سياست اور اس كے بنيادى مسائل

سياست اور اس كے بنيادى مسائل

مثال كے طور پر اگر ہم ايك قبيلہ كو مدنظر ركھيں تو اگر چہ اس كا ہر فرد اپنے طور پر اپنے كچھ ذاتى مسائل كا فيصلہ كرسكتاہے اور اپنے ذاتى فيصلےكے مطابق عمل كر سكتاہے_ ليكن كسى دوسرے قبيلہ كے ساتھ جنگ يا صلح جيسے مسائل ميں اپنى انفرادى رائے كے مطابقفيصلہ نہيں كرسكتا_ كيونكہ جنگ يا صلح ايسے مسائل ہيں جوپورے معاشرے كے ساتھ مربوط ہيں نہ كہ انفرادى مسائل كہ معاشرے كا ہر فرد انفرادى طور پر ان كے متعلق فيصلہ كرے اور اپنى ذاتى تشخيص كے مطابق عمل كرے _
يہ حقيقت ہے كہ چھوٹے بڑے ہر معاشرے ميں كچھ اجتماعى مسائل اور مشكلات ہوتى ہيں كہ جن كے حل
كرنے كيلئے اجتماعى فيصلوں كى ضرورت ہوتى ہے اور اسى حقيقت نے انسان كو’ رياست و حكومت ‘كے قبول كرنے كى طرف راغب كيا ہے _ طول تاريخ ميں جہاں پر بھى انسانى معاشرہ رہاہے ‘رياست اور حكومت’ كا وجود بھى اسكے ہمراہ رہاہے_ہر معاشرے نے چاہے وہ جس شكل ميں بھى ہو_ اپنے اجتماعى امور كى تدبير كيلئے ايك فرد يا چند افراد كو رئيس ، حاكم، امير، والى ، سلطان اور بادشاہ ايسے مختلف عناوين كے تحت قبول كيا ہے _
ہر انسانى معاشرے ميں ايك يا چند افراد ‘سياسى اقتدار ‘كے حامل ہوتے ہيں _ اور اس كے اجتماعى امور كى تدبير اور اجتماعى زندگى كے مختلف امور كو انجام دينا ان كى ذمہ دارى ہوتى ہے _ بنابريں ‘سياست’ (1) كى يوں تعريف كى جاسكتى ہے :
‘ سياست’ يعنى ايك معاشرے كے بڑے بڑے مسائل و مشكلات كے بارے ميں فيصلہ كرنا اور انكى تدبير كرنا_ يہ سرپرستى اس معاشرے كى مشكلات كو رفع كرنے ، مختلف امور كو منظم كرنے ، منصوبہ بندى اور اسكے اجراء كو شامل ہے _
ابن منظور كہتے ہيں: السوس: الرياسة ،يقال: ساسوہم سوساً … و ساس الا مرَ سياسة قام بہ … (لسان العرب ج6 ص 108 ‘سوس’)_
فيروز آبادى كہتے ہيں : سُستُ الرّعية سياسة : امرتہا و نہيتہا … و سُوّسَ فلانٌ ا مرَ الناس … صُيّر ملكاً (القاموس المحيط ص 710 ‘ سوس’) سياسى لغت ناموں ميںسياست كى مختلف تعريفيں كى گئي ہيں ان ميں سے بعض كى طرف ہم اشارہ كرتے ہيں _
الف: انسانى معاشروں پر حكومت كرنے كے فن كو’ سياست’ كہتے ہيں _
ب:مختلف مسائل كے حل كے بارے ميں فيصلہ كرنا_
ج:ملكى امور كے انتظام كيلئے حكومت جن تدابير كو كام ميں لاتى ہے انہيں سياست كہتے ہيں _
د:اجتماعى امور كو منظم كرنے كيلئے حكومت جس طاقت كو بروئے كار لاتى ہے اس كے علم كو سياست كہتے ہيں _
‘ سياست’ كے بہت سے ديگر معانى بھى ہيں بطور مثال اگر ہم سياست كے عملى پہلو كو مدنظر ركھيں تو كہہ سكتے ہيں : سياسى قدرت كو حاصل كرنے كيلئے كوشش اور اسكى حفاظت اور تقويت كرناسياست كہلاتاہے_
اگر ہم سياست كے فكرى اور نظرياتى پہلو كو ديكھيں تو پھر يوں تعريف كرسكتے ہيں : سياسى طاقت حكومتى ڈھانچہ اور سياسى حكومت ميں مختلف گروہوں كے باھمى تعلقات كا مطالعاتى جائزہ، سياست كہلائے گا _
بہر حال سياست ، سياسى اقتدار سے متعلقہ ابحاث اور اجتماعى امور كى تدبير ہميشہ سے صاحبان فكر كى توجہ كا مركز رہى ہيں _ افلاطون كى كتاب ‘ جمہوريت ‘، ارسطو كى كتاب’ سياست’ اور ابو نصر فارابى كى كتاب ‘مدينہ فاضلہ’ اس بات كى شاہد ہيں كہ عظيم مفكرين كے نزديك سياست كے موضوع كو ہميشہ بڑى سنجيدگى سے ليا گيا ہے_ انسانى معاشروں كے دن بدن پيچيدہ ہونے اور ان كے ايك دوسرے كے ساتھ بڑھتے ہوئے سياسى ، اقتصادى اور ثقافتى تعلقات نے سياسى ابحاث كو مزيد اہميت كا،حامل بنادياہے اور انكى وسعت ميں مزيداضافہ كردياہے_
علم سياست اور سياسى فلسفہ(2)
عنوان ‘ سياست’ كے تحت داخل مسائل بہت مختلف اور متنوع ہيں_’ علم سياست’ ، ‘سياسى فلسفہ’ ، ‘سياسى آئيڈيالوجي’ اور ‘سياسى تجزيہ’ جيسے الفاظ ميں سے ہر ايك سياست كے ساتھ مرتبط مختلف امور كى تحقيقات اور مطالعات كے ايك گوشے كى طرف اشارہ ہے _ ان ميں سے بعض مطالعات عملى مباحث كے ساتھ مختص ہيں جبكہ بعض كا تعلق نظرياتى پہلوسے ہے_ اس تنوع اور وسعت كا راز يہ ہے كہ سياسى سوالات اور سياسى افكار بہت ہى مختلف اقسام كے ہيں اور علم سياست كا ايك شعبہ ان تمام سوالات اور ضروريات كا جواب نہيں دے سكتا _ بعض سياسى سوالات اور احتياجات كا تعلق عمل سے ہے_ مثلا ايك ملك كے سياسى ماہرين اور سياستدان جاننا چاہتے ہيں كہ ہمسايہ اور دوسرے ممالك سے تعلقات قائم كرنے ميں انكا موقف كيا ہونا چاہيے اور عالمى سطح پر بين الاقوامى تعلقات كو كس طرح استوار كريں تو اس كيلئے ان كے پاس عالمى اور بين الاقوامى سطح پر قائم سياسى اقتدار اور طاقتوں كے متعلق اسى طرح جامع تجزيہ ہونا چاہيئےہ جس طرح قومى سطح پر ان كے لئے علاقہ كى سياست كے پيچ و خم سے آگاہ ہونا ضرورى ہے _ پس عالمى اور علاقائي حالات سے آگاہ ہونے كے بعد اپنے سياسى اہداف اور قومى منافع كو متعين كريں اور انتہائي دقت نظر سے طے كريں كہ ان كے دراز مدت اورمختصر مدت مفادات كونسے ہيں اس مرحلے كے بعد اگلے مرحلے ميں وہ اپنے سياسى اہداف كے حصول كيلئے ايك منظم لائحہ عمل تيار كريں اور وسيع پيمانے پر منصوبہ بندى كريں اور پھر بڑى باريك بينى سے انہيں عملى جامہ پہنائيں_
اس قسم كے سياسى مطالعات جو عملى پہلو كے حامل ہيں_’ علم سياست’، ‘سياسى تجزيہ و تحليل’ اور’ لشكرى و فوجى مطالعات ‘(3)جيسے شعبوں كے ساتھ مماثلت ركھتے ہيں _ اور ان فنون اور شعبوں پر مسلط ہونا اس قسم كے سوالات اور مسائل كے جواب دينے كيلئے مفيد ثابت ہوسكتے ہيں_
دوسرى قسم كے سياسى سوالات اور مسائل كا تعلق علمى اور نظرياتيپہلو سے ہے_ عملى پہلوكى نسبت علمى پہلو عالَم سياست ميں بنيادى اور اساسى حيثيت ركھتا ہے_ يہاں پر ہم اس قسم كے چند سوالات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_
بنيادى طور پر ہميں حكومت كى احتياج كيوں ہے؟
حكومت كرنا كن افراد كا حق ہے؟
حكمرانوںاور سياسى اقتدار كے حاملين كى اطاعت كيوں ضرورى ہے؟
عوام كے مقابلے ميں حكمرانوں كے فرائض كياہيں؟
حكومت كے اہداف كيا ہونے چاہئيں؟
حكومت كس حد تك عوام كى آزادى كو محدود كرنے كا حق ركھتى ہے؟
كيا حكومت صرف مادى فلاح و بہبود اور امن و امان كى ذمہ دار ہے؟ يا معاشرے كى خوشحالى اوراسكي
روحانى ضروريات كو پورا كرنے كى بھى ذمہ دار ہے؟
معاشرہ كى خوشحالى اور خير و بركت سے كيا مراد ہے؟ اور اس كا معيار كيا ہے؟
معاشرتى امور كو چلانے اور انكى منصوبہ بندى كرنے ميں معاشرتى انصاف كا كيا كردار ہے؟
معاشرتى انصاف اور اقتصادى و انفرادى آزادى كے در ميان تضاد اور ٹكراو كى صورت ميں كسے ترجيح دى جائے گى ؟
اس قسم كے بنيادى سوالات كى تحقيق ‘ سياسى فلسفہ’ ميں كى جاتى ہے_
مختلف سياسى مكاتب كہ جنہيں ہم ‘سياسى افكار و نظريات’ سے تعبير كرتے ہيں انہى سوالات كے جوابات كى بنياد پر تشكيل پاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں ہر سياسى مكتب كى بنياد ايك مخصوص سياسى نظريہ ( سياسى فلسفہ) پر ہوتى ہے _ مثال كے طور پر’ لبرل ازم'(4) ايك سياسى مكتب فكر ہے _ وہ ان سوالات كے ايسے جواب ديتے ہيں جو بعض جہات سے دوسرے سياسى مكتب فكر مثلا اشتراكيت(5) كى تعليمات سے بالكل مختلف ہوتے ہيں _ لبرل ازم فردي، اقتصادى اور ثقافتى آزادى كا حامى ہے_ اور اس نظريے كا قائل ہے كہ معاشرتى انصاف كے بہانے، ذاتى مالكيت اور اقتصادى آزادى پر قدغن نہيں لگايا جاسكتا_ لبرل ازم كى نظر ميں حكومت كے اختيارات محدود ہونے چاہيں_ حكومت كا كام صرف رفاہ عامہ ، امن و امان قائم كرنا اورانسانى حقوق كے بنيادى ڈھانچے كى حفاظت كرنا ہے _ سعادت ، خوشبختى ، معنويات اور اخلاقيات كا تعلق انسان كى انفرادى زندگى كے ساتھ ہے _ يہ حكومت كے فرائض ميں شامل نہيں ہيں _ اس كے مقابلہ ميں سوشلزم كہتاہے: معاشرتى انصاف كا قيام حكومت كى سب سے بڑى اور اہم ذمہ دارى ہے اسى لئے اقتصادى امور حكومت كے كنٹرول ميں ہونے چاہيں جبكہ ذاتى مالكيت يا تو بہت محدود ہونى چاہيے ياپھر اسكا سرے سے ہى خاتمہ كردينا چاہيے_يہاں پردو نكات كى وضاحت ضرورى ہے_
1 : علم سياست اور سياسى تجزيہ و تحليل كے ساتھ مربوط بہت سے مسائل ہميشہ جديد اور تبديل ہوتے رہتے ہيں كيونكہ عالمى سطح پر حكومتيں اور سياسى تعلقات بدلتے رہتے ہيں_
اقتصادى ، ثقافتى اور سياسى تبديلياںعلاقائي اور عالمى سياست پر اثر انداز ہوتى ہيں جس كے نتيجہ ميں سياسى ماہرين كو ہميشہ نت نئے سوالات اور مسائل كا سامنا كرنا پڑتا ہے_ ليكن ‘سياسى فلسفہ’كے متعلقہ مسائل
ميں كوئي تبديلى نہيں ہوتى يہ اساسى اور مخصوص مسائل ہوتے ہيں كہ جن سے سياسى ماہرين دوچار رہتے ہيں_
ہر سياسى ماہر جب اپنے مخصوص نظريات كے تحت ان سوالات كا جواب ديتا ہے تو اس سے ايك سياسى نظريہ يا مكتب تشكيل پاتا ہے_ لہذا ملكى يا بين الاقوامى سياست ميں تبديلى آنے سے يہ سياسى مكاتب تبديل نہيں ہوتے_
2: ‘سياسى فلسفہ’ كے دائرہ ميں بہت سے سوالات آتے ہيں_ جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے كہ ان سوالات كے جو جواب ديئے جاتے ہيں انہى كى بنياد پر سياسى مكاتب تشكيل پاتے ہيں اورا سى بنياد پر ان كى شناخت ہوتى ہے _ ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان مختلف سياسى مكاتب ميں كوئي وجہ اشتراك نہيں ہے اور سياسى فلسفہ كے تمام مسائل كے جوابات ايك دوسرے سے بنيادى فرق ركھتے ہيں_ ممكن ہے كہ ايك سياسى مكتب كى دوسرے سياسى مكاتب سے عليحد گى اورامتياز صرف ايسى ہى بعض مباحث ميں ہو_ اور بعض ديگر جہات سے وہ دوسرے سياسى مكاتب سے اتفاق نظر ركھتا ہو _ مثلا ‘ اشتراكى جمہوريت ‘ (6)اور ‘ آزاد جمہوريت’ (7) جو كہ سياسى نظريات كے عنوان سے دو رقيب مكتب فكر ہيں ، اس نكتہ پر متفق ہيں كہ جمہوريت اور را ے عامہ سياسى حاكميت كے جواز كى بنياد ہے اور حكومت و حكمران كا انتخاب عوام كى را ے كى بنياد پر ہونا چاہيے اور ان دو مكاتب ميں اختلافى نكتہ يہ ہے كہ پہلا مكتب فكر معاشرتى عدل و انصاف پر زور ديتا ہے اور دوسرا شخصى آزادى و خصوصى مالكيت پر، ايك اشتراكيت كى بات كرتا ہے اور دوسرا انفراديت كى _

1)سياست لفظ ‘ سوس’ سے نكلاہے_ جس كے لغوى معنى رياست ، پرورش، سزا دينا اور رعايا كے امور كى ديكھ بھال كرنا ہے_
2) political philosophy.
3) Strategie studies .
4) Liberalism
5) socialism.
6) Social Democracy.
7) Liberal Democracy.

http://shiastudies.com/ur/586/%d8%b3%d9%8a%d8%a7%d8%b3%d8%aa-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3-%d9%83%db%92-%d8%a8%d9%86%d9%8a%d8%a7%d8%af%d9%89-%d9%85%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%84/

تبصرے
Loading...