت مولا۱کی طرح ہو‘ لیکن مولا۱فرماتے ہیں کہ کم از کم ہمارے راستے پر چلنے کی کوشش کرو۔یہ تھا مولا۱کا فرمان۔اب آپ کا مولا حسین۱۔ حسین۱کی عبادت کس طرح تھی؟ حسین۱نے بھی یہی فقرہ کہا ہے‘ جو بابا۱نے کہا تھا‘ لیکن تھوڑا سا تبدیل کر دیا‘ تاکہ باپ بیٹے میں فرق تو ہو جائے۔بابا۱نے کیا کلمہ کہا‘ بیٹے۱نے کیا کلمہ کہا۔حسین۱کہتے ہیں‘ خداوند کو مخاطب کر کے:خدایا! تو محسن ہے‘ کب غائب ہوا کہ کسی رہبر کی ضرورت پڑے‘ کوئی رہبری کرے۔ خدایا! تو کب دور ہوا کہ تیری طرف پہنچنے کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہو نہیں‘ نہیں‘ تیری ذات غائب نہیں‘ تیری ذات دور نہیں‘ تیری ذات بہت قریب ہے‘ تیری ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے۔”اس کے بعد حسین۱نے ایک کلمہ کہا۔حسین۱کے بابا۱نے کہا:لم اعبدن لم اراہ”میں کبھی ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا‘ جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔”لیکن حسین۱نے عجیب کہا:”خدایا! جو آنکھ تجھے دیکھتی نہیں وہ اندھی ہے۔”اور یہ کلمہ حسین۱نے کربلا کے میدان کہا:ترکت الخلق فی ھواک و ایتمت عیالی لکی اراک”خدایا! تیری محبت میں‘ میں۱نے ساری مخلوق کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں۱نے بچوں کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں۱نے بھتیجوں کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں۱نے اصحاب کو چھوڑ دیا‘ خدایا میں۱نے اپنے بچوں کو یتیم کیا۔”یہ ہے حسین۱کی عبادت۔ علی۱کہہ رہے ہیں کہ میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھا نہ ہو۔حسین۱کہہ رہے ہیں:”اندھی ہو جائے وہ آنکھ جو خدا کو نہ دیکھے۔”حسین۱کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہوتی تھی۔ حسین۱کہہ رہے تھے ‘خدایا! میں نے سب چیزوں کو چھوڑا‘ تیری محبت میں بچوں کو یتیم کیا‘ کیوں نہ تیرا دیدار کروں؟ حسین۱جا رہے ہیں‘ کربلا کو۔منادی والا منادی کر رہا ہے کہ یہ لوگ موت کی طرف جا رہے ہیں لیکن موت ان کے آگے آگے جا رہی ہے۔روایت میں ہے کہ حسین۱کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی ہے۔ علی اکبر دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں‘ بابا۱آپ گریہ کر رہے ہیں:حسین۱فرماتے ہیں‘ بیٹا! منادی یہ ندا کر رہا ہے کہ یہ لوگ جا رہے ہیں‘ لیکن موت ان کے آگے جا رہی ہے۔کیا کہنا علی اکبر کا۔بابا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے‘ کیا ہم حق پر نہیں؟موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر…لوگو! میں مرنے کے لئے جا رہا ہوں‘ تمام صحابی جمع ہیں‘ تمام اقرباء جمع ہیں۔دو آدمی دوڑے دوڑے آ رہے ہیں۔ ایک آدمی نے کہا‘ لگتا ہے یہ بنی اسد کے آدمی ہیں۔ مولا۱نے ان سے پوچھا کوئی خبر ہے؟انہوں نے کہا‘ مولا۱خبر ہے‘ لیکن آپ۱کو تنہائی میں بتائیں گے۔مولا۱نے فرمایا‘ میں نے کوئی پردہ نہیں کیا‘ میں نے کوئی چیز چھپائی ہوئی نہیں‘ جو خبر دینی ہو دے دو۔ان لوگوں نے کہا:مولا۱ہم دیکھ کر آئے ہیں‘ مسلم بن عقیل قتل ہو چکے ہیں۔حضرت۱نے پوچھا‘ مسلم بن عقیل کو کس طرح قتل کیا گیا؟انہوں نے عرض کی کہ ہم نے دیکھا جب مسلم زخمی ہو گئے تو مسلم نے پانی مانگا۔ایک نے کہا‘ یہ انسان ہے اسے پانی دے دو۔پانی میں خون آ گیا۔دوبارہ۔تیسری مرتبہ‘ اب جو مسلم نے پانی کی طرف توجہ کی تو ان کے اگلے دونوں دانت پانی میں گر گئے۔مسلم نے کہا:یہ پانی میری قسمت میں نہیں۔میں عرض کروں گا:مسلم تو حسین۱کا سفیر ہے‘ حسین۱تین دن کا پیاسا کربلا میں شہید ہو گا تو کس طرح پانی پئے گا؟مسلم کے بدن کو چھت کے اوپر لے جایا گیا اور وہاں سے نیچے پھینک دیا گیا۔ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں رسی ہے جو مسلم کی گردن میں بندھی ہوئی ہے اور بازاروں‘ درباروں میں پھیرایا جا رہا ہے۔اس کے بعد امام حسین۱نے اپنے صحابہ ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:میں جان دینے جا رہا ہوں‘ حکومت لینے نہیں جا رہا‘ جس نے میرے ساتھ جانا ہے جائے۔حضرت۱اپنے گھر تشریف لائے‘ خاموشی طاری ہے‘ آتے ہی زمین پر بیٹھ گئے۔بہن نے دیکھا‘ کہنے لگی‘ عجیب بات ہے کیا ہوا؟فرمانے لگے:بہن زینب۱میری دونوں بچیوں کو بلاؤ‘ مسلم کی بچیوں کو بلاؤ۔ مسلم کی بچیاں جب آئیں‘ حسین۱نے ایک کو دائیں زانو پر بٹھایا اور دوسری کو بائیں زانو پر‘ دونوں کی پیشانی چوم رہے ہیں‘ بال چوم رہے ہیں‘ دونوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہے ہیں‘ جب ہاتھ پھیر رہے تھے تو دونوں بچیاں کہتی ہیں:مولا۱لگتا ہے‘ کہیں ہم یتیم تو نہیں ہو گئیں؟کہیں ہمارا باپ مارا تو نہیں گیا؟مولا۱نے کہا‘ یتیموں کے سر پر ایسا شفقت کا ہاتھ پھیرا جاتا ہے۔ میری بچیو! گھبراؤ نہیں‘ میں۱تمہارا باپ ہوں‘ اکبر تمہارا بھائی‘ اصغر تمہارا بھائی ہے‘ قاسم تمہارا بھائی ہے‘ روتے روتے عجیب حالت ہو گئی‘ روتے روتے کہنے لگے:زینب۱ان بچیوں کا خیال رکھنا‘ اب یہ بچیاں یتیم ہو گئی ہیں۔حسین۱کا قافلہ چل رہا ہے‘ حسین۱گھوڑے پر سوار تھے۔ ایک جگہ پہنچتے ہی حسین۱کے گھوڑے نے چلنے سے انکار کر دیا‘ دوسرا گھوڑا بدلا‘ اس نے بھی چلنے سے انکار کر دیا‘ تیسرا بدلا اس نے بھی انکار کیا۔یہ دو روایتیں ہیں:ایک میں سات گھوڑے بدلے‘ ایک میں ہے کہ چار گھوڑے بدلے‘ بہرحال جب آخری گھوڑے پر آپ کا مولا۱سوار ہوا‘ دیکھا کہ گھوڑا حرکت نہیں کر رہا۔فرمایا:یہ تو بتاؤ اس جگہ کا نام کیا ہے؟فرمایا:ھل لھا اسم آخد؟”کیا اس کا کوئی اور نام بھی ہے؟”بتایا گیا کہ اس کو شط فرات بھی کہتے ہیں۔حضرت۱نے فرمایا:کوئی اور نام؟عرض کیا گیا‘ مولا۱اسے نینوا بھی کہتے ہیں۔پھر مولا۱نے پوچھا:ھل لھا اسم آخد؟”کیا اور نام بھی ہے؟”بتایا گیا کہاسمھا کربلاجب کربلا کا نام آیا تو امام۱نے فرمایا:کہ یہ ہمارے اترنے کی جگہ ہے۔حضرت۱اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ ایسی ہوا آئی کہ…حضرت۱گھر گئے‘ ایسی حالت ہوئی کہ بہنیں اپنے بھائی کو نہ دیکھ سکیں…حسین۱ہوا کے بگولے میں گھر گئے‘ جب بگولا ہٹا دونوں بہنیں دوڑ کر آئیں اور بھائی کے گلے سے لپٹ گئیں۔ کلثوم۱نے کہا‘ بھیا! یہ کیسی ہوا تھی؟ یہ جگہ بڑی خطرناک ہے۔مولا۱نے کہا:یہ وہی جگہ ہے جہاں ہماری شہادت ہو گی‘ جہاں ہم پر پانی بند ہوگا‘ یہ وہی جگہ ہے جہاں اکبر و اصغر شہید کر دیئے جائیں گے‘ یہ وہی جگہ ہے جہاں مجھ غریب کو تیروں‘ تلواروں سے شہید…اتنی دیر میں حسین۱کے سینے پر سونے والی تین سالہ بچی حسین۱کے پاس آئی‘ کہنے لگی:بابا‘ میری خواہش ہے…آپ۱زمین پر بیٹھ گئے‘ بچی آپ۱کے زانو پر آ بیٹھی‘ جب بیٹھ چکی تو کہا:بابا! ذرا اپنا ہاتھ اٹھا کر میرے سر پر شفقت سے پھیریں۔حسین۱نے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا:بیٹی ایسا کیوں کیا؟بابا! میں نے منزل زبالہ یہ دیکھا تھا کہ مسلم کی بیٹیوں کے سروں پر آپ۱نے شفقت کا ہاتھ پھیرا تھا… بابا… مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں بھی یتیم ہو جاؤں گی۔حسین۱نے کہا:بیٹی در چھن جائیں گے تو صبر کرنا۔بیٹی طمانچے لگ جائیں تو صبر کرنا۔بیٹی چادر چھن جائے تو صبر کرنا۔————————————-
 

http://shiastudies.com/ur/2277/%d9%85%d8%ac%d9%84%d8%b3-%d8%af%d9%88%d9%85/

تبصرے
Loading...