اسلامی انقلاب اور مظلوم کا دفاع

اسلام خود صلح و آشتی، امن و سلامتی، خیر و خوبی، انسانیت دوستی، امن پسندی اور خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام آدم سے لیکر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی (ص) تک اور آپ کے بعد آپ کے بارہ معصوم جانشینوں کا دین ہے، اس دین میں میں صدق و صفا، اخوت و برادری، بھائی چارہ ، حق و حقیقت، انصاف و عدالت، عزت و شرافت، ہمدردی اور مروت، عفت و پاکدامنی، پارسائی اور پاکیزگی، مساوات اور مواسات، یکسانیت اور برابری، خوبیوں کی تعریف و توصیف، برائیوں کی مذمت، نطفہ سے لیکر قبر تک کے سارے احکام پائے جاتے ہیں، اس دین میں ظلم و بربریت، جارحیت، استبداد، نفاق و دوری، مکاری، عیاری، خیانت و غداری، بے ایمانی اور ناانصافی، عرض کہ انسانی اخلاق و مروت کے خلاف امور کی نفی اور انکار کیا گیا ہے۔ یہ دین مکمل طور پر صلح و صفائی، عدل و انصاف کا دین ہے۔

امام خمینی (رح) کی نظر میں اسلام کا ظہور مستکبروں پر مستضعفین کی حاکمیت کے لئے ہے۔ جس وقت لوگ جہالت و نادانی، گمراہی  اور خرافات میں پڑے ہوئے تھے اور اپنی انسانی حیثیت و آبرو سے لاعلم و بے خبر تھے۔ دوسری طرف مستکبرین اور غارت کرنے والے لوٹنے کے لئے انہیں جہالت اور نادانی اور غفلت میں چھوڑ رکھا تھا اور ان کی بیداری سے گھبرائے ہوئے تھے، لوگوں کی علم و آگہی سے خوفزدہ تھے کیونکہ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر یہ بیدار ہوگئے تو پھر ہماری دال گلنے والی نہیں ہے اور ہم اپنا الو سیدھا نہیں کر سکتے اور ہمارے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔ لہذا انہیں جہالت و گمراہی کے تاریکی ہی میں رکھنا بہتر ہے۔ اسلام آیا اور اس نے مظلوموں اور ستمدیدہ عوام کو بیدار کردیا۔

امام خمینی (رح) کمزور طبقے کو تاکید کرتے تھے:

آپس میں متحد اور ایک ہوجاؤ، مستکبرین کے خلاف بغاوت اور شورش کرو، اپنے حقوق کو پامال نہ ہونے دو، (حدیث کی روشنی میں جس طرح ظلم کرتا گناہ اور بری صفت ہے اسی طرح ظلم سہنا اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا بھی گناہ اور ظلم ہے۔) ہر دور اور عصر میں لوگوں کو بیدار ہونا چاہیئے، انہیں اپنے حقوق کی شناخت کرنی چاہیئے۔ انسانیت کے حقوق سے آشنا ہونا چاہیئے اور ان حقوق کو پامالی سے بچانے کے لئے ہرتدبیر اور اقدام کرنا چاہیئے ورنہ اپنی قسمت کو بگاڑنے کا خود ذمہ دار ٹھہرنا ہوگا۔ جو قوم کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرے دوسرے کے حقوق کو پامال کرے اور اپنے حقوق پر آواز نہ اٹھائے وہ ظالم و ستمگر قوم ہے۔ اس سلسلہ میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے. یہاں مصلحت اندیشی کو گوشہ عافیت میں بیٹھے رہنے کا جواز نہیں مل جائے گا۔ اگر کسی جگہ پر انفرادی حق پامال نہیں ہورہا ہے لیکن اجتماعی اور غیر کا حق پامال ہو رہاہے تو وہاں پر ایک انسان اور ایک مسلمان کو آواز بلند کرنا چاہیئے ورنہ گنہگار بھی ہوگا اور اس کا دنیاوی اور اخروی انجام بھی برا ہوگا۔

انسانوں کے مسئلہ میں یہ کہہ کر شانہ خالی نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں کا مسئلہ ہے ہم سے کیا مطلب بالکل آپ سے مطلب ہے، اس طرح کے مسائل سے آپ کی جان بچنے والی نہیں ہے۔ اسلام نے کسی کو لا پرواہی کرنے اور کسی کے حق سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو انفرادی حقوق کی بھی بازگشت اجتماعی حقوق کی طرف ہوئی ہے کیونکہ اس کا اثر اجتماع اور سماج پر پڑتا ہے اور فرد سے مل کر سماج بنتا ہے۔ اسلام و قرآن کی روشنی میں ظلم و گناہ اور بری صفت ہے۔ اس میں ظلم و زیادتی، لوٹ مار کی نفی و انکار ہے۔ انسانی تعلیم و تربیت کے لئے ہے اور تمہارے ملک کو استقلال و آزادی دلانے کے لئے ہے اور یہ خدا کی طرف سے عطا کیا گیا ہے وہ الہی نظام ہے اور اس سے بالاتر اسلامی و دینی حکومت اور نظام ہے۔ اس نظام حکومت میں انسان اور انسانیت ہر طرح سے محفوظ ہے۔ اس میں ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہیں ہوگی۔

تبصرے
Loading...