سیرت امام حسین(ع)

سیرت امام حسین(ع)

 جس طرح حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۲ اور ۳ھ اسی اعتبار سے امام حسین(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۳ اور ۴ھ اگر ان کی ولادت ۲ھ میں ہوئی ہے تو ان کی ۳ میں ہے اور اگر ان کی ولادت ۳ میں ہے تو ان کی ۴ھ میں ولادت ہوئی ہے۔  اس طرح وفات رسول کے وقت ان کو چھٹا یا ساتواں برس تھا۔ اس دور اور اس کے بعد جناب امیر(ع) کے دور میں جو کچھ حسن مجتبیٰ (ع) کے بارے میں کہا جا چکا وہ حسین(ع) کی سیرت کے ساتھ بالکل متحد ہے اس لئے کہ ایک سال کے فرق سے کوئی فرق احساسات،  تاثرات اور ان کے مقتضیات میں نہیں ہوتا۔  جن واقعات سے جتنا وہ متاثر ہو سکتے تھے اتنا ہی یہ اثر لے سکتے تھے۔  وفات رسول کے بعد سے ۲۵ برس کا دور جو امیرالموٴمنین نے گوشہ نشینی میں گزارا وہ جس طرح ان کے لئے ایک دور ابتلاء تھا ان کے لئے بھی تھا۔  جو جو مناظر ان کے سامنے آ رہے تھے وہ ان کے سامنے بھی بلکہ امام حسن(ع) کو تو دنیا نے صرف بحیثیت صلح پسند اور حلیم کے پہچانا ہے۔  اس لئے وہ اس دور میں ان کے امتحان کی عظمت کو بآسانی شاید محسوس نہ کرے مگر حسین(ع) کو تو دنیا نے روز عاشور کی روشنی میں دیکھا ہے اور بڑا صاحب غیرت و حمیت، خوددار،  گرم مزاج اور اقدام پسند محسوس کیا ہے۔  اس روشنی میں ۲۵ برس کے دور خاموشی پر نظر ڈالئے۔  ظاہر ہے کہ ان کے شباب کی منزلیں وہی تھیں جو حضرت امام حسین(ع) کی تھیں۔  ۲۵ سال کی مدت کے اختتام پر وہ ۳۳ برس کے تھے تو یہ بتیس برس کے گویا۔  عمر کے لحاظ سے حسین(ع) اس وقت عباس(ع) تھے کربلا میں جو ابوالفضل العباس کے شباب کی منزل تھی وہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے اختتام پر حسین(ع) کے شباب کی منزل تھی۔  اس عمر تک وہ تمام واقعات سامنے آتے ہیں جو اس دور میں پیش آتے رہے۔  اور امام حسین خاموش رہے۔  مصائب و حوادث کے وہ تمام جھونکے آئے اور ان کے سکوت کے سمندر میں تموج پیدا نہ کر سکے۔ ان کے ۲۵ برس حضرت علی(ع) کی خاموشی کے ہمدم،  وہ حضرت رسول پر مظالم دیکھ رہے تھے جو ان کے مجازی حیثیت سے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور یہ حضرت علی(ع) پر مظالم دیکھ رہے تھے جو ان کے حقیقی حیثیت سے باپ تھے جس طرح وہاں کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ کسی ایک دفعہ بھی علی(ع) کو جوش آ گیا ہو اور رسول کو علی(ع) کے روکنے کی ضرورت پڑی ہو۔  اسی طرح کوئی روایت نہیں بتاتی کہ اس ۲۵ برس کی طویل مدت میں کبھی حسین(ع) کو جوش آ گیا ہو اور حضرت علی(ع) نے بیٹے کو روکنے کی ضرورت محسوس فرمائی ہو یا سمجھانے کی کہ یہ نہ کرو۔  اس سے ہمارے مقصد یا اصول کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے بعد وہ وقت آیا کہ جب حضرت علی(ع) نے میدان جہاد میں قدم رکھا۔  تو اب جہاں حسن(ع) تھے وہیں حسین(ع) بھی تھے۔  وہ باپ کے داہنی طرف تو یہ بائیں طرف۔  ہر معرکہ میں عملی حیثیت سے شریک ہیں۔  اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا گیا تو جہاں بڑے بھائی کے دستخط وہیں چھوٹے بھائی کے دستخط۔  جناب امیر کی شہادت کے بعد اسی طرح یہ حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ ہیں جہاد میں بھی اور صلح میں بھی۔  ابو حنیفہ دنیوری نے الاخبار الطوال میں لکھا ہے کہ صلح کے بعد دو شخص امام حسن(ع) کے پاس آئے۔  یہ جذباتی قسم کے دوست تھے صحیح معرفت نہ رکھتے تھے انہوں نے سلام کیا: اسلام علیک یامذلَ الموٴمنین “اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے آپ کو سلام ہو۔” یہ بخیالِ خود مومنین ہیں جن کا یہ اخلاق ہے اور یہ ان کا بلند اخلاق ہے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ جو سلام ہو اس کا بھی جواب دینا لازم سمجھتے ہیں۔  اور ملائمت کے ساتھ فرماتے ہیں۔ لست مذلّھم بل معذّھم میں نے مومنین کو ذلیل نہیں کیا بلکہ ان کی عزت رکھلی،  اس کے بعد مختصر طور پر انہیں صلح کے مصالح سمجھائے جس پر وہ خاموش سے ہو گئے اور اب وہ اٹھ کر امام حسین(ع) کے پاس آئے اور خود ہی یہ واقعہ پیش کیا کہ ہم سے امام حسن(ع) سے یہ گفتگو ہوئی ہے۔  آپ نے امام حسن(ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا: صدق ابو محمّد یعنی حضرت امام حسن(ع) نے بالکل سچ فرمایا۔  صورت حال یہی تھی اور اس کا تقاضا اسی طرح تھا۔ بعض سورما قسم کے آدمی آئے اور انہوں نے کہا:  آپ حسن مجتبیٰ (ع) کو چھوڑیئے،  وہ صلح کے اصول پر برقرار رہیں مگر آپ اٹھئے ہم آپ کے ساتھ ہیں اچانک حکومت شام پر ہلہ بول دیں۔  امام حسین(ع) نے فرمایا:  غلط بالکل غلط۔  ہم نے ایک معاہدہ کر لیا ہے اور اب ہم پر اس کا احترام لازم ہے۔  ہاں اسی وقت حضرت نے یہ کہہ دیا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس وقت تک بالکل چپ چاپ بیٹھا رہنا چاہئے جب تک یہ شخص یعنی معاویہ زندہ ہے۔  یہ آپ کا تدبر تھا۔  آپ جانتے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آخر میں اور شرائط کے ساتھ اس شرط کی خلاف ورزی ہو گی کہ انہیں اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرنا چاہئے۔  اس وقت ہمیں اٹھنے کا موقع ہو گا۔ اب کون کہہ سکتا ہے کہ حسن(ع) کی صلح کے بعد حسین(ع) کی جنگ کسی پالیسی کی تبدیلی،  ندامت و پشیمانی یا اختلاف رائے و مسلک کا نتیجہ تھی؟  ۲۰ سال پہلے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اس وقت تک خاموش رہنا چاہئے جب تک معاویہ زندہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ ۲۰ برس کی طویل راہ کے تمام سنگ میل نظر کے سامنے ہیں اور پورا لائحہ عمل پہلے سے بنا ہوا ہے مرتب ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ طویل سکوت بھی اسی معاہدہ کے تحت ضروری ہے اور اس وقت کے اقدام کا بھی اسی معاہدہ کے ماتحت حق ہو گا۔  کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک ہے کہ حسن مجتبیٰ (ع) کی صلح حسین(ع) بن علی(ع) جنگ کی ایک تمہید ہی تھی۔  اور کچھ نہیں۔ ۴۱ھ میں یہ صلح ہوئی اور ۶۰ھ میں معاویہ نے انتقال کیا اس بیس سال کی طولانی مدت میں کیا کیا ناسازگار حالات پیش آئے اور اعمال حکومت نے کیا کیا تکلیفیں پہنچائیں مگر ان تمام حالات کے باوجود جس طرح رسول کے ساتھ علی(ع) مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں جس طرح حضرت علی(ع) کے ساتھ حسن مجتبیٰ (ع) اور خود حسین(ع) ۲۵ برس کی گوشہ نشینی کے دور میں،  اسی طرح حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ امام حسین(ع) دس برس کے ان کے دور حیات میں جو صلح کے بعد تھا حالانکہ اس زمانہ کے حالات کو وہ کن عمیق قلبی تاثرات کے ساتھ دیکھتے تھے ان کا اندازہ خود ان کے اس فقرے سے ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کے جنارے پر مردان سے کہا تھا۔  جب مردان نے وفات حسن(ع) پر اظہار افسوس کیا تو امام حسین(ع) نے فرمایا کہ اب رنج و افسوس کر رہے ہو اور زندگی میں ان کو غم و غصہ کے گھونٹ تم پلاتے تھے جو کہ یاد ہیں مردان نے جواب دیا بے شک! وہ ایسے کے ساتھ تھا جو اس پہاڑ سے زیادہ متحمل اور پرسکون تھا۔ یہ تعریف اس وقت مروان امام حسن(ع) کی کر رہا تھا جو دنیا سے اٹھ چکے تھے مگر کیا اس تعریف میں خود حسین(ع) بھی حصہ نہ رکھتے تھے؟  کیا اس طویل مدت میں انہوں نے کوئی جنبش کی جو حسن مجتبیٰ کے سکون کے مسلک کے خلاف ہوتی؟ پھر امام حسن(ع) کے جنازے کے ساتھ جو ناگوار صورت پیش آئی وہ روضہٴ رسول پر دفن سے روکا جانا۔  وہ تیروں کا برسایا جانا۔  یہاں تک کچھ تیروں کا جسدِ امام حسن(ع) تک پہنچنا۔  یہ صبرآزما حالات اور ان سب کو امام حسین(ع) کا برداشت کرنا۔ کوئی شاید کہے کہ حسین(ع) کیا کرتے؟  بے بس تھے مگر کیا کربلا میں حسین(ع) کو دیکھنے کے بعد وہ یہ کہنے کا حق رکھتا ہے؟  کربلا میں تو سامنے کم از کم ۳۰ ہزار تھے اور جنازہ حسن(ع) پر سدراہ ہونے والی جماعت زیادہ سے زیادہ کئی سو ہو گی۔  حسین(ع) کے ساتھ عباس(ع) بھی موجود ہیں جو اس وقت ۲۲ برس کے مکمل جوان تھے جناب محمد حنیفہ بھی موجود تھے جن کی شجاعت کا تجربہ دنیا کو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے ساتھ جمل اور صفین میں ہو چکا تھا۔  مسلم بن عقیل بھی موجود تھے جنہیں بعد میں پورے کوفہ کے مقابلہ میں تن تنہا حسین(ع) نے بھیج دیا اور انہوں نے اکیلے وہ بے نظیر شجاعت دکھائی جو تاریخ میں یادگار ہے۔ علی(ع) اکبر بھی بنا برقول قوی اس وقت ۱۵ برس کے تھے جو کربلا کے قاسم سے زیادہ عمر رکھتے تھے اور تمام بنی ہاشم موجود تھے۔  پھر کچھ تو آلِ رسول کے وفادار غلام تھے اور دوسرے اعوان و انصار بھی موجود ہی تھے اس صورت حال میں حضرت امام حسین(ع) کے عمل کو بے بسی کا نتیجہ سمجھنا کہاں درست ہو سکتا ہے۔ مگر حسین(ع) خاموش رہتے ہیں اور ان سب کو خاموشی پر مجبور رکھتے ہیں امام حسن(ع) کا جنازہ واپس لے جاتے ہیں جنة البقیع میں دفن کر دیتے ہیں اور اس کے بعد دس برس حسنی صلح کے مسلک پر خاموشی کے ساتھ گزار دیتے ہیں اور اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بڑے بھائی کا دباؤ یا مروت اور احترم کا تقاضا نہ تھا بلکہ مفاد اسلامی کا لحاظ تھا جس کے وہ بھی محافظ تھے اور اب یہ اس کے محافظ ہیں۔ اور ادھر حکومت شام کی طرف سے اس تمام مدت میں ہر ہر شرط کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔  چن چن کے دوستانِ علی(ع) کو قتل کیا جا رہا تھا اور جلاوطن کیا جا رہا تھا۔  کیسے کیسے افراد؟  حجرؓ بن عدی اور ان کے ۱۶ ساتھی۔  یہ دمشق کے باہر مرج عذراء میں سولی چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر عقلانی لکھاتے ہیں کہ یہ حجرؓ بن عدی فضلائے صحابہ میں سے تھے۔  مسائل فقہیہ میں ان کے فتاوےٰ جمع کئے جائیں تو ایک جزو کا رسالہ ہو جائے۔  مگر علی(ع) کے دوست تھے اس لئے ان کی صحابیت بھی کام نہ آ سکی۔  کوفہ سے قید کرکے دمشق بلوائے گئے۔  حاکم شام نے اپنے دربار میں بلا کر ان سے پوچھ گچھ یا صفائی پیش کرنے کا موقع بھی دینا پسند نہ کیا۔  حکم ہو گیا کہ بیرون شہر ہی روک دیئے جائیں اور وہیں سولی دے دی جائے۔  ان کی شہادت کی خبر اتنی دردناک تھی کہ عبداللہ بن عمرؓ  نے اس کا ذکر سنا تو چیخیں مار کر رونے لگے۔  ام المومنینؓ عائشہ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہا۔  آخر معاویہ خدا کو کیا جواب دے گا،  کہ ایسے ایسے نیکوکار مسلمانوں کا خون کر رہا ہے۔ عمرو بن الحمق الخزاعیؓ وہ بزرگوار تھے جنہیں پیغمبر خدا نے غائبانہ طور پر اپنے سلام سے سرفراز کیا تھا ان کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر بلند کیا گیا۔  یہ سب سے پہلا سر تھا جو اسلا م میں نیزہ پر بلند ہوا۔ ان حوادث سے عبداللہ بن عمرؓ اور عائشہ بنتؓ ابی بکر ایسے لوگ اس قدر متاثر تھے تو حسین(ع) بن علی(ع) جن کے والد بزرگوار کی محبت کی پاداش ہی میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا جتنا بھی متاثر ہوتے کم تھا۔ پھر حضرت امام حسن(ع) کے دس سال تک سکوت اور عدم تعرض کی جو قیمت ان کو ملی یعنی زہر قاتل اور کلیجے کے بہتر ٹکڑے اور پھر ان کی وفات پر دمشق کے قصر سے اظہار مسرت میں اللہ اکبر کی بلند آواز…ان سب باتوں کے بعد حضرت امام حسین(ع) کی خاموشی۔  کیا کسی میں ہمت ہے جو اس وقت کے حسین(ع) پر جنگجوئی کا الزام عائد کر سکے؟ اب اس کے بعد وہ ہنگام آیا جسے امام حسین(ع) کی آنکھیں بیس برس پہلے دیکھ رہی تھیں یعنی حاکم شام نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی داغ بیل ڈال دی اور اس کے لئے عالم اسلام کا دورہ کیا۔ اب امام حسین(ع) کے لئے وہ شاہراہ سامنے آ گئی جو انکارِ بیعت سے شروع ہوئی اور آخر تک انکارِ بیعت ہی کی شکل میں قائم رہی۔ پھر اس انکارِ بیعت کو کیا کوئی وقتی،  جذباتی فیصلہ یا ہنگامی جوش کا نتیجہ سمجھایا جا سکتا ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ انکارِ بیعت تو ابھی تک کبھی قانونی جرم قرار بھی نہ پایا تھا۔  خلافت ثلٰثہ میں بہت سوں نے بیعت نہیں کی۔  حضرت علی(ع) کے دور میں عبداللہ بن عمرؓ نے بیعت نہیں کی اسامہ بن زیدؓ نے بیعت نہیں کی سعد بن ابی وقاص نے بیعت نہیں کی۔  حسان بن ثابت نے بیعت نہیں کی۔  مگر ان بیعت نہ کرنے والوں کو واجب القتل نہیں سمجھا گیا۔ امام حسین(ع) نے بیعت نہ کرکے اپنے کو حمایتِ باطل سے الگ کیا بس۔  اس کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا۔  مگر معاویہ کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو اس نے پہلا ہی حکم اپنے گورنر ولید کو یہ بھیجا کہ حسین(ع) سے بیعت لو اور بیعت نہ کریں تو ان کا سر قلم کرکے بھیج دو۔  یہ تشدد کا آغاز کدھر سے ہو رہا ہے؟  حاکم مدینہ کو اس حکم کی تعمیل کی ہمت نہ ہوئی تو اسے معزول کی اگیا۔  امام حسین(ع) کو اگر تشدد سے کام لینا ہوتا تو آپ ہلاکت معاویہ کی خبر ملتے ہی مدینہ کے تخت و تاج پر قبضہ کر لیتے جو اس وقت ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔  اس کے بعد کم از کم عالم اسلام تقسیم تو ہو ہی جاتا  مگر  آپ  ایسا نہیں کرتے بلکہ جا کر مکہ میں پناہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں کسی کی جان لینا نہیں ہے اپنی جان بچانا منظور ہے۔  یہ “ہم وجودی” کا عملی پیغام ہے۔ بظاہر اسباب اگر یہاں قیام کا ارادہ مستقل نہ ہوتا تو احرام حج کیوں باندھتے؟  احرام باندھنا خود نیت حج کی دلیل ہے اور نیت کے بعد بلاوجہ حج توڑنا جائز نہیں۔  حضرت امام حسین(ع) سے بڑھ کر مسائل شریعت سے کون واقف ہو گا اور یہ ان کا مخالف بھی خیال نہیں کر سکتا کہ وہ جان بوجھ کر حکم شریعت کی معاذ اللہ مخالفت کریں گے اور وہ بھی کب؟  جب کہ حج کو صرف ایک دن باقی ہے۔ وہ جن کاذوق حج یہ تھا کہ مدینہ سے آ  آ کر ۲۵ حج پا پیادہ کر چکے ہیں اب مکہ میں موجود ہوتے ہوئے حج کو عمرہ سے تبدیل فرما دیتے اور مکہ سے روانہ ہو جاتے ہیں۔  اس طرز عمل سے خود ظاہر ہے کہ اس کا سبب غیرمعمولی اور ہنگامی ہے۔  چنانچہ ہر ایک پوچھ رہا تھا اور بڑی وحشت اور پریشانی کے ساتھ! آئیں! آپ اس وقت مکہ چھوڑ رہے ہیں؟” یہ ہر سوال امام(ع) کے دل پر ایک نشتر تھا۔  ہر ایک سے کہاں تک بتلاتے۔  کسی کسی سے کہہ دیا کہ نہ نکلتا تو وہیں قتل کر دیا جاتا اور میری وجہ سے حرمت خانہ کعبہ ضائع ہو جاتی۔ مکہ میں آنا بھی خطرہ کو حتی الامکان ٹالنا تھا اور اب مکہ سے جانا بھی یہی ہے اب آپ کوفہ تشریف لئے جا رہے ہیں۔  جہاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی ہدایت دینی اور اصلاحِ اخلاقی کے لئے دعوت دی ہے مگر بیچ میں فوج حر آ کر سد راہ ہوتی ہے اب آپ پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اس پوری فوج کو جو پیاسی ہے سیراب کر دیتے ہیں۔  یہ فیاضی بھی جنگجویانہ انداز سے بالکل الگ ہے اس کے بعد وہ موقع آیا کہ نہر پر خیموں کے برپا کرنے کو روکا گیا اس وقت اصحاب کی تیوریوں پر بل تھے مگر امام(ع) نے فرمایا کہ مجھے جنگ میں ابتداء کرنا نہیں ہے۔  ریت ہی پر خیمے برپا کر دو۔  یہ نفس پر جبر اور حلم و تحمل وہ کر رہا ہے جسے بالآخر جان پر کھیل جانا اور اپنا پورا گھر قربان کر دینا ہے مگر وہ اس وقت ہو گا جب اس کا وقت آئے گا اور یہ اس وقت ہے جب اس کا وقت ہے۔ پھر عمر سعد کربلا میں پہنچتا ہے تو آپ خود اس کے پاس گفتگوئے صلح کے لئے ملاقات کا پیغام بھیجتے ہیں۔  ملاقات ہوتی ہے تو شرطیں ایسی پیش فرماتے ہیں کہ ابن سعد خود اپنے حاکم عبیداللہ بن زیاد کو لکھتا ہے کہ فتنہ و افتراق کی آگ فرو ہو گئی۔  اور امن و سکون میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔  حسین ملک چھوڑنے تک کے لئے تیار ہیں اس کے بعد خونریزی کی کوئی وجہ نہیں۔ اب یہ تو فریق مخالف ک اعمل ہے کہ اس نے ایسے صلح پسندانہ رویہ کی قدر نہ کی اور صلح کے لئے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر پیچھے ہٹا دیا لیکن اس شرط پر حکومت مخالف راضی ہو گئی ہوتی۔  پھر حضرت امام حسن اور امام حسین(ع) کی افتادِ طبع میں کسی اختلاف کا تصور کرنے والوں کے تصورات کی کیا بنیاد باقی رہ سکتی تھی اور صورت حال کے سمجھنے کے بعد اب بھی یہ تصورات تو غلط ثابت ہو ہی گئے مگر وہ ابن زیاد کی تنگ ظرفی فرعونیت اور یزید کے منشاء کی تکمیل تھی کہ اس نے حضرت امام حسین(ع) پر صلح و امن کے سب راستوں کو بند کر دیا۔ پھر بھی جب نویں تاریخ کی سہ پہر کو حملہ ہو گیا تو حضرت(ع) نے ایک رات کی مہلت لے لی۔  جسے جنگ کرنا ہی مطلوب تھا وہ التوائے جنگ کی درخواست کیوں کرتا،  مگر اس ایک رات کی مہلت کو حاصل کرکے بھی آپ نے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا اور دکھلا دیا کہ جنگ تو مجھ پر خواہ مخواہ عائد کی جا رہی ہے۔  میں جنگ کا اپنی طرف سے شوق نہیں رکھتا ہوں۔ پھر صبح عاشور کوئی وقیقہ موعظہ و نصیحت اور اتمام حجت کا اٹھا نہیں رکھا۔  خطبہ جو پڑھا وہ اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے کہ وہ ہنگام امن کی سواری ہے گھوڑے پر نہیں سوار ہوئے جو جنگ کے ہنگام کا مرکب ہوتا ہے۔ باوجودیکہ خطبہ کے جو جواب ملے وہ دل شکن تھے مگر اس کے بعد بھی آپ نے اس کا انتظار کیا کہ فوج دشمن کی طرف سے ابتداء ہو او جب پہلا تیر عمر سعد نے چلہ کمان میں جوڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہہ کے لگایا کہ “گواہ رہنا پہلا تیر فوج حسینی کی طرف میں رہا کر رہا ہوں۔”  اور اس کے بعد چار ہزار تیر کمانوں سے روانہ ہو گئے اور جماعت حسینی (ع) کی طرف آ گئے۔  اس وقت مجبور ہو کر امام(ع) نے اذن جہاد دیا۔  اور اس کے بعد بھی خود اس وقت تک جہاد کے لئے تلوار نیام سے نہیں نکالی جب تک آپ کی ذات میں انحصار نہیں ہو گیا۔  جب تک ایک بھی باقی رہا آپ نے شمشیرزنی نہیں کی۔  اور اس طرح پیغمبر کے کردار کی تفسیر کر دی جب کوئی نہ رہا اس وقت تلوار کھینچی اور یہ ایسا وقت تھا جب کسی دوسرے میں دم نہ ہوتا کہ وہ جنبش بھی کر سکتا۔  تین دن کی بھوک پیاس اور اس پر صبح سے سہ پہر تک کی تمازتِ آفتاب میں شہداء کے لاشوں پر جانا اور پھر خیمہ گاہ تک پلٹنا اور پھر بہتر کے داغ عزیزوں کے صدمے اور ان کی لاشوں کا اٹھانا۔ جوان بیٹے کا بصارت لے جانا اور بھائی کا کمر توڑ جانا۔  اور اپنے ہاتھوں پر ایک بے شیر کو دم توڑتے میں سنبھالنا اور نوک شمشیر سے ابھی ابھی اس کی قبر بنا کر اٹھنا…اب اس عالم میں جذباتِ نفس کا تقاضا تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی سے تلواروں کے سامنے اپنا سر بڑھا دے اور خنجر کے آگے گلا رکھ دے مگر حسین(ع) اسلامی تعلیم کے محافظ تھے ظلم کے سامنے سپردگی آئین شریعت کے خلاف ہے۔  حسین(ع) نے اب فریضہٴ دفاع کی انجام دہی اور دشمنانِ خدا کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھائی اور وہ جہاد کیا جس نے بھولی ہوئی دنیا کو حیدر صفدر کی شجاعت یاد دلا دی اور اس طرح دکھا دیا کہ ہمارے اعمال و افعال،  جذبات نفس اور طبیعت کے تقاضوں کے ماتحت نہیں بلکہ فرائض و واجبات کی تکمیل اور احکام ربانی کی انجام دہی کے ماتحت ہوتے ہیں۔  چاہے طبعی تقاضے اس کے کتنے ہی خلاف ہوں۔ یہی انسانیت کی وہ معراج ہے جس کی نشاندہی حضرت امام حسین(ع) کے اسلاف کرتے رہے او روہی آج حسین(ع) کے کردار میں انتہائی تابانی کے ساتھ نمایاں ہیں۔

http://shiastudies.com/ur/91/%d8%b3%db%8c%d8%b1%d8%aa-%d8%a7%d9%85%d8%a7%d9%85-%d8%ad%d8%b3%db%8c%d9%86%d8%b9/

تبصرے
Loading...