معاشرتی نمونے

انقلاب اسلامی ایران اپنے ابتدائی سالوں  کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں  کیلئے ایک سماجی اور قابل تکرار مثال سے زیادہ ایک الہام بخش مرکز سمجھا جانے لگا اور ان معاشروں  میں  اسلامی تحریک کی تجدید کا باعث بنا۔ اس تحریک کے معاشرتی مثالیں ، بطور خاص، انڈونیشیا اور ملائشیا میں  نظر آتی ہیں ۔

مذہب پرعمل:  اکثر خواتین کا اسلامی پردے کی طرف مائل ہونا، عام لوگوں  کا فرائض، نماز باجماعت، نماز جمعہ، ماہ رمضان کے روزے، حج، زکات، قربانی اور قرآن سنٹرز کے قیام جیسے مذہبی فرائض میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔

اسلامی ناموں  کی مراعات:  لوگوں  اور اداروں  کے اسلامی نام رکھنے کی طرف رغبت، حلال غذاؤں  کی نمائشوں  کا انعقاد اور غذاؤں  پر لفظ ’’حلال‘‘ کے اسٹیکرز وغیرہ کا رواج، آبادی پر کنٹرول کیلئے اسلامی تعلیمات پرعمل، ذرائع ابلاغ میں  اسلامی میل جول کی اصطلاحات کے استعمال کا رواج وغیرہ اس کی مثالیں  ہیں ۔

دینی غیرت وحمیت:  سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی  (ره) کے فتویٰ کی حمایت اور ملک میں  اسلامی مقدسات کے توہین کے واقعات کی شدت سے مذمت کی گئی مثلاً انڈونیشین زبان کے جرائد ”Monitor” اور ”Senang”کے خلاف احتجاج ہوا جو ان کے بند ہونے اور ذمہ دار افراد کے خلاف عدالتی کاروائی پر منتج ہوا (۱۹۹۰ ء)۔ ۱۹۹۴ءمیں  ’’شینڈلر کی فہرست‘‘ نامی ایک فلم کے ریلیز کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اس فلم میں  یہودیوں  کی مظلومیت کے تحریف شدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔ ۱۹۹۳ ء  میں  حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے قسمت آزمائی کے ٹکٹوں  کی فروخت کے خلاف احتجاج ہوا نتیجتاً حکومت کو یہ اسکیم ختم کرنا پڑی۔

سیاسی مطالبات:  معاشرہ کے مختلف شعبوں  اور قوانین کو اسلام سے قریب تر کرنے کے مطالبات میں  اضافہ اور اس سلسلے میں  حکومت کو مثبت اور تسلی بخش اقدامات کرنے پر مجبور کرنا مثلاً ۱۹۹۰ء میں  انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے روشن خیال مسلمانوں  کی کونسل تشکیل، ’’معاملات بینک‘‘ کے نام سے اسلامی بینک کا قیام، اسلامی عدالتوں کی تشکیل، درسگاہوں  میں  پردے کی آزادی، سوہارتو کا حج پر جانا، کابینہ میں  غیر مسلم ارکان کی کمی اور اس میں  اچھی شہرت رکھنے والے مسلمان افراد کی شمولیت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مذہبی پروگراموں  میں  اضافہ۔ ملائشیا میں  بھی مہاتیر محمد کی اسلامی پالیسیوں  اور صوبہ کلانتان میں  اسلامی تنظیم ’’پاس‘‘ کی اسلامی حکومت کے قیام کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی امور میں  تعاون:  امت اسلامی سے تعلّق کے احساس کی تقویت اور عالم اسلام کے حالات کے بارے میں  جذبات کا اظہار اور عراق کے خلاف اتحادی فوجوں  کی جنگ ۱۹۹۱ ء جیسے مسائل میں  اپنی حکومت پر مناسب موقف اپنانے کیلئے دباؤ ڈالنا، بوسنیا اور فلسطین کے حالات نیز مذکورہ حالات سے متاثر ہونے والوں  کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کیلئے مظاہروں  اور ان کی مالی امداد کی خاطر عوامی گروپوں  کی تشکیل۔

مذہبی ادارے: مساجد، مدارس اور اسلامی ہسپتالوں  کی تعداد میں  اضافہ، انڈونیشیا اور ملائشیا میں  اسلامی بیمہ، اسلامی ایکسچینج، مارکیٹ اور کئی اسلامی مطالعاتی اداروں  کا قیام۔ یہاں  اس بات کی یاد دہانی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ان ظاہری امور کے علاوہ انقلاب اسلامی ایران نے جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں  کی فکری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں  ان کی بعض مثالیں  آگے آئیں  گی۔

تبصرے
Loading...