رسول خدا کی زندگی پر ایک نظر

رسول خدا کی زندگی پر ایک نظر۔۔

✒️ *علی احمد بہشتی

 

ولادت باسعادت رسول اللہ

اکثر محدثین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے چالیس سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مورخین نے آپ کا روز ولادت ۱۲ ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔

رسولِ خدا نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی زیر سرپرستی ہوئی۔

*اخلاق رسولؐ خدا۔۔*

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی ،باری تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔(وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ)۔(1)

اور آپ یقینا عظیم اخلاقی خوبیوں کے تخت پر ہیں۔

ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہے۔

(إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ )۔(2)

مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں،۔

رسول اللہؐ کے طرز سلوک اور صفات کے بیان میں منقول ہے کہ آپ اکثراً خاموش رہتے تھے اور ضرورت سے زیادہ نہيں بولتے تھے۔ کبھی بھی پورا منہ نہيں کھولتے تھے، زیادہ تر تبسم فرماتے تھے اور کبھی بھی اونچی آواز میں (قہقہہ لگا کر) نہيں ہنستے تھے، جب کسی کی طرف رخ کرنا چاہتے تو اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف پلٹتے تھے۔ صفائی، نظافت اور خوشبو کو بہت زيادہ پسند کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ کہیں سے گذرتے تو فضا میں خوشبو پھیل جاتی تھی۔ اور راہگیر خوشبو محسوس کرکے سمجھتے تھے کہ آپ یہاں سے گزررہے ہیں۔آپ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور زمین پر ہی بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے، کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے اور بہت سے مواقع پر خاص طور پر جب آپ ابتدا میں مدینہ تشریف فرما ہوئے تھے اکثر بھوکے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کے باوجود راہبوں کی طرح زندگی نہيں گذارتے تھے اور خود بھی فرماتے تھے کہ “میں نے اپنی حد تک دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور عبادت بھی کی ہے”۔ مسلمانوں حتاکہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ بھی آپ کا طرز سلوک شفقت، کرامت و درگذر اور مہربانی پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کی سیرت اور روشِ حیات مسلمانوں کو اس قدر پسند تھی کہ وہ آپ کی حیات کریمہ کے نہایت چھوٹے چھوٹے واقعات کو سینہ بہ سینہ منتقل کیا کرتے تھے اور آج تک مسلمان ان نکات کو اپنے دین اور زندگی کے لئے مشعل راہ کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔

*مقام علمیت رسولؐ خدا*

 

خدا نے پیغمبر خدا (ص) کو دنیا میں پہلا استاد بناکر بھیجا۔ کیونکہ وہ کسی بھی دوسرے انسان سے سب کچھ بہتر جانتا تھا۔جب قرآن مجید نازل ہوئی تو رسول خدا کو کون سی آیات کس لیے ، کہاں نازل ہوئی،اور ان آیات کی شان نزول سبب نزول کے بارے ميں سب کچھ جانتے تھے۔حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کے لوگوں کے لیے قرآن کی دینی تعلیمات کے اظہار کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ مسلمانوں نے حضرت محمد سے کوئی بھی سوال پوچھا، چاہئے وہ قرآن کے بارے میں ہو یا دیگر سوالات،تو رسول خدا کبھی بھی جواب دینے میں ناکام نہیں ہوئے۔رسول خدا سے جب کوئی کسی بھی قسم کے سوال کرتے تھے تو رسول خدا انھیں فوراً جواب دیتے تھے۔رسول خدا فرماتے ہیں(انا مدینةالعلم و علي بابها)میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے اگر کوئی اس شہر میں داخل ہو چاہتے ہوں تو دروازے سے داخل ہو. (3)

*رسول خدا کی عبادی زندگی۔*

امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔

جناب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

(وَ لَقَدْ كَانَ يُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَاءَ فَأَرَاهُ، وَ لَايَرَاهُ غَيْرِي)

”رسول خدا ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔“

پیغمبر اکرم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔

اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کے والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔(4)

*رسول خدا کی عملی زندگی ۔۔*

 

روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تواضع اور انکساری کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اپنا وزن اپنے بائیں پہلو پر ڈالتے تھے اور کھانا کھاتے وقت کسی چیز سے ٹیک نہیں لگاتے تھے، اللہ کے نام سے شروع کرتے اور لقموں کے درمیان بھی اللہ کو یاد کرتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کا انتخاب نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے تو جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرلے آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پیچھے نہیں کھینچتے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لباس خود سیتے تھے، اپنے کپڑوں کو خود ٹانکتے تھے، اپنی گوسفند کو خود دوتے تھے غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ اور بازار جانے سے شرم نہیں کرتے تھے خود گھر میں ضرورت بھر کی چیزوں کو خرید کر لاتے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے ۔آپ کا چہرہ خشاش بشاش ہوتا تھا اور آپ کا رنج و غم غصہ کے ساتھ آمیختہ نہیں تھا۔ تواضع و انکساری میں ذلت و رسوائی نہیں تھی، آپ بخشش کرنے والے اور مہربان دل انسان تھے، سب مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرتے تھے۔ کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کر نہیں اٹھتے تھے اور کسی چیز کی طرف طمع کا ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔

*رسول(ص) خدا کی فکری زندگی ۔۔*

حضور سرورکائنات(ص) ہمیشہ فکر میں ڈوبے رہتے تھے اور کبھی آپکو بے فکر نہیں دیکھا گیا۔آپکی صفات میں ملتا ہے کہ آپکو کبھی آسانی و راحت میسر نہ تھی اس لئے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچا کرتے ،خاموش رہتے اور فکرمیں مشغول رہتے تھے اس طرح کہ لوگ آپ کو دائم الفکر شخصیت کے حیثیت سے پہچانتے تھے۔آپکی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈال کر ہر انسان یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ آپ کس قدر فکر و تعقل کے ساتھ اپنے امور کو انجام دیتے تھے، یہ آپکی فکر رسا اور آپکے دور اندیشانہ طرز تبلیغ کے سبب ہی ممکن ہو سکا کہ وہ لوگ جو جہالت کی آگ میں جھلس رہے ہوں ،اپنے اوپر فخر کرنے کو باعث عزت سمجھتے ہوں، قتل و غارت گری پر افتخار کرتے ہوں ، وہ لوگ جنکے پاس خرافات کے سوا کچھ نہ تھا نہ سوچ تھی نہ فکر، ایسے لوگوں نے

آ پ کی فکر کو بھی تسلیم کیا آپ کی باتوں کو بھی مانا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فکر ہی کا کمال تھا کہ کل کے جاہل دنیا میں عدالت و انصاف کے پرچم دار قرار پائے۔آپ نے اپنے دین کو پہنچانے سے پہلے بھی لوگوں کو فکر و تعقل کی دعوت دی اور اس کے بعد بھی دینداری کے معیار کو فکر و تعقل قرار دیا۔(6)

*رسول اکرم کی سیاسی زندگی۔۔*

جب رسول خداکو مبعوث کیا گیا تو اس وقت دنیا تاریکی، جہالت، ابتری و ذلت کے انتہائی پر آشوب دور سے گز رہی تھی۔ یونانی فلسفہ اپنی نا پائیدار اقدار کا ماتم کر رہا تھا، رومی سلطنت روبہ زوال تھی، ایران اور چین اپنی اپنی ثقافت و تہذیب کو خانہ جنگی کے ہاتھوں رسوا ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ہندوستان میں آریہ قبائل اور گوتم بدھ کی تحریک آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ ترکستان اور حبشہ میں بھی ساری دنیا کی طرح اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا اور عرب کی حالت زار تو اس سے بھی دگرگوں تھی ۔سیاسی تہذیب و تمدن کا تو شعور ہی نہ تھا عرب وحدت مرکزیت سے آشنا نہیں تھے، وہاں ہمیشہ لاقانونیت ،باہمی جنگ و جدل کا دور دورہ رہا۔ اتحاد ،تنظیم ،قومیت کا شعور حکم و اطاعت وغیرہ جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی راہیں استوار ہوتی ہیں ان کے ہاں کہیں بھی نہ پائی جاتی تھیں۔ قبائل بھی اپنے اندرونی خلفشار کے ہاتھوں تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے۔ سیاسی وحدت یا بیرونی تہذیبوں سے آشنائی و رابطہ دور کی بات تھی۔۔ نبی پاک ؐ کی الہامی تعلیمات سے عرب ایک رشتہ وحدت میں پرو دئیے گئے اور وہ قوم جو باہمی جنگ و جدل ،ظلم و زیادتی کے علاوہ کسی تہذیب سے آشنا نہ تھی جہاں بانی کے مرتبے پر فائز کر دی گئی یہ سب اس بناء پر تھا کہ اسلام نے دنیاوی بادشاہت کے برعکس حاکمیت اقتدار اعلیٰ کا ایک نیا تصور پیش کیا۔حضور اکرم کی سیاسی نظام کے پیروی کے بعد دنیا کے سیاسی نظام میں،پرانے وقتوں سے آسمان و زمین کا فرق آیا ہیں۔7

————————————

 

*حوالہ جات۔*

 

1۔سورہ قلم آیة. 4

 

2۔مکارم الاخلاق۔ ص۔8

 

3۔تاریخ پیغمبر ۔ص۔42

 

4۔تاریخ تحلیلی صدراسلام۔ص۔56

 

5۔بحار الانور جلد 15 ۔ص۔117

 

6-7۔تاریخ چہاردہ معصومین۔ص.46-48

تبصرے
Loading...