یکسانیت

ظاہر کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ظاہر اچھا ہوگا تو ہی باطن کی اچھائی تک رسائی ہوگی، کسی کا لباس صاف ستھرا ہوگا تبھی وہ صفائی پسند کہلائے گا، گھر باہر سے خوبصورت ہوگا تو مالک کی نفیس طبیعت کا ادراک ہوگا، بات چیت سے مزاج کا اندازہ ہو جانا معمولی بات ہے، تو یہ طے ہے کہ ظاہر کی بدولت ہی باطن کا اندازہ لگایا جاتا ہے، لیکن دونوں کا آپس میں ہماہنگ ہونا نہایت ضروری ہے۔

یکسانیت

کسی کےباطن کو جانے بنا اس کے ظاہر سے متاٖثر ہونے والا انسان بہت نقصان اٹھاتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے انسان اس دنیا کے ظاہری حسن سے دھوکا کھا کر آخرت کو بھول جاتا ہے اور پھر دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا، اس دنیا کی سب سے بڑی دلدل دکھاوا ہے، اس لیے خود کو اس سے بچا کر رکھیں، ظاہر پر مت جا ئیں باطن کو سمجھیں،لوگوں کو ان کی باتوں اور چہرے سے نہیں بلکہ انکو انکے عمل سے پہچانیں، امام باقر(ع) فرماتے ہیں: مَنْ كَانَ ظَاهِرُهُ أَرْجَحَ مِنْ بَاطِنِهِ خَفَّ مِيزَانُهُ؛ جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہوگا، اس کی میزان ہلکی ہوگی۔ [مشکاة الأنوار، جلد 1، صفحه 226] گویا پہلے باطن ٹھیک ہونا چاہیئے کیونکہ  باطن ہی حقیقت ہے، جب تک باطن درست نہیں ہوتا ظاہر کبھی ٹھیک نہیں ہوتا، باطنی درستی کے بغیر جو ظاہر آراستہ اور خوبصورت نظر آئے وہ محض فریب اور ریاکاری ہے، ایک انسان کی بھلائی مقصود ہو یا پورے معاشرے کی‘ جب تک اندر سے درستی نہیں ہوگی ظاہری درستی ممکن ہی نہیں اور اگر اتفاقاً ہو بھی جائے تو وقتی اور عارضی ہوگی کیونکہ بہرحال ہر ایک کے باطن کو ہی ظاہر ہونا ہے، اور جب خباثت ہوگی تو اچھی چیزوں تو باہر آنے سے رہیں اس لیے سب سے پہلے اپنے باطن کو سجانے اور سنوارنے کی ضرورت ہے.
منبع: مشکاة الأنوار في غرر الأخبار، علی بن حسن بن فضل طبرسی،کتابخانه حیدریه،۱۳۸۵ق۔

 

تبصرے
Loading...