نعرہ تکبیر

جب کسی قوم پہ تہذیبی زوال آتا ہے

اس کے آئین بقا زیرِ سوال آتا ہے

شاہ بد جنس کا کردار یزیدی جو ہوا

خون شبیر کے وارث کو جلال آتا ہے

ملک ایران کی تقدیر جگانے کےلئے

کربلا سے کوئی شبیر کا لال آتا ہے

نور چھا جاتا ہے تاریک فضا پر اس دم

افقِ عشق پہ جب ماہ کمال آتا ہے

انقلاب آتا ہے پھر نعرہ تکبیر کے ساتھ

گیارہ، بائیس، ستاون کا جو سال آتا ہے

پھر صنم خانہ بھی ہو جاتا ہے جنت میں بدل

کرسی عدل جب نیک خصال آتا ہے

اپنی ہر سانس میں شیطان کو للکارتے ہیں

جب بھی دشمن کہیں لےکر کوئی چال آتا ہے

توڑ دیتا ہے زمانے کے بتوں کو جیسے

فیل کے قدموں میں کوئی ظرف سفال آتا ہے

ہاتھ میں لےکے عصا آئے جو موسائے زماں

شجر دین پہ پھر تازہ نہال آتا ہے

اس کی عظمت کا نتیجہ ہے جہاں میں اظہر

مرد کہدے تو خمینی کا خیال آتا ہے

کاچو اظہر عباس – پاکستان

7 فروری 2018ء – اسلامی انقلاب ایران کی ۳۹ویں سالگرہ کے موقع پر

تبصرے
Loading...