امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۵

اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔

آج امام خمینیؒ سے عراقی ایجنسیوں کی ناکام ملاقاتوں کے بعد نجف اشرف میں امام خمینیؒ کی رہائشگاہ کو بعثی فورسز نے اپنے محاصرے میں لے لیا، لیکن امام خمینیؒ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ آخرکار بعث پارٹی کی سپریم کونسل (قیادۃ الثورۃ) نے امام خمینیؒ کو عراق سے نکال دینے کا حکم صادر کردیا۔

امام خمینیؒ نے کویت جانے کا ارادہ کیا، لیکن کویتی حکومت نے کئی گھنٹے تک لیت و لعل سے کام لینے کے بعد کویت میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ یوں امام خمینیؒ اور ان کے ساتھی مجبورا بصرہ واپس آگئے۔

فرانس میں امام خمینیؒ کا مختصر قیام یورپی مسلمانوں تک ان کے پیغام کو پہنچانے اور وہاں  سے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونے کےلئے مفید ثابت ہوسکتا تھا؛ فرانس جانے کی تجویز میں [سید احمد خمینی] نے پیش کی تھی۔ امام خمینیؒ نے اس تجویز پر غور و فکر اور دیگر ممالک کے بارے میں بحث و تمحیص کے بعد پیرس جانے کے عزم کا اظہار فرمایا۔

۱۵ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو امام خمینیؒ میرے اور اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ بغداد سے پیرس کیطرف روانہ ہوئے؛ چنانچہ امام خمینیؒ نے بھی اپنے وصیت نامے کے آخر میں صریحا فرمایا:

” کویت سے لوٹائے جانے کے بعد میں نے احمد کے مشورے پر پیرس جانے کا انتخاب کیا تھا، کیونکہ اس بات کا احتمال تھا کہ اسلامی ممالک میں داخلے کی اجازت نہ ملے۔ اسلامی ممالک شاہ کے زیر اثر تھے، لیکن پیرس کے بارے میں اس قسم کا خدشہ نہ تھا “

پیرس پہنچتے ہی حکومت کے نمائندوں نے امام خمینیؒ سے ملاقات کرکے ان کو باقاعدہ طور پر اس سرکاری فیصلے سے آگاہ کیا کہ انہیں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ امام خمینیؒ نے جس طرح عراقی حکام کو دو ٹوک جواب دیا تھا اسی طرح ان کو بھی جواب دیتے ہوئے فرمایا:

” ہمارا خیال تھا کہ یہاں کی صورتحال، عراق سے مختلف ہوگی۔ میں جہاں جاؤں گا اپنی بات کہے بغیر نہ رہوں گا۔ میں ایک ہوائی اڈے سے دوسرے ہوائی اڈے کیطرف اور ایک شہر سے دوسرے شہر کیطرف منتقل ہوتا رہوں گا تاکہ دنیا کو یہ بتا دوں کہ دنیا کے سارے ظالم اس بات پر اتفاق کرچکے ہیں کہ دنیا والے ہم مظلوموں کی آواز نہ سن سکیں، لیکن میں ایران کے بہادر عوام کی آواز دنیا تک پہنچا کر دم لوں گا۔ میں دنیا کو بتا دوں گا کہ ایران پر کیا بیت رہی ہے؟”

فرانسیسی حکومت کیطرف سے پابندی کے بعد ملک کے اندر اور باہر سے سیاسی و مذہبی شخصیتوں، انجمنوں، طالب علموں اور علماء کیطرف سے صدر جسکاردیستاں اور فرانسیسی حکام کے نام ٹیلی گرام اور خطوط کا تانتا بندھ گیا جن میں رہبر انقلاب کی سرگرمیوں کو آزاد رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امام خمینیؒ کی مقبولیت اور رائے عامہ کے دباؤ کے تحت فرانسیسی حکام کا رویہ عملی طور پر نرم ہوگیا؛ اگرچہ اس بات کا انہوں نے سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا۔

پیرس کے مضافات میں نوفل لوشاتو کے مقام پر امام خمینیؒ دن رات مصروف عمل تھے۔ آپ صرف چند گھنٹے استراحت فرماتے تھے۔ طالب علموں اور ملاقاتیوں کے سامنے امام خمینیؒ کی تقاریر، خبررساں ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل انٹرویوز اور ایران کے حالات سے متعلق آپ کے متعدد بیانات سے اسلامی انقلاب کی تحریک کو لحظہ بہ لحظہ رہنمائی مل رہی تھی۔

ان دنوں ایران اور اسلامی انقلاب سے متعلق امور، عالمی خبروں کی شہ سرخی بنے ہوئے تھی ایران کے اندر شریف امامی جو برطانیہ کا ایک قدیم مہرہ اور فری میشن کا داعی اعظم تھا، کی حکومت بھی امام خمینیؒ کے عزم راسخ اور عوامی حمایت کے باعث شاہ کی کوئی مدد نہ کرسکی۔

شریف امامی حکومت کے ۱۷ شہریور کے قتل عام، جامع مسجد کرمان کا المیہ، مارشل لا کا نفاذ اور مختلف شہروں میں وسیع پیمانے پر قتل عام جیسے واقعات پر امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کے نام پیغام میں فرمایا:

” اے کاش کہ خمینی آپ لوگوں کے ساتھ ہوتا اور خدا کی رضا کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرسکتا۔ اے ملت ایران یقین رکھےکہ جلد یا کچھ دیر وقت میں آپ ہی کامیاب ہوں گے”۔

شریف امامی حکومت کے خاتمے پر امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

” اے میرے عزیزو! صبر سے کام لو کیونکہ آخری فتح قریب ہے اور خدا صابروں کے ساتھ ہے”۔

جنرل ازہاری “قصاب تہران”، کابینہ بنانے پر مامور ہوا۔

محرم ۱۳۵۷۔ ۱۹۷۸ء کا مہینہ پہنچتا ہے؛ ایرانی قوم سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے مشن سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتی ہے؛ پہلی محرم کو امام خمینیؒ کے حامی علماء کی تجویز پر ایران کے طول و عرض میں لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر ” ﷲ اکبر ” ؛ ” شاہ مردہ باد ” کے نعرے لگاتے ہیں۔ فوجی حکومت کے فائرنگ سے کثیر تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوجاتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے اپنے پیغام میں فرمایا:

” وہ ملت اس عظیم ترین اور تاریخ ساز ہستی کے ماننے والے ہے جس نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں  کے ساتھ عاشور کے عظیم انقلاب کی بنیاد رکھی اور اموی سلسلہ حکومت کو ہمیشہ کےلئے صفحہ ہستی سے محو کر دیا۔

ایران کی عزیز ملت جو امام حسینؑ کی حقیقی پیروکار ہے اپنے خون کی سرخی سے پہلوی خاندان کی حکومت کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کردےگی اور اسلام کے پرچم کو پورے ملک بلکہ تمام دنیا میں لہرا کر دم لےگی”۔

امام خمینیؒ کے بیانات کے نتیجے میں آیت ﷲ طالقانی اور جامعہ روحانیت مبارز کی اپیل پر تہران میں نویں اور دسویں محرم کو عظیم مظاہرے ہوئے۔ خبررساں ایجنسیوں نے ان مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد تیس سے چالیس لاکھ کے درمیان بتائی۔ یہ مظاہرے درحقیقت امام خمینیؒ کی حمایت اور شاہ کی مخالفت میں ایک عوامی ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرگئے۔

جنرل ازہاری کے پاس ٹینکوں اور مشین گنوں کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جو حکومت کی طاقت کا مظہر ہو۔ فوجی حکومت نے اعلان کیا کہ ہڑتال کرنے والے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی جائےگی؛ امام خمینیؒ کے حکم سے ہڑتالیوں کی حمایت کےلئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

ان حالات میں امام خمینیؒ نے اپنے انٹرویوز میں اعلان کیا کہ جو شخص شاہ کے ساتھ مذاکرات کرے اور شاہی حکومت کی ذمہ داریوں کو قبول کرے وہ ملت کے ساتھ خیانت کرنے والا شمار ہوگا اور اس کے ساتھ مقابلہ کیا جائےگا۔

آخرکار امریکی صدر کے ساتھ تین یورپی ممالک (فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کے سربراہوں کی خفیہ ملاقاتوں کے بعد ان کی آخری امید کے طور پر “شاہ پور بختیار” کی نشاندہی ہوئی؛ لہذا جنرل ہایزر ایران آیا اور ایرانی آرمی فورسز کو منظم کرنے کی ذمہ داری خود سنبھالی۔

 

جاری ہے

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۱

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۲

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۳

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۴

امام خمینی کے انقلاب کا نقطہ عروج / ۶

تبصرے
Loading...