بہارِ انقلاب سے انقلابِ مہدی تک

اسلامی بیداری کا مظاہرہ ایک لہلہاتی فصل ہے جس کی تخم ریزی قریب چالیس سال قبل ایک مردِ بزرگ خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے کی تھی۔

تحریکوں کا مدعا و مقصد یہی ہےکہ ضمیر انسانیت سے مہدی موعود (ع) کی تحریک کا نقش محو نہ ہونے پائے۔ صدرِ اسلام کے بعد وقوع پذیر ہونے والی تمام تحریکوں کو انقلابِ مہدی (ع) کی تمہید کہا جا سکتا ہے۔ صالح انقلابات کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب حضرت ولی عصر (عج) اپنی تجلی سے عالمِ وجود و امکان کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے؛ نہ صرف نظامِ جہاں بانی کی ظاہری ہیئت کی کایا پلٹ ہوگی بلکہ ضمیر و وجدان بھی اس انقلاب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

اس تیز رفتار اور ہنگامہ خیز دور میں جمادات کو بھی جمود زیب نہیں دیتا ہے چہ جائےکہ انسان اور اس کی زندگی کے مختلف نظام۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب  //  کشمکشِ انقلاب روحِ امم کی حیات

قرآنِ مجید میں ایک مومن کیلئے جو ضابطۂ اخلاق، محبت و نفرت کے متعلق مقرر ہوا ہے اس کے مطابق ایک مومن ہرگز ہرگز دوسرے مومن سے دشمنی کرکے استعمار سے سانٹھ گانٹھ نہیں کرسکتا ہے؛ اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو جان لینا چاہیئےکہ خدا کے ساتھ اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے لیکن استعمار کے ان کاسہ برداروں کی دوستی و دشمنی کا معیار قرآنی ہدایات کے بالکل برعکس ہے۔

انقلابِ اسلامی ان کی آنکھوں میں گذشتہ تین دہائیوں سے کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ یہ اسی آگ میں جلے بُھنے جا رہے ہیں کہ اگر ان تحریکوں کا جذبہ ان کی ریاستوں میں بھی نفوذ کرجائے تو ان کے اقتدار کی خیر نہیں؛ یہی وجہ ہےکہ یہ اسرائیل کو ہی اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں اور امریکی چھتر چھایا کو اپنے تئیں واحد محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ حق و حقیقت بالآخر ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے۔ اس کے اثر و نفوذ کو روکنے کیلئے جس قدر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اُسی قدر اُس میں اضافہ ہوا جاتا ہے۔ غالب نے بھی اسی کلیہ کی جانب بڑے ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے:

پاتے نہیں جب راہ تو، تو چڑھ جاتے ہیں نالے //  رُکتی ہے میری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور

دنیائے عرب کے حکمرانوں کی جمود زدگی، زراندوزی، سامراج پرستی اور حق دشمنی کا تلخ ترین پہلو یہ ہےکہ بیشتر مذہبی رہنما اس حوالے سے یا تو سکوت میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں یا ان ظالم و جابر ڈکٹیٹروں کی ہمنوائی میں اپنے مفادات کی تکمیل پاتے ہیں۔

کسی قوم و ملت کےلیے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہےکہ ارباب دین و مذہب اربابِ اقتدار کی پسند و ناپسند کے پیش نظر فتوے صادر کرتے ہوں۔ عالمِ اسلام سے تعلق رکھنے والے ارباب دانش نہ جانے کس طرح یہ زہریلے گھونٹ پی کر اُف تک نہیں کرپاتے ہیں کہ حرمِ پاک کے خرچے پر پلنے والے مفتیانِ عظام وقتاً فوقتاً قبلۂ اول کے غصبی قابض کی سلامتی کا اہتمام اپنے فتؤوں کے ذریعے کرتے ہیں۔

بہر کیف، دنیائے عرب کے عام انسان نے اپنے عیاش طبیعت حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔ اس انقلابی صورتِ حال کے متعلق یہ کہنا کس قدر مضحکہ خیز ہےکہ جوانانِ عرب اتفاقاً اسی انداز سے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کوئی شخص گہری نیند سے اپنے آپ ہی جاگ جائے۔ اس طرح کے تجزیے دراصل صہیونیت زدہ عالمی میڈیا کی ریشہ دوانیوں کا حصّہ ہے جس کا ہمیشہ سے اولین کاز یہی رہا ہےکہ دینِ محمدی کے تحریکی و انقلابی قوتوں کی مقبولیت اور کارناموں پر پردہ ڈال دیا جائے تاکہ امریکی اسلام کے شجر کو برگ و بار ملے۔

اس منطقی طریقہ کار کے تحت یہ دیکھنا ہوگا کہ عرب عوام کے انقلابی ریلے کا ہدف کیا تھا؟

کون سے عوامل و محرکات تھے جن سے دبے کچلے عام لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا؟

یہ ریلا بنیادی طور عربی آمریت، اسرائیل صہیونیت اور امریکی سامراجیت پر مبنی غیر فطری تثلیث کے خلاف فطری ردِ عمل ہے کیونکہ اس تثلیث نے سالہا سال سے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اس تثلیث کے خفیہ و آشکار منصوبے جب ہی طشت از بام ہوئے، جب سالہا سال سے اسلامی انقلاب، تحریک انتفاضہ فلسطین اور حزب اللہ لبنان پر مبنی باطل مخالف مثلث، مذکورہ تثلیث کے خلاف ڈٹا رہا۔ یہ مثلث ہی ہے جس نے وقتاً فوقتاً اسرائیل صہیونیت، امریکی سامراجیت، اور عرب کی آمریت کی روبائی کا سدِّ باب کیا۔

اس طرح کے تجزیہ و تحلیل کی روشنی میں بلا خوف و تردید ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی بیداری کا مظاہرہ ایک لہلہاتی فصل ہے جس کی تخم ریزی قریب چالیس سال قبل ایک مردِ بزرگ خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے کی تھی۔ نیز اس فصل کی نگہبانی گزشتہ تین دہائیوں سے ایران کی اعلیٰ روحانی قیادت کر رہی ہے اور اس وقت بھی عربی انقلاب کو صحیح سمت دینے کےلئے کوشان ہے۔

عوام کا جذبۂ قربانی اور جوشِ انقلاب اپنی جگہ اس طرح کی تحریکیں قد آور قائدوں پر بھی سو فیصد نہ سہی بہت حد تک انحصار رکھتی ہیں۔ قیادت کی عدمِ موجودگی اور مسلم امت کا “آمادۂ پیکار بہ باطل” ہونا اس امر کی صریح نشاندہی ہےکہ اس طرح کی تمام تحریکیں ولی الامر کی طرف راجع ہونی چاہئے تاکہ صاحبِ امر کے ظہور کی راہیں ہموار ہوں کلمۂ لااِلہ الا اللہ کے جھنڈے تلے جتنی بھی صالح تحریکیں معاصر دنیا میں ابھری ہیں ان تحریکوں کا مدعا و مقصد یہی ہےکہ ضمیر انسانیت سے مہدی موعود (عج) کی تحریک کا نقش محو نہ ہونے پائے۔

دنیا کو ہے اس مہدی (عج) بر حق کی ضرورت //  ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

http://urd.al-shia.org

تبصرے
Loading...