ایرانی گیارھویں حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا ہے

اسلام آباد – ارنا – پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ایران کے صدراتی انتخابات میں لوگوں کی پرجوش موجودگی اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کی علامت ہے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد صدراتي انتخابات ميں ايراني عوام کي بھرپور موجودگي اسلامي انقلاب پر ان کے اعتماد اور اس ملک کے ناقابل تسخير ہونے کي نشاندہي کرتي ہے۔

حسن عسکري رضوي نے کہا کہ اسلامي انقلاب، فوجي، سياسي، سائنسي اور اقتصادي شعبوں کي کاميابيوں کي وجہ لوگوں کي حمايت اور اعتماد پيدا کرتا ہے۔

پاکستاني تجزيہ نگار نے کہا کہ علاقائي اور بين الاقوامي دباؤ کے سامنے اسلامي جمہوريہ ايران کي حکومتيں اور لوگ مستحکم ہيں اور عوام کي حمايت کے ذريعے تمام بھاري دباؤ کے خلاف کھڑے ہو رہے ہيں۔

انہوں نے آئندہ صدارتي انتخابات اور دونوں ممالک کے درميان دوستانہ تعلقات کو جاري رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ايران کي آئندہ حکومت کے دور ميں بھي اسلامي جمہوريہ ايران اور پاکستان کے درميان دوطرفہ تعلقات جاري رکھيں گے اور حاليہ سرحدي واقعہ ان تعلقات پر کوئي اثر نہيں ڈالے گا۔

انہوں نے کہا کہ علاقائي اور بين الاقوامي مسائل کے حوالے سے ايران کا رويہ واضح ہے اور يہ ملک علاقائي مسائل کے حل کے لئے اہم کردار کا ادا کررہا ہے۔

انہوں نے مزيد کہا کہ ايراني گيارھويں حکومت کے دوران دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات اچھے سمت ميں آگے بڑھ رہے ہيں اور جوہري معاہدے کے بعد اقتصادي اور تجارتي تعلقات کو فروغ ملا ہے۔

پاکستان کو ایران کے سفارتی اقدامات کیساتھ تعاون کرنا چاہیے

يہ بات ‘جاويد حسين’ نے بدھ كے روز انگريزي زبان كے اخبار پر نشر ہونے والے ‘ايران اور پاكستان كے درميان كشيدگي’ كے عنوان سے اپنے مضمون ميں دونوں ممالك كے درميان حاليہ واقعات سميت مشتركہ سرحد پر دہشتگردانہ واقعے كا ذكر كرتے ہوئے كہا۔
انہوں نے كہا كہ بہتر ہے كہ پاكستان دونوں ممالك كے درميان باہمي تعلقات كو مضبوط بنانے اور دونوں ملكوں كے درميان كچھ مسائل كو حل كرنے كے لئے كسي بھي كوشش سے دريغ نہ كرے۔

پاكستاني سفارتكار نے اپنے مضمون ميں سعودي عرب كي قيادت ميں فوجي اتحاد كا ذكر كرتے ہوئے كہا كہ يہ اتحاد فرقہ وارانہ ہے اور اس كا مقصد امت مسلمہ كے اتحاد كو تقويت كے بجائے عالم اسلام كے درميان تنازعے اور اختلاف پيدا كرنا ہے اور واضح ہے كہ يہ اتحاد نہ صرف پاكستان ميں سياسي اور سماجي استحكام پر بلكہ بعض دوست ممالك كے ساتھ پاكستان كے تعلقات پر منفي اثرات مرتب كرے گا۔

انہوں نے دونوں ممالك كے درميان دوستانہ تعلقات بالخصوص سيكورٹي اور اقتصادي تعلقات كا حوالہ ديتے ہوئے كہا كہ تہران اور اسلام آباد كو ان باہمي دوستانہ روابط كے تحفظ كے ليے بھرپور كوششيں كرني چاہيں كيونكہ سياسي، اقتصادي اور سيكورٹي كے لحاظ سے يہ تعلقات دونوں ممالك كے ليے فائدہ مند ہوں گے۔

تبصرے
Loading...