فکری اثرات

عالم اسلام کے فکری حالات کا جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں  پر ان آخری دہائیوں  میں  ذرائع ابلاغ اور ارتباطات کی دنیا میں  وسعت کی وجہ سے بڑی تیزی سے وسیع سطح پر اثر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے اس خطہ کے مسلمانوں  کی توجہ کو خاص طورپر اپنی طرف مبذول کیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں  انقلاب کی خبروں  کو بڑی توجہ سے سنا، نیز ایرانی مفکرین اور دانشوروں  کی کتابوں  کے تراجم نے بتدریج گہرے اثرات مرتب کئے۔

اسلامی افکار کی تبدیلی:  امام خمینی  (ره)، ڈاکٹر شریعتی اور شہید مطہری جیسے ایرانی مفکرین کی کتابوں  کے تراجم اور اشاعت اس خطہ میں  رائج اسلامی فکر کی تبدیلی کا باعث بنی۔ امام خمینی  (ره) اور ان کے علمی آثار کی خصوصیتوں  کے بارے میں  حکومتوں  کی حساسیت، امام خمینی(ره) کی کتابوں  کے ترجمے اور اشاعت پر پابندی کا سبب بنی۔ لیکن ڈاکٹر شریعتی کی کتابیں  انڈویشیا اور ملائشیا میں  بہت وسیع سطح پر شائع ہوئے اور نوجوان نسل اور تعلیم یافتہ افراد کی جانب سے ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔ انڈونیشیا کی نوجوان نسل میں  ڈاکٹر شریعتی کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ عماد الدین عبد الرحیم کو جو کہ ایک روشن خیال مسلمان ہیں ، انڈونیشیا کے شریعتی کا نام دیا گیا ہے۔

بعد کے سالوں  میں  شہید مطہری وعلامہ طباطبائی جیسے دوسرے مسلمان مفکرین کی کتابیں  بھی شائع ہوئیں  اور ان کتابوں  میں  اٹھائے گئے موضوعات کو مذہبی جرائد میں  زیر بحث لایا گیا اور خطے کے اسلامی ادب میں  نئی اصطلاحات والفاظ کے رواج کا باعث بنیں ۔ ایک تحقیقاتی ادارہ بھی انڈونیشیا کے شہر باندونگ میں  شہید مطہری کے نام سے قائم ہوا ہے اور اسی شہر میں  میزان پبلشرز نامی ادارہ شیعہ کتب چھاپنے کا کام انجام دے رہا ہے۔ اس کے باوجود جو چیز اس خطے کے مسلمانوں  کی توجہ کا مرکز بنی ہے، وہ انقلاب کے ایرانی اور شیعی پہلو نہ تھے بلکہ سامراج کے خلاف قیام اور عدالت جیسے عام اسلامی مفاہیم تھے جن سے یہ لوگ سید قطب اور ابو الاعلیٰ مودودی جیسے مفکرین کی کتابوں  کے ذریعے پہلے سے ہی آشنا ہوچکے تھے اور اب ان کو ایک نئے اور خوبصورت انداز میں  ڈاکٹر شریعتی جیسے مفکرین کی کتابوں  میں  پاتے تھے۔ ان ممالک کے جرائد میں  ایران کے حالات کے بارے میں  مثبت مضامین کی تعداد میں  بتدریج کمی آتی گی اور ان کی جگہ تجزیاتی وتنقیدی مقالات نے لے لی۔ لیکن اس کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کی فکری جاذبیت پہلے ہی کی طرح ابھی تک خطے کے مسلمانوں ، یہاں  تک کہ تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے مسلم اقلیت والے ممالک کے مسلمانوں  کیلئے موجود ہے۔

اسلامی نقطہ نگاہ کی تبدیلی:  ۱۹۷۰ء کے عشرے میں  تیسری دنیا اور سیکولر مکاتب کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی وخالص اقدار کی طرف بازگشت کے نظرئے اور پھر ریڈیکل اسلام کے سمبل کے طورپر انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے اسلام کے بارے میں  جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں  کا روایتی زاویہ نگاہ بھی تبدیل ہوگیا۔ مسلمان مفکرین نے اسلامی آئیڈیالوجی کو مغربی مکاتب (مارکسزم اور لیبرل ازم) کے مقابل خوشی سے قبول کیا۔ انہوں  نے اسلامی مفاہیم کی نئی تشریح کے ذریعہ اقتصادی وسیاسی مسائل کے نئے راہ ہائے حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں  عالم اسلام کے دوسرے مفکرین کے ساتھ ساتھ ایرانی مفکرین کے حصے سے انکار نہیں  کیا جاسکتا ہے یہاں  تک کہ انڈونیشیا کے ایک محقق کے بقول ’’مکتب قم‘‘ (یعنی امام خمینی  (ره)، شریعتی، مطہری اور باقر الصدر وغیرہ کے افکار) نے تدریجاً ’’مکتب فرینکفرٹ‘‘ کی جگہ لے لی اور ایک نئے اور الہام بخش مرکز کے طورپر اسلامی اقدار پرمبنی معاشرتی اہداف مثلاً آزادی، عدالت، مستضعفین کی حمایت وغیرہ کی نئی تعریف پیش کی۔اسی وجہ سے اسلام، تشیّع اور انقلاب اسلامی کے بارے میں  علمی تحقیقات میں  اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک کی پڑھی لکھی نوجوان نسل، اس سیاسی اسلام سے آگاہ ہونا چاہتی ہے جس کی ان ممالک میں  ترویج نہیں  ہوئی ہے۔

جدید دانشور:  جنوب مشرقی ایشیا میں  مسلمان دانشوروں  کی ایسی نئی نسل وجود میں  آ رہی ہے جس کے اسلاف کی اکثریت قاہرہ (مصر) کی تعلیم یافتہ تھی اور دیہی آبادیوں  میں  ان کا اثر ونفوذ ہے۔ اپنے اسلاف کے برعکس جدید نسل کے اکثر افراد یورپ کے تعلیم یافتہ ہیں  اور اس وقت ان کا قومی سطح پر (یونیورسٹیوں  اور ذرائع ابلاغ وغیرہ پر) بہت اثر ورسوخ ہے۔ یہ لوگ ایرانی مفکرین کے افکار سمیت جدید اسلامی نظریات سے آشنائی رکھتے ہیں  اور ان نظریات کو اپنے معاشروں  تک پہنچانے میں  ان کا اہم کردار ہے۔ ایک جامع جائزے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ انقلاب اسلامی کی فکری جاذبیت نے سابقہ علما کی نسبت اس گروہ پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

 

تبصرے
Loading...