بین الاقوامی نظام میں اسلامی انقلاب کا مقام اور حوزہ و یونیورسٹی کی ذمہ داری

امام خمینی (ره)  فرماتے ہیں : ’’حوزہ ہائے علمیہ اور علما کو چاہیئے کہ فکر وتدبر کی نبض اور معاشرے کی آئندہ ضروریات سے ہمیشہ آگاہ رہیں ۔ ہمیشہ واقعات کے رونما ہونے سے پہلے مناسب ردعمل کیلئے تیار ہوں ۔ ممکن ہے کہ آنے والے سالوں  میں  لوگوں  کے امور کو چلانے کے مروجہ طریقوں  میں  تبدیلی آجائے اور انسانی معاشرے اپنی مشکلات کو حل کرنے کیلئے اسلام کے جدید مسائل کے محتاج ہوجائیں ۔ لہذا علمائے اسلام کو چاہیئے کہ ابھی سے اس کے بارے میں  سوچیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۱۰۱)

انسانوں  کی اجتماعی رہبری اور ہدایت کا مسئلہ ہمیشہ انسانی معاشروں  کا ایک بہت اہم اور پیچیدہ ترین مسئلہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفکّرین کی تحقیقات اور مطالعہ کا ایک عظیم حصہ اسی بنیادی موضوع سے مختص رہا ہے جس کے نتیجے میں  مختلف مکاتب فکر وجود میں  آئے۔اگرچہ نظریاتی اعتبار سے بہت سے مکاتب فکر وجود میں  آئے ہیں  لیکن عملی میدان میں  ان میں  سے صرف کچھ کو آزمائش یا تجربہ کا موقع مل سکا ہے۔ حقیقت میں  بیسویں  صدی میں  ان انسانی مکاتب فکر میں  سے دو مکتب یعنی لیبرل ازم اور مارکس ازم کا تجربہ ہوا ہے۔

مارکس ازم کی رسوائی اور ناتوانی کا ڈنکا چند دہائیوں  کے بعد دنیا کے کونے کونے میں  بجنے لگا لیکن لیبرل ازم نہ صرف اب تک زندہ ہے بلکہ اپنے حریف کی شکست کے بعد مشرقی بلاک کے بہت سے ممالک کو اپنا ہم خیال بنانے میں  کامیاب ہو کر ایک پر اطمینان مستقبل کے ساتھ آگے کی جانب گامزن ہے۔ دوسری طرف حالیہ دو دہائیوں  میں  جس اہم واقعے نے بہت سے فکری وسماجی مباحث میں  صاحب رائے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے وہ ولایت مطلقہ فقیہ کی اساس پرا سلامی انقلاب کا ظہور ہے جس نے بن بلائے مہمان کی طرح عصر حاضر کے معاشرتی نظریات کی محفل میں  نمودار ہو کر اس صدی میں  ترقی کے اعلیٰ ترین نمونے بلکہ تاریخ تمدن بشری کو چیلنج کردیا ہے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا نظریہ ایک مختصر مدت (۵ جون ۱۹۶۳ء سے ۱۲ فروری ۱۹۷۸ء) تک یعنی تقریباً ۱۵ سال کی مدت میں  ایک نظریئے کی حد سے نکل کر قابل عمل سماجی نمونے کے طورپر سامنے آیا اور وہ بھی ایک مکمل اسٹریٹجک علاقے میں ، کیونکہ اول تو مشرق وسطیٰ خود ہی بین الاقوامی اعتبار سے ایک حساس علاقہ ہے۔ دوسرا یہ کہ مشرق وسطیٰ میں  ایران ایک حساس خطہ جو مغرب سے وابستہ سب سے بڑی طاقت تھی خصوصاً شاہ کے دور میں  علاقے کا تھانے دار تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ دوسرے بڑے عالمی بلاک (یعنی سابق سوویت یونین) کا ہمسایہ ہے۔ اب جبکہ ولایت مطلقہ فقیہ کی تھیوری اور اس کے عملی نمونے (یعنی اسلامی جمہوریہ کا مقدس نظام) کو سامنے آئے دو دہائیاں  گزر رہی ہیں  اور یہ نظریہ داخلی مشکلات کے عظیم حصے کو حل کرنے، علاقائی چیلنجوں  کا مقابلہ کرنے اور بین الاقوامی سازشوں  کو ناکام بنانے میں  کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ قید وبند کی صعوبتوں  میں  شکار بہت ساری اقوام کو اپنی طرف متوجہ کرچکا ہے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والی تحریکوں  کیلئے ایک قابل اعتماد نمونہ عمل بن کر سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی سرمایہ دار دنیا کے ایک قطبی ہونے کے راستے میں  بہت بڑی رکاوٹ کے طورپر ابھرا ہے حتی کہ سماجی علوم کے دانشوروں  کی خاطر خواہ تعداد منجملہ (ہارورڈ یونیورسٹی کے سیاسیات کے استاد) پروفیسر ساموئیل ہانٹینگٹن نے آنے والی صدی کو اسلام اور مغرب کی مڈبھیڑ کی صدی قرار دیا ہے۔

بہرحال اسلامی انقلاب اور اس سے جنم لینے والا نظام اپنے اندر پر کشش اور بنیادی پیغامات ونعرے لئے ہوئے ہے۔ انہی پرکشش اور بنیادی پیغامات کی روشنی میں  اس نظام نے بڑے مفکّروں  اور مغرب کے اصلاح پسند افراد کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی ہے۔ اسی طرح اس نے اسیر اقوام خاص کر مسلمانوں  کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے۔ مثلاً مشرق ومغرب کی ترقی کے دونوں  نمونوں  کی بہت بڑی کمزوریوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان نہیں  رکھتے اور انہوں  نے دین سے منہ موڑ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجیات کے بہت سے ماہرین منجملہ امام خمینی  (ره) کی نگاہ میں  مشرق ومغرب کے حل نہ ہونے والے مسائل سے دوچار ہونے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے دین کو زندگی کے میدان سے نکال کر چھٹیوں  کے دنوں  تک محدود کردیا ہے اور مشرقی بلاک نے اس کے ساتھ سختی سے کھلم کھلا ٹکر لی ہے۔ عظیم دانشوروں  کی بہت بڑی مقدار میں  لکھی گئی کتابوں  اور تحریروں  پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس نظریئے کی تائید ہوجاتی ہے۔

تبصرے
Loading...