حجت ِ خدا

حجت ِ خدا

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ”رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃچھٹے پارے کی آیت ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ پیغمبرہم نے بھیجے ہیں مبشر اور منذر یعنی خوشخبری دینے والے اور عذاب سے ڈرانے والے تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے ، اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے۔اگر یہ نہ بھیجے جاتے تو لوگوں کے پاس حجت ہوتی۔ اب یہ بھیج دئیے گئے تو اب اللہ کے پاس حجت ہوگئی اور اس لئے ان ہستیوں کو حجت ِ خدا کہتے ہیں۔ حجت ِ خدا وہ ہے جو خالق کی طرف سے رہبری کیلئے مقرر ہو۔ پہلے اس کا نام نبی ہوا، وہ حجت ِخدا بنامِ نبی رہا۔ پھر اس کا نام رسول ہوا، حجت ِخدا بنامِ رسول رہا۔اس کے بعد حضرت ابراہیم سے اس کا نام ان کے ساتھ تبدیل ہوا یعنی نبی بھی تھا، رسول بھی تھا اور اب امام ہوا۔
یہیں یہ جزو کل میں نے عرض کیا تھا کہ نبی ہوئے ہیں۔ایسے جو کسی ایک قوم کیلئے نبی ہیں، رسول ہوئے ہیں ایسے جن کی رسالت محدودہے، کسی ایک دائرے میں، مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ہے، حالانکہ وہ اولوالعزم رسول ہیں مگر تحقیق یہ ہے کہ ان کی رسالت صرف بنی اسرائیل کے دائرے میں تھی۔ بنی اسرائیل کیلئے وہ رسول تھے۔ اس دائرے کے باہر ان کی رسالت نہیں تھی اور اسی لئے حضرت خضر اِن کے دائرئہ رسالت سے باہر تھے۔ ان کی رسالت صرف بنی اسرائیل کیلئے تھی۔ تو نبی جنات کیلئے ہوئے ہیں۔ رسول وہ کسی ایک قسم کیلئے، کسی ایک قبیلہ کیلئے ہوئے ہیں۔ امامت جہاں سے شروع ہوئی تو:”اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا”۔”میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بناتا ہوں”۔
اب انسان کسی بھی خطہٴ ارض پر ہوں، کسی بھی زمین پر ہوں بلکہ کسی بھی جہاں میں انسان بستے ہوں تو ان سب کیلئے امام ہو اور جب امامت آگے بڑھ کر خاتم المرسلین تک پہنچی تو اب “للنّاس” کے لفظ میں ارتقاء ہوا۔ وہاں تھا”للنّاس” اور انہیں کیا کہا:”رَحْمَۃ لِلْعَالَمِیْنَ ‘ ‘۔ یہ رحمت ہیں تمام عالمین کیلئے۔ اب یہ عالمین کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔اسے اس سے سمجھ لیجئے کہ اپنی ربوبیت کی حدودجب بتائے تو یہی کہا:”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْنَ”۔”حمد ہے اللہ کیلئے جو تمام عالمین کا رب ہے”۔اور ان کو کہا:”وَمَااَرْسَلْناکَ اِلَّارَحْمَۃ لِّلْعَالَمِیْنَ”۔
اس کا مطلب ہے جہاں تک خدا کی خدائی ، وہاں تک ان کی بحیثیت رسول رہبری۔ اب حضرت ابراہیم سے تو آغاز ہوا تھا۔ وہاں پر اس نقطے میں امامت ِ “للنّاس” تھی تو اُن کے براہِ راست جو نائب ہوئے، وہ نائب بھی “لِلنّاس” ہوئے،صرف انسانوں کیلئے ہوئے اور جب امامت بڑھ کر للعالمین کے دائرے تک پہنچ گئی تواب جو نائب ہوں گے، وہ سب عالمین کیلئے ہوں گے۔
اب میں نے کل عرض کیا ، بات یہاں تک پہنچی تھی کہ نبوت ختم ہوجانے والی شے ہے، اس لئے نبوت میں جانشین کوئی نہیں ہوگا۔ رسالت ختم ہوجانے والی چیز ہے، لہٰذا رسالت میں کوئی جانشین نہیں ہوگا۔اب معلوم نہیں کہ دنیا کس بات میں جانشین کی تلاش میں ہے۔ رسول کا جانشین ڈھونڈ رہی ہے، نبی کا جانشین ڈھونڈ رہی ہے ؟ تو جو جگہ ختم ہوگئی، کیا اس کا الیکشن ہوتا ہے؟
تو نبوت کی جانشینی کے کوئی معنی نہیں، رسالت کی جانشینی کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں! امامت ہے کہ جو برقرار ہے، لہٰذا امامت میں جو جانشین ہوگا، وہ امام کہلائے گا۔ اب تمام مسلمان متفق ہیں کہ ہمارے رسول آئے تو سب کے بعد۔ لیکن ہر نبی ، ہر رسول اپنے دور میں ان کی اطلاع دیتا رہا۔ آدم سے لے کر ہمارے رسول کے قبل تک ہر ایک ادھر کا رہنما آخری رسول کے آنے کی اطلاع دیتا رہا، خبر دیتا رہا اور خبر ہی نہیں دیتا رہا بلکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی اُمتوں سے عہدوپیمان لیتے رہے کہ اس آخری رسول کو مانو گے۔اس آخری رسول کو تم تسلیم کرو گے۔ تو یہ ہے کہ ہر نبی اُس آخری رسول کی خبر دیتا رہا۔ تو اب پیغمبر خدا کے بعد وحی کا دروازہ بند ہے۔ لہٰذا جو کچھ اس کے پیغام ہوں، وہ انہیں پہنچانا ہیں۔ لہٰذا اب ان کو اپنے بعد تک کا سب کا تعارف کروادینا چاہئے کہ میرے بعد کون لوگ ہوں گے۔
اب یہاں علم الغیب کی بحث نہیںآ سکتی، اس لئے کہ گزشتہ دور کے انبیاء علم الغیب اگر نہیں رکھتے تھے تو آخری رسول کی خبر کیوں دے رہے تھے؟ تو ان سے افضل جو ذات ہے، وہ اگر قیامت تک کے رہنماؤں کی اطلاع دے دے!
آدم واقف ہوسکتے ہیں محمد مصطفےٰ کے نام سے،نوح ان کے نام سے واقف ہوسکتے ہیں، عیسیٰ واقف ہوسکتے ہیں۔قرآن میں موجود ہے:
“اِنِّیْ مُبَشِّرابِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہ اَحْمَد”۔انہوں نے کہا بشارت دیتا ہوں ایک ایسے رسول کی جس کا نام احمد ہوگا۔
اسی قرآن میں احمد کے ساتھ غلط کا لفظ نہیں ہے کہ احمدی ہے۔تو عیسیٰ نام جانتے تھے ۔ تو جو فخر عیسیٰ ہو، جو حضرت ابراہیم کا فخر ہو، کوئی کہے کہ یہ تو آلِ ابراہیم میں سے ہیں تو ابراہیم کافخر کس طرح ہوسکتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ ابراہیم بھی تواولادِ آدم میں سے ہیں۔ اگر وہ ابراہیم ،آدم کی اولاد کا فخر ہوگئے تو یہ آلِ ابراہیم کا فخر ہوں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
تو جو اُن سے افضل و برتر ہے، وہ اگر بعد کے افراد کا نام بتا دے ، سب کا نام بہ نام تصریح کردے تو اس میں کسی کو، قرآن کے ماننے والے کو،ارے اپنے رسول کی رسالت کو ماننے والے کو،چونکہ ان کی خبر تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے دی تھی، اگر ان سب کو مان لیا تو اگر یہ اپنے بعد والے افراد کے نام بتادیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ میں کہتا ہوں کہ آدم سے لے کر ان کے پہلے تک کے جتنے تھے، وہ محمد ِ اوّل کا نام بتاتے رہے اور جو پہلا محمد آیا، وہ اپنے آخری ہمنام کی اطلاع دیتا ہوا آیا۔ اب یہ حدیث، بغیر نام کی گنتی والی تو بالکل متفق علیہ صحاحِ ستّہ میں بھی ہے اور غیر صحاحِ ستہ کتنی مستند کتابوں میں بھی ہے کہ پیغمبر خدا نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد بارہ سردار ہوں گے۔ کہیں بارہ سردار، کہیں بارہ جانشین۔ اثناء عشر خلیفہ، میرے بعد بارہ جانشین، یہ بھی الفاظ ہیں۔
ایک عیسائی نے صحاح و سنن کے تمام کی فہرست مرتب کی ہے یورپ میں۔ اس میں اثناء عشر کے لفظ کے تحت اُس نے ان تمام حدیثوں کے حوالے درج کر دئیے ہیں جس میں کہیں بارہ سردار، کہیں بارہ خلیفہ لکھا ہے۔یہ حدیث متفق علیہ کہ حضرت نے اطلاع دی۔اب اس کے بعد کہیں ہے:
“کُلُّھُمْ مِنْ قُرَیْش”۔”وہ سب قریش میں سے ہوں گے”۔اور میری نظر سے گزرا ہے کہ آپ نے فرمایا:
“کُلُّھُمْ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَہ”۔”وہ سب فاطمہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہوں گے”۔
بہرحال وہ بارہ جانشین تو سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور اب کوئی زیادہ مطالعہ کرے تو اسے بائبل میں بھی بارہ سردار ملیں گے اولادِ اسماعیل میں سے۔ قرآن کہہ رہا ہے ، قرآن نے بتایا ہے کہ بنی اسرائیل میں بارہ اسباط تھے اور ان کی بائبل بتا رہی ہے کہ اسماعیل کی اولاد میں بارہ سردار ہوں گے۔ اب اسماعیل کی اولاد وہ بنی اسرائیل سے الگ ہے۔ وہ تو ہمارے رسول سے شروع ہوئی ہے۔ اسماعیل کی اولادکے وہ افراد جن سے دنیا متعارف ہے، وہ تو ہمارے رسول سے شروع ہوتے ہیں۔ تو وہاں ہے بارہ سردار۔ بائبل میں بھی ہے بارہ سردار اس کی اولاد میں سے یعنی اسماعیل کی اولاد میں سے مقرر کروں گا۔
اب ہمارے رسول فرمارہے ہیں کہ بارہ سردار ہوں گے یا بارہ جانشین میرے ہوں گے۔جمہور نے جو فہرستیں مقرر کی ہیں یعنی مسلمانوں کی اکثریت، اسے ہم جمہور کہتے ہیں تو اس نے جو فہرستیں مرتب کیں تو ایک حد بندی کی راشدین کی، تو وہ چار سے آگے نہ بڑھے۔ راشد، غیر راشد کو ملالیا تو درجنوں ہوگئے۔ غرض اکثریت کو بارہ سرداروں کے خواب کی تعبیر نہ ملی۔ بارہ کسی طرح نہیں ہوتے یا چار ہی ہوتے ہیں اور یا بہت ہوجاتے ہیں۔بارہ تو ایک درجن ہوتا ہے۔ میں نے تو کہا کہ بہت درجن۔ تو اب یہ بارہ کہاں سے ملیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہی ہاتھ سے چلی گئی ہے تو وہ سلسلہ کہاں سے ملے؟
اب بحمدللہ ہم کو معلوم ہے یعنی دنیا کو ، اب میں کہتا ہوں کہ احسان ماننا چاہئے اس جماعت کا جو کوئی سے بارہ پیش کرسکے، رسول کی سچائی کے ثبوت کیلئے۔
بحمدللہ وہ افراد جنہیں ہم جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں بقدرِ امکان جتنا کہ ایمان لانے کیلئے ضروری ہے، ورنہ دنیا خدا کو کب پہچانتی ہے؟ پھر بھی خدا کو مانتی ہے۔ رسول کو اُن کے حقیقی مرتبے کے ساتھ کون پہچانتا ہے؟پھر بھی مانتا ہے تو اگر مکمل پہچاننا شرطِ ایمان ہو تو کوئی خدا پر ہی ایمان نہیں رکھتا، اس لئے کہ مکمل معرفت خدا کی کس کو ہے؟ہم اور آپ کیا ہیں؟ جس نے ہم کو ایمان کی بھیک دی ، وہ کہتا ہوا دنیا سے گیا:”مَاعَرَفْنَاکَ حق مَعْرِفَتِکَ”۔
“ہم نے تجھے جو معرفت کا حق ہے، نہیں پہچانا” ، تو حقِ معرفت الگ ہوتا ہے اور معرفت بقدرِ امکان الگ ہوتی ہے۔اس کو میں کبھی کبھی سیرت کے جلسوں میں ، مشترک سیرت کے جلسوں میں ، جو بین الاسلامی ہوں، کہا کرتا ہوں کہ پیغمبر خدا کو حقیقی مراتب کے ساتھ پہچاننا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر سوئی سمندر کے اندر ڈال دیں تو سمندر سوئی کے ناکے میں سمائے گا نہیں، لیکن بقدرِ ظرف تو یہ لے ہی لے گی۔ ویسے ہی دریائے معرفت ِمحمد وآلِ محمد میں اپنے ذہن کی کشتی کو ڈال دیجئے، پھر جتنا ظرف میں صلاحیت ہوگی، آجائے گا۔ تو اب وہ جملہ ،چونکہ وہ لفظ میری زبان سے نکل گئے تھے کہ جنہیں ہم جانتے اور پہچانتے ہیں، یہ” پہچانتے ہیں”بڑی تعلّی کا جملہ تھا، اس لئے مجھے اتنا کہنا پڑا، تو بقدرِ ظرف جتنا جانتے اور پہچانتے ہیں، تو ان میں سے حضور گیارہ افراد تو دنیا کی آنکھوں کے سامنے رہے اور بحمدللہ! ہماری ہی کتابوں میں اُن کے حالات نہیں ہیں بلکہ دنیا کی کتابوں میں ، علماء کی کتابوں میں ، ہر دور کے، ان کے حالات موجود ہیں اور ان کی بعض کتابیں تو مستقل اُن کے حالات میں لکھی گئی ہیں۔
یہ چیزیں دُہرائی جانا چاہئیں۔ اتحاد بین المسلمین کیلئے فائدہ مند ہیں کہ علمائے اہلِ سنت نے جو کتابیں آئمہ اہلِ بیت کے بارے میں لکھی ہیں، ان کے ناموں سے لکھنے والے کا عقیدہ نمایاں ہوتا ہے۔جو میرے قریب ہیں، انہی سے شروع کروں۔ یہاں ماشاء اللہ لکھنوٴ کے بہت حضرات ہوں گے۔ فرنگی محل سے کون واقف نہیں؟ وہ علماء کا مرکز رہا ہے تو ہمارے فرنگی محل کے قدیم عالم مولانا محمد مبین ، جن کی کتاب شرحِ سُلَّم منطق کے کورس میں بھی ایک وقت پڑھائی جاتی تھی، اب بھی مطالعہ تو ضرور کرتے ہیں جو ذوقِ مطالعہ رکھتے ہیں، شرح سُلَّم، مختصر طور پر تو ملا مبین ہی کہلاتی تھی، وہ ملا مبین ہوگئی۔ جیسے ملا حسن، ویسے ملا مبین۔ تو وہ ملا مبین فرنگی محلی، وہ فارسی زبان میں کتاب لکھتے ہیں جسے منشی نول کشور نے اپنے مجمع میں چھاپ دیا تھا یعنی مطبع بالکل غیر جانبدار ہے۔
وہ کتاب چھپی تھی، وہ اب بھی کتب خانوں میں محفوظ ہے۔ اس کا نام دیکھئے، انہی آئمہ کے حالات میں ہیں اور نام اس کا کیا ہے؟ “وسیلة النجات”۔ نجات کا وسیلہ۔ اب دنیا چیخے۔ یہ نام ہی خود شرک ہے مگر وہ اسے شرک سمجھتے تو یہ نام کیوں رکھتے”وسیلة النجات”، نجات کا وسیلہ۔ یہ حنفی عالم ہیں، ہمارے فرنگی محل کے علماء ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب لکھی، انہی حضرات کے حالات میں علامہ عبدالقادر شافعی یمن کے عالم، انہوں نے کتاب لکھی”ذخیرة المال فی مناقب الآل”۔ اس کا بھی نام مٰال، یعنی انجامِ کار کا ذخیرہ مطلب وہی ہوا جو وسیلة النجات کا مطلب تھا۔وہی اس کا مطلب ہوا کہ مٰال کیلئے انجام دینے کیلئے یہ ذخیرہ ہے۔
مزید سب کتابیں جو ہیں، وہ دنیا کیلئے ہیں، یہ آخرت کیلئے ہے۔جناب کمال الدین محمد ابن طلحہ شافعی کتاب لکھتے ہیں”مطالب السئول فی مناقب ِآلِ رسول”اور حافظ محب الدین طبری، حافظ، یہ قرآن کے یاد رکھنے والے کا نام نہیں جو زبانی یاد کریں۔یہ علم حدیث کی اصطلاح تھی کہ جو ایک لاکھ حدیثیں مع متن و سند یاد رکھتا تھا، اس کوحافظ کہتے تھے۔ تو یہ حافظ محب الدین علمائے اسلام میں ۱۴ سو برس میں علمائے اہلِ سنت میں آٹھ، دس ہیں صرف، جن کو حافظ کہاجاتا ہے۔ حافظ ابن حجر، حافظ جلال الدین سیوطی، بس چند آدمی ہیں جو حافظ کہے جاتے ہیں۔ تو وہ لکھتے ہیں ، جناب حافظ محب الدین طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، یعنی عقیدہ بھی ظاہر، آیہٴ مودت کی تفسیر بھی نام سے ظاہر، ذخائر العقبیٰ، عقبیٰ کیلئے ذخیرہ فی مناقب ِ ذوی القربیٰ۔
تو یہ تمام علماء ہر دور میں کتابیں لکھتے رہے تو ان کے حالات میں دیکھ لے جو کوئی، جہاں ضمنی آئے ہیں، وہ اور بے شمار۔یہ تو اتنی کتابیں وہ میں نے کہیں جو مستقل اسی میں لکھی گئیں، ورنہ علامہ ابن حجر مکی نے جو کتاب شیعوں کی رَد میں لکھی”صواعق محرقہ”، اس میں بھی ان حضرات کے حالات ، صواعق محرقہ میں بھی اور اسی طرح سے اور علماء، انہوں نے جو اپنی کتابوں کے درمیان درمیان لکھے ہیں، ابن خلکان نے دفایات الاعیان میں حالات لکھے ہیں ۔ تو جو عرض کررہا ہوں ، وہ یہ کہ جو کوئی کسی ایک کتاب میں ، خواہ ان کے حالات میں لکھی گئی ہو، خواہ ضمناً حالات آئے ہوں توہر امام کے حالات دیکھئے تو لکھنے والے متفق ہیں کہ ان کے دَور میں ان سے بڑھ کر کوئی عابد نہ تھا۔اپنے دَور میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں تھا۔ اپنے دَور میں ان سے زیادہ کوئی زاہد نہیں تھا۔ یعنی جتنی صفات ہوتی ہیں نبوت کی، وہ تمام صفات ہر دور میں ہر امام کے اندر موجود ہیں۔ جتنی صفات ہیں، کمالاتِ رسالت کی، ان میں سے ہر ایک میں کہہ رہے ہیں کہ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے عالم، اپنے زمانہ میں سب سے بڑے زاہد، اپنے زمانہ میں سب سے بڑے متقی، اپنے زمانے میں سب سے بڑے عابد۔ ان تمام صفات پر دنیا متفق ہے گیارہ اماموں تک۔ وہ تو آنکھوں کے سامنے رہے، حالانکہ میں فطرتِ انسانی کو گواہ کرتا ہوں کہ جتنے تاریخ کے عالم ہوں، اسے دیکھ لیجئے کہ ایک نسل میں پانچ درجے تک کمالات یکساں نہیں آتے۔
بیٹا نمایاں ہوا، پوتا اس سے کم ہوا۔ پھر پڑپوتا بڑھ گیا، پھر اس کے بعد کمی ہوگئی۔ یہ یکساں کمالات پانچ پشتوں تک نہیں آتے،
چہ جائیکہ آنکھوں کے سامنے گیارہ تک ۔ رسول کی سچائی ثابت ہوگئی کہ ہر دور کا وہ انسان جو ایک جماعت، جسے امام کہہ رہی ہے، وہ انہی صفات کا حامل ہے جو امام میں ہونا چاہئے۔ہر ایک ان صفات پر متفق، گیارہ تک آنکھوں کے سامنے۔
بس میں کہتا ہوں کہ گیارہ تک آنکھوں کے سامنے آگئے، اب صرف ایک فرد کیلئے اس سچے کی سچائی کو مشکوک کرو گے؟ مگر جتنی منطق اور فلسفے کی مباحث ہیں، وہ سب آخری فرد میں آجائیں گی۔ وہی حقیقت میں موضوع رکھنے والوں کی مراد ہے حجت ِ خدا سے۔
سب مباحث وہیں پر آجائیں گی، حالانکہ وہ تو سلسلہ کی آخری کڑی ہے۔ مجھے یہاں نام لے دینا چاہئے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس کی جو بات ہو،وہ اُس کا حوالہ دے کر بیان کی جائے کہ ایک عالم آئے تھے، نجف اشرف سے، ۲۵،۳۰ برس بلکہ زیادہ ہوئے ہوں گے، جب ڈاکٹر اقبال زندہ تھے، وہ شیخ اسد اللہ زنجانی لکھنوٴ میں راجہ صاحب محمودآباد کے مہمان ہوئے تھے، اس وقت تک آپ کا پاکستان نہیں بنا تھا، وہ وہیں تھے، قیصر باغ میں اُن کے مہمان ہوئے تھے اور وہ یہاں لاہور بھی آئے تھے۔ ان کے عصمت ِ انبیاء کے موضوع پر تبادلہٴ خیالات ہوئے اور وہ مطمئن ہوئے۔ چنانچہ اُن کی کتاب نجف اشرف میں چھپی ہے۔ اس میں اس گفتگو کا حال ہے جو ڈاکٹر اقبال سے ہوئی تھی۔ تو ان کا یہ جملہ ہے کہ یہ ایک مناظرے کا اصول ہے کہ اصل مسئلہ امامت پر تو بحث نہیں کرتے اور آجاتے ہیں بارہویں امام پر کہ
صاحب! سمجھا دیجئے ہم کو، یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ ہر چیز کا اصول یہ ہے کہ جو بنیادہو اُس کی، وہاں سے مانئے۔ خدا کو آپ نہیں مانتے اور رسول پر بحث کیجئے۔ اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ رسول ہی کا کوئی قائل نہیں ہے، ایمان پر بحث کیجئے، تو کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔
وہ پورا سلسلہ چھوڑ کر آپ آخری فرد پر بحث کررہے ہیں۔ تو یہ بحث بے اصول ہے۔ تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے مسکرا کر کہا:”شما یازدہ را قبول بکنید، دوازدھم از شما نمی خواہیم”۔
“آپ ان گیارہ ہی کو مان لیجئے، بارہویں کو معاف کردیں گے ہم، نہ مانئے”۔
تو حقیقت یہ ہے کہ یہ اصول جب مان لے گا کہ جس کی وجہ سے گیارہ امام ہیں، تو وہ لازماً کشاں کشاں مان لے گا اس بارہویں کو۔ مگر پورے سلسلے کو چھوڑ کر جب اس نقطے پر آکر گفتگو کریں گے تو بات اُلجھ جائے گی۔
تو حضور!گیارہ فرد آنکھوں کے سامنے رہے۔ اب اس فرد کے بارے میں گفتگو ہے،کیوں گفتگو ہے؟ اس لئے کہ غائب ہے، آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ میں کہتا ہوں کہ پورے قرآن کے حافظ نہ بنئے، سورئہ بقرہ کو ہی یاد کرلیجئے۔ ارے پوری سورئہ بقرہ بہت مشکل ہے۔ آپ اس کی ابتدائی آیت یاد کرلیجئے۔ کیا کہاجارہا ہے:”ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُوٴْمِنْوْنَ بِالْغَیْبِ”۔”یہ ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کیلئے جو غیب پر ایمان لائیں”۔
کون پرہیزگار؟ پرہیزگار وہ ہوتے ہیں جو غیب پر ایمان لائیں۔ معلوم ہوتا ہے ،کتنا ہی افعال و اعمال پرہیزگارانہ رکھئے، جب تک غیب پر ایمان نہیں ہوگا، قرآن بھی دامن چھڑا لے گا۔ کوئی منطقی اعتراض نہیں، کوئی عقلی اعتراض نہیں۔ بس یہ کہ آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، کیونکر مانیں؟میں کہتا ہوں کہ آپ نے اصولِ دین میں سے کونسی چیز آنکھوں سے دیکھ کر مانی ہے؟
یاد رکھئے! جب تک غیب پر ایمان نہ لائیے، دین کا کوئی ستون قائم نہیں ہوسکتا۔ دین کی بنیاد ہی قائم نہیں ہوسکتی۔ ایمان لائیے، سب سے پہلے اللہ کو مانا، میرے نزدیک تو آنکھ سے دیکھ لیتے تو اللہ ہی نہ ہوتا اور پھر کسی کو خود نہ دیکھا ہو،کسی نے تو دیکھا ہوگا۔ یہاں وہ ات ہے جس کو کسی اس کی طرف دعوت دینے والے نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے دیکھا ہے۔ کسی کو بیداری میں نہ دیکھاہو، خواب میں تو دیکھا ہو مگر اس کو میں کہتا ہوں کہ خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔
ایک عقلی اصول عرض کرتا ہوں کہ خواب میں بھی وہی چیز دیکھی جاسکتی ہے جو بیداری میں بھی دیکھی جاسکے۔ خوشبو خواب میں بھی سونگھی جائے گی، دیکھی نہیں جائے گی۔آواز خواب میں بھی سنی جائے گی، دیکھی نہیں جائے گی۔ نرمی سختی خواب میں بھی چھونے سے معلوم ہو گی، دیکھی نہیں جائے گی۔ نوعیت ِ حادثہ نہیں بدلتی، صرف عالمِ حادثہ بدل جاتاہے۔ سونگھنے کی چیز خواب میں بھی سونگھی ہی جاتی ہے اور سننے کی چیز خواب میں بھی سنی ہی جاتی ہے۔ اور جو نہ سننے کی چیز ہو، نہ دیکھنے کی چیز ہو، وہ خواب میں کیونکر دکھائی دے گا؟
میں کہتا ہوں کہ اگر دیکھا ہو تو کسی اور کو دیکھا ہوگا۔ مجھے معلوم ہیں ایسے دعویدار جنوں نے دیکھا ، کہا کہ ہم نے خواب میں دیکھا۔ خواب میں دیکھنے کے دعویدارمجھے معلوم ہیں۔ کتاب میں مَیں نے پڑھا ہے، وہی ہمارے اور وہ اب بھی ہمارے ملک کے رہے۔ ہمارے ملک میں جو نبی پیدا ہوئے، بٹوارے کے بعد بھی وہ ہماری قسمت میں گئے۔
تو جناب! وہ ہمارے ملکی نبی ، ان کی کتاب میں مَیں نے خود پڑھا ہے کہ میں نے اللہ سبحانہ کو خواب میں دیکھا، خواب میں جو دیکھا تو دوات و قلم و کاغذ بھیج دیا۔ بڑھا دیا۔ خیر اللہ سبحانہ کے سامنے دوات، قلم بڑھا دیا ۔ یہی بہت بڑی بات ہے مگر اپنے مطلب کی بات لکھوانا تھی، اس لئے بڑھادیا۔ اگر خطرہ ہوتا کہ ہمارے خلاف لکھیں گے تو کبھی نہ بڑھاتے۔ دوات و قلم آگے بڑھادیا کہ جو دعویٰ کرنا تھا،اس کا پروانہ لکھ دیجئے، نبوت کا پروانہ۔تحریک کرکے لکھوا رہے ہیں، یہ لکھ دیجئے۔ انہوں نے بلاتکلف قلم اٹھایا۔
اب بیچ بیچ میں تبصرے کے جو الفاظ ہوں گے، وہ میرے ہوں گے۔ مضمون ان کا ہے کہ بعض اوقات آپ نے دیکھا ہوگا کہ قلم میں روشنائی زیادہ آجاتی ہے تو کیا کرتے ہیں؟ جھٹکتے ہیں۔فاؤنٹین پین والے بھی بعض اوقات جھٹکتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ نب کو روشنائی میں ڈبویا تو ایسے بے اٹکل پن سے کہ روشنائی زیادہ آگئی۔ اس کے بعد جھٹکا تو ایسی بد تمیزی سے کہ چھینٹے پڑے۔ آنکھ کھل گئی۔ اب نتیجہ جو ہے ، وہ میرے الفاظ میں سنئے کہ پروانہ تو نہ تھا، دامن پر دھبے موجود تھے۔ اب وہ کرتہ موجود تھا جس پر نشان ہیں روشنائی کے اور ہر سال وہاں زیارت ہوتی تھی اس کی، اُس ملک میں، اب یہاں پھر ہونے لگی ہوگی جو اس کے پہلے مرکز تھا۔ تو ہر سال زیارت ہوتی تھی اسے دھبوں کی جو نہیں معلوم کس نے ڈالے ہیں؟
تو حضور! پھر وہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے کہا کہ خواب میں بھی عقلاً ناممکن ہے اسے دیکھنا تو ایسا غیب اور اسے مان رہے ہیں۔ جب تک نہ مانیں مسلمان ہی نہ ہوں گے۔ اس کے بعد لوگ کہیں گے کہ اصل بیچ میں سے چھوڑ دی۔ نہیں، جسے سب مانتے ہیں ،اس فہرست کو کہہ رہا ہوں کہ رسولِ خدا سے جب آگے بڑھے تو رسالت، تو رسالت کو آنکھ سے دیکھ کر مانا ہے۔ ارے ہم نے تو کسی کو نہیں دیکھا۔ جب دیکھا ، جس نے دیکھا، واقعی رسالت کو آنکھ سے دیکھ کر مانا۔ارے صاحب! سامنے تو چہرئہ مبارک ہے، سامنے تو گیسوئے مبارک ہیں، سامنے تو دندانِ مبارک ہیں۔ مشاہدات تو یہ ہیں مگر ایمان کیا اس گیسو پر لانا ہے؟ ایمان اس چہرے پر لانا ہے؟ایمان اس دندانِ مقدس پر لانا ہے؟ ایمان لانا ہے رسالت پر۔ رسالت کے معنی ہیں بھیجنا۔ جب بھیجنے والے کو نہیں دیکھا تو بھیجنا کہاں دیکھیں گے۔
تو رسالت وہ جو جزوِ ایمان ہے۔ وہ غیب کی چیز ہے ، جبرئیل امین کو آتے نہیں دیکھا، لوحِ محفوظ سے قرآن کو اُترتے نہیں دیکھا۔ وہ سب غیب کی باتیں ہیں۔ اس کے بعد آخر میں پہنچ جائیے۔ تین مشترک اصل ہیں کہ توحید کے بعد رسالت، رسالت کے بعد قیامت، قیامت کو آنکھ سے دیکھ کر مانا؟دیکھ لیتے تو قیامت ہو ہی نہ جاتی؟ تو قیامت کو بغیر دیکھے مانا اور قیامت کے ساتھ غیب کا کارخانہ مانا، صراط کو مانا، میزان کو مانا، نامہٴ اعمال کو مانا، جنت کو مانا، دوزخ کو مانا، ایک دنیا مانی غیب کی۔ ہر مسلمان نے مانی۔
اب میں کہتا ہوں کہ جس کے کہنے پر اتنے غیب مان لئے، ایک غیب کی خاطر اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہو؟ اب اس کے بعد اُن کے ارشادات اور قرآن کی آیات لے لیجئے۔ تو یہ حضور قرآن کیا کہہ رہا ہے؟”کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ”۔”صادقین کے ساتھ رہو”۔
مکمل صادق سوائے معصوم کے کوئی نہیں ہوسکتا۔تو کہا جارہا ہے کہ صادقین کے ساتھ رہو کہ ایک صادق کبھی ہوا تھا، اب تم ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُس کے اقوال پر عمل کیا کرو۔ تو میں کہتا ہوں کہ صادقین کی کیا ضرورت ہے، ایک صادق تو تھا ہی جسے مشرکین بھی صادق کہتے ہیں۔ تو یہ صادقین کی کیا ضرورت ہے؟ جب اسی رسول کی زبانی کہا گیا کہ صادقین کے ساتھ رہو تو معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ ایک سلسلہ ہے جو اسی معیار کے صادقین کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک وہ افراد باقی ہیں، جن سے کہا جارہا ہے، وہ پوری اُمت ِمسلمہ ہے ، جب تک مسلمان اُمت کاوجود ہے، تب تک صادقین کا بھی وجود رہے گا۔
اب اس پرابھی مزید تبصرہ کروں گا ۔ یہ قرآن نے کہا ، اس کا بھی تقاضا یہ کہ قیامت تک رہیں گے۔رسول نے فرمایا:”اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن”۔”میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں”۔اللہ کی کتاب ، دوسری میری عترت جو میرے اہلِ بیت ہیں۔متفق علیہ حدیث ہے:”مَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا”۔”جب تک ان دونوں سے تمسک رکھو گے”۔”لَنْ تَضِلُّوْابَعْدِیْ”۔”میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے”۔”وَاِنَّھُمَالَنْ یَّفْتَرِقَا”۔”اور یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے”۔
اب مسلمانوں سے سوال ہے کہ اس وقت قرآن ہے، کون کہے گا کہ نہیں ہے۔ قرآن ہے۔ میں کہوں گا جو قرآن کے ساتھ تھے، ان میں سے کوئی ہے؟اگر کہے نہیں ہے تو ہمارے آپ کے رسول نے کہا تھا کہ رہے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جدا نہیں ہوں گے۔ جدا ہوگئے۔ اور اب میں کوئی سخت جملہ کہنے کا عادی نہیں ہوں۔ بس میں یہ کہتا ہوں کہ یہ رسول وہ ہے جسے مشرک بھی صادق کہہ رہے تھے۔ اب مسلمان ہوکر آپ کو اختیار ہے کہ جو چاہے ، کہئے۔
الحمدللہ پورا بیان ہوگا۔ یہ تو اپنے ہاتھ کی بات ہے۔ یہی موضوع پانچ دن میں بیان ہوسکتا تھا، یہی ایک دن میں بیان ہوگیا۔ اب میں کہتا ہوں کہ قرآن نے بھی کہا کہ قیامت تک صادقین کا سلسلہ رہے گا۔ انہوں نے بھی کہا کہ کبھی جدا نہیں ہوں گے۔ اگر کہے کہ نہیں ہیں تو جدا ہوگئے، رسول کی سچائی ختم ہوگئی بلکہ قرآن کی صداقت ختم ہوگئی۔ اگر کہے کہ ہیں تو مَیں کہوں گا کہ آنکھ سے دکھائیے کہ کہاں ہیں؟ اگر آنکھ سے نہ دکھا سکے تو غائب مانتے۔
چونکہ ماشاء اللہ صاحب ِفہم ہیں،جو کچھ عرض کررہا ہوں، آپ کیلئے جملے کافی ہیں، مختصر یہ کہ غیب وہ نہیں ہے، جو ہو ہی نہ۔ غیب وہ نہیں ہے جو آنکھوں کے سامنے ہو۔ غیب ایک ثبوت اور ایک نفی سے مل کر بنتا ہے۔ عینی ہو اور آنکھوں کے سامنے نہ ہو۔ تو میں کہتا ہوں کہ ہونا تو سچے خدا اور رسول ، اُن کے کہنے سے ثابت اور سامنے نہ ہونا آنکھوں سے ثابت۔
اب غیب کا کون جزو محتاجِ ثبوت رہا؟بس اب دنیا یہ کہتی ہے کہ اب غیب، ہاں خیر! غیب کو تو مانتے ہیں، بغیر غیب کو مانے تو نہ تو خدا کو مان سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں بالکل ٹھیک ہیں مگر آدمی بشر اتنے دنوں تک زندہ رہے، یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ کسی کو ہم نے اتنے دن زندہ رہتے نہیں دیکھا۔ میں کہوں گا کہ دنیا میں بے شک کسی کو میں نے بھی زندہ رہنے نہیں دیکھامگر مجھے دنیا سے کیا کام؟ جس سلسلہ کے بارے میں میری گفتگو ہے، اس میں سے کسی ایک کو مرتے نہیں دیکھا۔ کوئی ایک تو اپنی موت سے دنیا سے گیا ہوتا۔میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی مرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ خارجی حربے اپنا کام کرتے تھے۔ یا زہر یا تلوار۔
اب میرے الفاظ صاحبانِ علم محفوظ رکھ سکتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تقاضائے بقا ہر ایک کی ذات میں تھا، یہ مانع خارجی تھا جو اس مقتضی کو اثر کرنے سے روکتا تھا۔ بس جسے اللہ کو باقی رکھنا ہے، اس کے سلسلہ میں کوئی کام اسے نہیں کرنا۔ فقط حربوں کی زد سے الگ رکھنا ہے۔
اب دنیا کہتی ہے کہ غائب ہونے سے بڑی مصیبت ہوگئی۔ مصیبت نہ ہوتی تو ہم کیوں روتے؟ ہم کیوں بار بار فریادیں کرتے، استغاثے کرتے، عریضے کیوں بھیجتے؟ کوئی ہمیں پسند ہے غَیبت؟ مگر کیا کریں جن کے باعث یہ غیبت ہوئی، وہ کہہ رہے ہیں کہ کیوں غَیبت ہوئی؟ میں کہتا ہوں کہ دنیا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر کیوں نہیں دیکھتی؟ گیارہ کے ساتھ کیا کیا ؟ جو کہتے ہو کہ بارہواں کیوں غائب ہوا؟ میں تو دیکھتا ہوں کہ جیسے خالق اور مخلوق میں جنگ ہوگئی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ صادقین کے ساتھ رہو، یعنی قیامت تک سچے رہیں گے۔ دنیا والوں نے کہا کہ رہنے دینا تو ہمارا کام ہے۔ ہم رہنے ہی نہیں دیں گے تو کیونکر رہیں گے؟
اب جو الفاظ کہتا ہوں، اُنہیں محفوظ رکھئے۔ جب تک خزانہٴ حکمت ِ باری میں صادقین کا ذخیرہ رہا، اُس نے حربوں کو کام کرنے دیا۔ اچھا یہ نہیں ، ابھی دوسرا ہمارے پاس ہے۔ چاہے کسی عمر کا ہو، اس سے مطلب نہیں کیونکہ صادقین میں عمر کو کوئی قید نہیں۔یہ مباہلے ہی میں رسول نے دکھا دیا۔
اسے تم نے نہیں رہنے دیا؟ کوئی بات نہیں۔ ابھی ہے ہمارے پاس۔ اچھا! اسے بھی نہیں رہنے دیا؟ اچھا نہ سہی۔اور ہے۔ مگر اب جب مقصد ِا لٰہی کا ایک فرد میں انحصار ہوگیا، اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا اور مخلوق کی جنگ۔ اس کا آخری نتیجہ فتح و شکست کا ایک فرد کی بقا و فنا میں ہوگیا کہ اگر یہ رہتا ہے تو خدا کی بات پوری اور اگر یہ بھی ختم ہوجاتا ہے تو دنیا کامیاب اور اللہ ناکام(نعوذُ باللہ)۔
اب دنیا یہ بتائے کہ کیا قادرِ مطلق عاجز بندوں کے مقابلہ میں اپنی شکست مان لیتا؟ اب دنیا کو ختم کرنا ہوگا تو بھیج دے گا ، یہ طے کر کے کہ یہ نہیں تو اب کچھ نہیں۔میں کہتا ہوں کہ دنیا نے کربلا میں کوئی کمی اُٹھا رکھی تھی اس سلسلہ کو ختم کرنے کی؟ وہ تو خالق نے اپنے مقصد کے تحفظ کیلئے وہاں بھی غیبت سے کام لیا۔ ذرا باریک بات ہے مگر ماشاء اللہ آپ توجہ سے سن رہے ہیں۔وہاں بھی غیبت سے کام لیا۔ غیبت کے معنی تو یہ ہیں کہ ہم انہیں دیکھ نہیں رہے۔ اُس نے غیبت یوں طاری کی کہ دن بھر انہیں غش میں رکھا کیونکہ اگر غش میں نہ ہوں تو باپ کی نصرت واجب ہوجائے۔اگر نصرت نہ کریں تو کردارِ امامت کے خلاف ہو۔ پھر علی اکبر سے ان کی منزل پیچھے رہ جائے۔ امام کیسا جو اپنا فرض نہ ادا کرے۔ ورنہ میرا ایمان ہے کہ ان حضرات کو غش بیہوش نہیں کرسکتا، مرض بیہوش نہیں کرسکتا۔ یہ مشیّت ِربانی ہے، مصلحت ِکردگار ہے کہ دن بھر بیہوش رہے اور اس کا ثبوت مَیں بر بنائے واقعات عرض کروں گا کہ دن بھر بیہوش رہے۔ جب تک فریضہ جہاد ادا ہورہا تھا، تب تک بیہوش رہے۔

http://shiastudies.com/ur/55/%d8%ad%d8%ac%d8%aa-%d9%90-%d8%ae%d8%af%d8%a7/

تبصرے
Loading...