اربعین پیدل مارچ

معلومات

  • مکان: عراق کے تمام شہروں سے کربلا کی طرف؛ اہم ترین نجف سے کربلا

  • جغرافیائی حدود: عراق اور اس کے ہمسایہ ممالک

  • ادعیہ: زیارت اربعین

  • اشعار: مرثیہ خوانی‌ اور نوحہ خوانی

  • اہم مذہبی تہواریں

    سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،

 

اربعین پیدل سفر کا ایک منظر

اربعین کیلئے نجف سے کربلا کی طرف پیدل چلنے کا راستہ

اربعین کیلئے عراق کے مختلف شہروں سے کربلا کی طرف پیدل جانے کے راستے

 

اربعین پیدل مارچ شیعہ مذہبی تہواروں میں سے ایک ہے جو ہر سال 20 صفر کو عراق کے مختلف شہروں سے شروع ہو کر کربلائے معلی میں روضہ امام حسین علیہ السلام پر زیارت اربعین کی قرائت کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس سفر کو عام طور پر پیدل طے کیا جاتا ہے۔ اس سفر میں زائرین کی خدمت اور پذیرائی کے لئے جگہ جگہ کیمپیں لگائے جاتے ہیں جنہیں موکب کہا جاتا ہے۔

عراق میں صدام کی حکومت کے دوران اربعین مارچ کو محدود کرنے کی مختلف کوششیں ہوئی لیکن سنہ 2003ء میں صدام کی سرنگونی کے بعد یہ مراسم پہلے سے بھی بہتر اور منظم انداز میں برگزار ہو رہے ہیں اور ہر سال عراق کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر ایران سے ان مراسم میں شرکت کرنے کے لئے لاکھوں لوگ عراق کا سفر کرتے ہیں۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق شیعوں کے علاوہ اہل‌ سنت، عیسائی، ایزدی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان مراسم میں شرکت کرتے ہیں۔

ان آخری سالوں میں اربعین پیدل سفر میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے یہاں تک کہ یہ مراسم دنیا میں منعقد ہونے والا سب سے عظیم مذہبی اجتماع میں بدل گیا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 2013ء میں ڈیڑھ کروڑ اور 2014ء میں دو کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔

فہرست

  • 1 زیارت اربعین کی سفارش
  • 2 تاریخچہ
    • 2.1 بعثی حکومتیں اور زیارتی سفر پر پابندی
    • 2.2 شرکت کنندگان کی تعداد میں اضافہ
  • 3 مسافت
  • 4 آداب و رسومات
  • 5 ہدایات
  • 6 مختصر تاریخ
  • 7 حالیہ برسوں میں
    • 7.1 دوسرے ممالک سے
  • 8 حوالہ جات
  • 9 مآخذ

 

زیارت اربعین کی سفارش

تفصیلی مضمون: زیارت اربعین

 

امام حسن عسکریؑ فرماتے ہیں:

مؤمن کی پانج نشانیاں ہیں:

  1. روزانہ 51 رکعت نماز، (17 رکعت واجب (یومیہ نمازیں) اور 34 رکعت مستحب یومیہ نوافل)
  2. زیارت اربعین۔
  3. انگوٹھی کا دائیں ہاتھ میں پہننا۔
  4. سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا۔
  5. “بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم” کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنا

شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۲۔

 

امام حسن عسکریؑ سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی پانچ علاماتوں میں سے ایک قرار دی گئی ہے۔[1] اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اس دن کی مخصوص زیارت منقول ہے۔[2] شیخ عباس قمی نے اس زیارت کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں غیر معروف زیارت عاشورا کے بعد زیارت اربعین کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے۔[3]

 

تاریخچہ

بعض محققین کی تحقیق کے مطابق ائمہ اطہارؑ کے زمانے سے ہی شیعوں کے درمیان امام حسین کے چہلم کے موقع پر زیارت کیلئے جانا رائج تھا یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی وہ اس سفر پر جانے کے پابند تھے۔ اس اعتبار سے تاریخی طور پر یہ سفر شیعوں کی سیرت مستمرہ میں سے ہے۔ [4]

شیخ انصاری (متوفی 1281ھ) کے بعد یہ سنت فراموشی کا شکار ہوئی لیکن محدث نوری نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔[5]1927 عیسوی میں چھپنے والی کتاب ادب الطف (سال ۱۳۸۸ق/۱۹۶۷م) میں اربعین کے مراسم کا تذکرہ کرتے ہوئے اس اجتماع کو مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ اربعین حسینی کے موقع پر ترکی، عربی اور اردو زبان میں مرثیے اور نوحے پڑھے جاتے تھے۔ کتاب کے مصنف کے اندازے کے مطابق اس وقت عزاداروں کی تعداد 10 لاکھ کے قریب تھی۔[6]

بعثی حکومتیں اور زیارتی سفر پر پابندی

عراق میں احمد حسن البکر کی حکومت کے آغاز سے ہی اہل تشیع جبر کا شکار تھے. بعثی حکومت اس دور میں اہل تشیع پر بہت تشدد کرتی خاص طور پر عزادرای کو روکنے کی کوشش کرتی تھی. سنہ ١٣٩٧ ق میں جب زائرین نجف سے کربلا کی جانب جا رہے تھے تو کربلا کے مکمل راستے میں مائنز (بارودی سرنگیں) بچھائی گئیں اور یہی حالت سنہ ١٣٩٠، ١٣٩٥، ١٣٩٦، میں بھی پیش آئی.[7]

صدام حسین نے اپنے تیس سالہ دور حکومت کے دوران اہل بیتؑ پر ہر طرح سے عزاداری کرنے کو منع کر دیا. چودھویں ہجری صدی کے آخر میں عراق کی بعثی حکومت نے اس قدیمی سنت کے خلاف اقدامات کرنا شروع کئے جن میں انہیں کربلا جانے سے روکا جاتا اور کبھی ان زائرین کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جاتا۔ اس کی وجہ سے مذہبی سفر کم رنگ ہونا شروع ہو گیا۔ زائرین حسینی کے ساتھ یہ خشونت آمیزانہ برتاؤ بالآخر سال ۱۹۷۷ میں تیر اندازی کی صورت میں کربلا کے نزدیک کئی شیعہ حضرات کی شہادت کا باعث بنا۔ اس قدر سنگین حالات کے باوجود شیعہ حضرات مخفیانہ طور پر اپنے آپ کو اربعین کے موقع پر کربلا پہنچاتے۔ انہی سالوں میں آیت‌ الله سید محمد صادق صدر نے اربعین کے موقع پر کربلا کے پیدل سفر کو واجب قرار دیا۔[8] صدام کی حکومت ختم ہوتے ہی لوگوں نے زیارت اربعین کا سلسلہ بہت زور و شور سے دوبارہ شروع کر دیا. اگرچہ سنہ ٢٠٠٩ء سے لے کر اب تک ہر سال تکفیری گروہوں کے حملات کا خدشہ رہتا ہے.[9]

شرکت کنندگان کی تعداد میں اضافہ

۲۰۰۳ عیسوی میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ایک بار پھر عزاداری کی رسومات بہت ہی پر شکوہ حالت میں برقرار ہونے لگیں۔ [10] شروع شروع میں اربعین کے سفر میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 2 سے 3 ملین کی تعداد ہوتی تھی لیکن بعد کے سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 10 ملین (1 کڑور) سے تجاوز کر گئی۔[11] ۱۴۳۵ ہجری قمری میں بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ایران سے 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) سے زائد شیعہ زائرین نے شرکت کی۔[12] یہی تعداد بڑھ کر سال 1436ھ میں 20 ملین (2 کروڑ) کے قریب پہنچ گئی۔[13] اور سال 1437 ق میں یہی تعداد 27 ملین (2 کروڑ ستر لاکھ) کی حدوں کو چھونے لگی۔[14]

عراقی حکومت کی اطلاع کے مطابق 1435 ہجری قمری میں 13 ملین (1 کروڑ 30 لاکھ) حسینی زائرین عراق پہنچے ہیں اور انہوں نے کربلا کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا ہے تا کہ اربعین حسینی میں اپنی شرکت یقینی بنا کر امام حسین کے حرم میں پہنچیں۔[15]

مسافت

اربعین حسینی کے اکثر عراقی زائرین اپنے شہروں سے کربلا کی طرف پیدل اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن اکثر شیعہ ایران اور دیگر ممالک کے زائرین اپنے سفر کیلئے نجف سے کربلا کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان دو شہروں کے درمیان 80 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان سڑک پر نصب کھمبوں کی تعداد 1452 ہے۔ ہر کیلومیٹر کے درمیان 20 کھمبے نصب ہیں جن میں سے ہر دو کھمبوں کا درمیانی فاصلہ 50 میٹر ہے۔ پیدل چلنے والوں کو یہ تمام فاصلہ طے کرنے کیلئے 20 سے 25 گھنٹے درکار ہیں۔اس سفر کو طے کرنے کیلئے بہترین زمان 16 صفر ہے۔[16]

آداب و رسومات

ہوسہ خوانی:

ہوسہ جنوب عراق کے مخصوص عربی قصائد کو کہا جاتا ہے۔ یہ اشعار بہادری اور شجاعت کے بیان گر ہیں کہ جنہیں نہایت مشکل اور سخت کاموں کے انجام دینے کی خاطر انسانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کیلئے پڑھا جاتا ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص کے ایک شعر پڑھنے کے بعد حاضرین اسے تکرار کرتے ہیں اور پھر حلقے کی صورت میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہوسہ خوانی ایک رائج سنت ہے جسے اربعین کے ایام میں عراقی زائرین کربلا جاتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔[17]

اربعین کی مذہبی رسومات کا آغاز:

یہ سنتی اور قدیم اربعین کی عزاداری 20 صفر سے 5 دن پہلے زائرین امام حسین کے عزاداری کے مخصوص رائج رسومات ادا کرنے والے قافلوں کے کربلا پہنچنے سے شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ماتمی اور زنجیر زنوں کے دستے کربلا پہنچتے ہیں اور اربعین کی اصلی عزاداری کی رسومات ظہر کے دو گھنٹے بعد شروع ہوتی ہیں۔ تمام زائرین حرم امام حسین میں داخل ہونے والے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر سینوں پر ماتم کرتے ہیں، مرثیہ گو امام حسین ؑ کا مرثیہ پڑھتے ہیں اور اسکی تکرار کرتے ہیں اور آخر میں تمام عزاداران حسین ہاتھ اٹھا کر اپنے مولا کی خدمت میں تہیہ و سلام عرض کرتے ہیں ۔[18]

زائرین کی مہمان نوازی:

دریائے فرات کے اطراف میں بسنے والے قبائل امام حسین کے اربعین کے ایام میں پیدل چلنے والوں کے راستوں میں چادروں کے بڑے بڑے خیمے نصب کرتے ہیں جنہیں موکب یا مضیف کہا جاتا ہے۔ان خیام میں زائرین کی مہمان نوازی اور استراحت کا بندوبست ہوتا ہے۔[19] قبائل اور مذہبی اجتماعات میں بہت زیادہ موکب لگائے جاتے ہیں۔ یہ تمام موکب کسی قسم کی حکومتی مدد اور تعاون کے بغیر مکمل طور پر لوگوں کی اپنی مدد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ان میں زائرین کو ہر طرح کے امکانات جیسے کھانا پینا رہائش وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔[20]

ایران سمیت دوسرے ممالک سے بھی لاکھوں افراد اسی مقصد سے کربلا پہنچتے ہیں۔

ہدایات

امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقولہ حدیث میں مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں جن میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔[21]

نیز ایک زیارت نامہ بھی اربعین کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔[22] شیخ عباس قمی نے بھی یہ زیارت نامہ مفاتیح الجنان کے باب سوئم میں زیارت عاشورا غیر معروفہ کے بعد متن زیارت اربعین کے عنوان سے یہ زیارتنامہ نقل کیا ہے۔

مختصر تاریخ

محمد علی قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ اربعین کے دن کربلا کا سفر اختیار کرنا ائمہؑ کے زمانے میں بھی شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان رائج تھا اور وہ حتی کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی شیعہ اس سفر کے پابند تھے۔ وہ اس عمل کو شیعیان آل رسول(ص) کی سیرت مستمرہ اور ہمیشہ سے جاری اور مسلسل سیرت سمجھتے ہیں۔[23]

سنہ 1388 ہجری قمری (بمطابق 1967 عیسوی) میں شائع ہونے والی کتاب ادب الطّف کے مؤلف سید جواد شبر کربلا میں اربعین حسینی کے موقع پر منعقدہ عظیم اجتماعاس کو مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس میں شریک ماتمی انجمنوں کی حاضری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان میں بعض ترکی میں اور بعض فارسی اور اردو میں نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں۔ اس عظیم اجتماع میں لوگوں کی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں کہ یہ مبالغہ نہیں ہے اگر میں کہوں کہ دس لاکھ افراد زیارت اربعین کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔[24]

حالیہ برسوں میں

عراق میں بعثی نظام حکومت کے خاتمے کے بعد ـ جو ہر قسم کی عزاداری کے راستے میں رکاوٹ تھا ـ پہلی بار سنہ 2003 عیسوی میں شیعیان اہل بیتؑ نے اربعین کے موقع پر کربلا کا رخ کیا۔ اس عزیمت کے آغاز پر راہیان کربلا کی تعداد 20 سے 30 لاکھ تک پہنچتی تھی۔ دو سال بعد ان زائرین کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔[25]

سنہ 2013 عیسوی (بمطابق سنہ 1435 ہجری قمری) کو اربعین کے لئے کربلا کے عازمین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچی۔[26]

سنہ 2014 عیسوی ( بمطابق سنہ 1436 ہجری قمری) کو یہ تعداد تقریبا 2 کروڑ تک پہنچی۔[27]

جبکہ سنہ 2015 عیسوی (بمطابق سنہ 1437 ہجری قمری) کو یہ تعداد 2 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچی ہے۔[28]

دوسرے ممالک سے

عراق کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2013 میں اربعین میں حضرت امام حسین کے ساتھ تجدید عہد کی نیت سے دوسرے اسلامی ممالک نیز یورپی ممالک سے آنے والے زائرین کی تعداد تقریبا 13 لاکھ تک پہنچ گئی۔[29]

 

مآخذ

  • شبر، سید جواد، ادب الطف و شعراء الحسینؑ،‌دار المرتضی، بیروت.
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الاحکام،‌ دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ ق.
  • قاضی طباطبایی، سید محمد علی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشہداؑ، بنیاد علمی و فرہنگی شہید آیت الله قاضی طباطبائی، قم، ۱۳۶۸ش.
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان.
  • فرہنگ زیارت، فصلنامہ فرہنگی، اجتماعی، سیاسی و خبری، سال پنجم، شماره نوزدہم و بیستم، تابستان و پاییز ۱۳۹۳ش.
  • مظاہری، محسن حسام، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، نشر خیمہ، ۱۳۹۵ش.
تبصرے
Loading...