انسانی رفعت

انسانی رفعت

 اگر  انسان اپنے درجہ و مقام کو سمجھ لے تو اپنے مقصدِ ہستی اور مصرفِ زندگی کی بلندی کا احساس ہو اور یہی اس کی بلندکرداری کی ضمانت ہو گی۔  پھر اسی ایک چیز کے سمجھ لینے سے اس کی حقیقی ترقی اور تنزل کا سمجھنا بھی آسان ہو جائے گا اس لئے کہ ہر شے کی ترقی اس خصوصیت امتیازی کے ارتقاء کے ساتھ ہے جو اس شے کا جوہر خصوصی ہے۔ انسان اگر تمام دوسری کائنات سے الگ کوئی شے ہوتا تو اس کا سمجھنا آسان ہوتا مگر یہ تو باقی کائنات کے ساتھ بہت سی مشترک حیثیتوں میں متحد ہے یہ جسم رکھتا ہے اس اعتبار سے پتھروں کے ساتھ حصہ دار ہے۔  نشوونما رکھتا ہے اس لحاظ سے درختوں کے ساتھ ہم مرتبہ ہے۔  احساس و حرکت ارادی رکھتا ہے اس حیثیت سے حیوانوں میں شامل ہے اور پھر کوئی خاص جوہر رکھتا ہے جس کی بدولت یہ انسان ہے اور ان سب سے ممتاز ہے۔ انسان کو اگر ان پہلوؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے جو دوسروں کے ساتھ مشترک ہیں تو اسے اشرف المخلوقات سمجھنا ہی غلط معلوم ہو گا اس لئے کہ ان تمام چیزوں میں وہ دوسروں سے کم نظر آئے گا۔  بلند محسوس بھی نہ ہو گا۔  جسمیت میں وہ پہاڑوں کے برابر نہیں ہے۔  نشوونما میں درختوں کے مثل نہیں۔  قوت سامعہ،  باصرہ یا شامہ اکثر حیوانات کی انسان سے بہت زیادہ طاقتور ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا برتر ہونا ان مشترک جہات کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بلندی اس مخصوص جوہر کے لحاظ سے ہے جو اس میں ہے اور کسی دوسرے میں نہیں ہے وہ کیا چیز  ہوسکتی ہے؟ علم اور عمل۔انسانی علم و عمل کی خصوصیت: علم کے معنی اگر بس جاننے کے ہیں اور یہی اس دور میں معیار علم سمجھا جاتا ہے دنیا کے ممالک کی وسعتیں اور مردم شماریاں جان لیں۔  پہاڑوں کی اونچائیاں اور دریاؤں کی گہرائیاں جان لیں۔  سیاروں کے فاصلے زمین سے اور ان کی پیمائش معلوم کر لیں نباتات کے خواص او رپتھروں کی کیفیات معلوم کر لیں۔ اگر یہی علم بمعنی “دانستن” انسان کا خاص جوہر ہے تو کون کہتا ہے کہ حیوان علم سے بے بہرہ ہے۔  حیوان بھی بہت کچھ جانتا ہے اپنے رہنے کی جگہ کو جانتا ہے اپنے کھانے کی غذا کو جانتا ہے۔  اپنے غذا دینے والے کو پہچانتا ہے۔  اپنے حفظان صحت کے اصول جانتا ہے۔  اسی لئے جنگل میں کوئی جانور بیمار نہیں پڑتا۔  بے شک انسانوں کے غیرطبعی ماحول میں آ کر وہ بیمار پڑنے لگتا ہے۔  اسی طرح اگر عمل کے معنی بس کچھ نہ کچھ کام کرنے کے ہیں تو حیوان بھی عمل سے خالی نہیں ہے۔  وہ بقدر امکان اپنی غذا کے حصول کے ذرائع مہیا کرتا ہے جو ا س کے مقصد میں سدراہ ہو اسے دفع کرتا ہے اور اپنے حریف سے بقدر امکان مقابلہ کرتا ہے۔ پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ہے کیا ہے۔؟ ہم جہاں تک سمجھ سکے ہیں علم کے شعبہ میں انسان کا امتیاز خصوصی دو باتوں سے ہے۔  ایک یہ کہ حیوان کا علم محسوسات کے دائرہ میں اسیر ہے پہلے جو میں نے کہا کہ وہ اپنے غذا دینے والے کو پہچانتا ہے یہ پورے طور پر درست نہیں ہے حقیقت میں وہ پہچانتا ہے جس کے ہاتھ میں غذا پاتا ہے جو اصل غذا کا دینے والا ہے اگر اس کے سامنے نہیں آتا اور انپے ہاتھ سے غذا نہیں دیتا تو وہ اسے نہیں پہچانے گا۔  اب اگر انسان کا علم بھی ایسا ہو کہ جس رئیس سے ملا اسی کو ولی نعمت جان لیا۔  جس نے تنخواہ دی اسی کو خدا سمجھ لیا تو پھر حیوان اور انسان میں کوئی فرق نہیں۔ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالم احساس و مشاہدہ کے ماوراء اپنی عقل کی مدد سے کچھ حقیقتوں کا پتہ لگاتا اور ان کا تیقن کرتا ہے اور وہی ایمان بالغیب کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حیوانی علم محدود ہے یعنی جتنا اسے واہب العطا یا کی طرف سے مل گیا بس اتنا ہی ہے۔  شہد کی مکھی بس مسدس خانے بنانا جانتی ہے اور وہ بہترین بناتی ہے کوئی مہندس بغیر پرکار کی مدد کے اتنے متوازن خانے نہیں بناتا لیکن جو شکل اس کی فطرت میں داخل ہے بس وہی بنا سکتی ہے۔  مربع و مثلث وغیرہ نہیں بنا سکتی اسی طرح تارِ عنکبوت بے نظیر صنعت ہے مگر اس کی شکل بدلنا اس کے امکان میں نہیں ہے لیکن انسانی علم؟  اس کا کام ہے معلومات سے مجہولات کا پتہ لگانا۔  یہ اپنے علم میں برابر ترقی کرتا رہتا ہے۔ (اس کا بیان رسائل “اسلام کی حکیمانہ زندگی” اور “زندگی کا حکیمانہ تصور” میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے) عمل کی منزل میں انسان کی خاص صفت یہ ہے کہ حیوان کے افعال بتقاضائے طبیعت ہوتے ہیں۔  اس سے بحث نہیں کہ بامحل ہیں یا بے محل۔  مگر  انسان  میں  سوجھ بوجھ۔  حق اور ناحق  کا  امتیاز اور صحیح و غلط  میں  امتیاز  کی  قوت  ہے  اور اسی  اعتبار  سے مختلف افراد کی انسانیت کے مدارج قائم ہوتے ہیں۔ اکثر افراد ایسے ہیں جن کی صورت انسان کی ہے مگر کردار حیوانی ہے وہ یہ ہیں۔  جن کے افعال طبیعت کے تقاضے سے ہوتے ہیں۔  ایک شخص کی طبیعت میں غیرمعمولی غصہ ہے وہ بارود کا خزانہ ہے ذرا سی بات پر مشتعل ہو جاتا ہے۔  اس سے اس جوش غضب کے ماتحت کبھی ایسے افعال بھی ممکن ہے وقوع میں آ جائیں جو نتائج کے اعتبار سے ممدوح و مستحسن ہوں جیسے مظلوم کی حمایت میں اسے غصہ آ جائے اور یہ بڑھ کر ظالم کو دفعہ کر دے مگر چونکہ اس کا غیض و غضب بتقاضائے طبیعت ہے اس لئے دوسرے وقت اس شخص سے خود کسی بے گناہ پر ظلم ہو گا اور یہ اپنے غصہ کی وجہ سے ایسے اقدامات کر ڈالے گا جو عقلاً و شرعاً کسی صورت سے بھی ممدوح و مستحسن نہیں ہو سکتے۔  اسی طرح ایک آدمی ہے گیلی مٹی کا بنا ہوا جسے کبھی غصہ ہی نہیں آتا۔  یہ بعض اوقات ایسے محل پر سکوت کرے گا جہاں کوئی اقدام بڑے فتنہ و فساد اوربرے نتائج کا باعث ہو اس وقت سب اس کی تعریف کریں گے کہ کیا کہنا۔  اس نے اپنے حلم وتحمل سے کتنے بڑے فساد کو روک لیا۔  لیکن چونکہ یہ سکوت و سکون کسی احساس فرض کا نتیجہ نہیں  بلکہ  طبیعت  کا تقاضا  ہے۔  اس  لئے  یہی  شخص  ایسے مواقع پر بھی سکوت کر جائے گا جہاں خاموشی ظلم و تشدد کی ہمت افزائی کا سبب ہے یہ انسانی کردار نہیں ہے۔

http://shiastudies.com/ur/60/%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b1%d9%81%d8%b9%d8%aa/

تبصرے
Loading...