یتیم کی سرپرستی

خلاصہ: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیردینے سے اسکے حقوق اداء نہیں ہوتے بلکہ یتیم کی روزمرہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنا تمام مسلمانوں کا فریضه ہے۔

یتیم کی سرپرستی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام کے احکام میں سے ایک حکم یتیموں پر رحم کرنا ہے، خداوند متعال نے یتیموں پر رحم کرنے کے بارے میں بہت تاکید کی ہے، مولائے کائنات حضرت علی(علیہ السلام) اس  کے بارے میں اس طرح فرما رہے ہیں: «الله، الله بالایتام، فلا تغبوا افواههم ؛خدا کے لئے یتیموں کے بارے میں ہوشیار رہو، ایسا نہ ہو کہ وہ کبھی بھوکے اور کبھی سیر(پیٹ بھر) رہ جائے»[نھج البلاغہ، ص:۴۲۱]، اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یتیم کی اہمیت کے بارے میں اس طرح فرما رہے ہیں: «خیر بیوتکم بیت فیه یتیم یحسن الیه و شر بیوتکم بیت یساء الیه؛ جس گھر میں یتیم پر شفقت اور احسان کیا جائے وہ سب سے اچھا گھر ہے اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بداخلاقی کی جائے»[مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،ج۲، ص:۴۷۴].
     یتیموں پر رحم اور شفقت کرنےکے سلسلہ میں بہت زیادہ  احادیت ہیں، ان احادیت سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صرف یتیم کے سر پر ہاتھ پھیردینے سے اسکے حقوق اداء نہیں ہوتے بلکہ یتیم کی روزمرہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنا تمام مسلمانوں کا فریضه ہے، بالخصوص ہم، جو اپنے آپ کو  معصومین(علیہم السلام) کا پیروکار اور چاہنے والا کہتے ہیں، کیونکہ ہم مولائے کائنات کی سیرت میں دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے یتیموں کی سرپرستی کیا کرتے تھے، خدا ہم سب کو  یتیموں کے حقوق اداء کرنے کی توفیق عطا فرمائے
*نھج البلاغہ، محمد ابن حسین شریف الرضی، ھجرت، ۱۴۱۴ق،ص۴۲۱۔
*مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، حسین ابن محمد تقی نوری، ج:۲، ص:۴۷۴، مؤسسہ آل البیت (علیہم السلام)، ۱۴۰۸ق۔

تبصرے
Loading...