گدائی کی مذمت

گدائی کرنا یا بھیک مانگنا،لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا،غیرت وحمیت کے خلاف ہے اس سے خودداری ختم ہو جاتی ہے انسان کاہل اورکام چور ہو جاتا ہے سب کی نگاہوں میں حقیر ہو جاتا ہے، اس لیے اس کام سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، ہمیں معاشرہ میں کوشش کرنی چاہیے کہ ایسا موحول ہی پیدا نہ ہونے دیں اور کسی کو مانگنے پر مجبور ہونا پڑے۔

گدائی کی مذمت

ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ مانگنے کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں خاص طور پر ماہ رمضان میں ایک پورا قافلہ نکل پڑتا ہے باوجودیکہ گھر بھرا ہوا ہوتا ہے ،کسی چیزکی ضرورت نہیں ہوتی ،اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہوتا ہے،جسم تندرست و توانا ہوتا ہے ہاتھ پاوں میں کمانے کی طاقت بھی ہوتی ہے مگر بھیک مانگنے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر ہر ادارے میں پہنچے رہتے ہیں،عزت نفس کو بیچ کر، ڈانٹ ڈپٹ سن کر،جھڑکیاں برداشت کر کے، جھوٹے سچے بہانے بنا کر، روپ بدل کر، خود کو بیمار اور اپاہج ظاہر کر کے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، امام باقر(ع) فرماتے ہیں: لَوْ يَعْلَمُ اَلسَّائِلُ مَا فِي اَلْمَسْأَلَةِ مَا سَأَلَ أَحَدٌ أَحَداً وَ لَوْ يَعْلَمُ اَلْمَسْئُولُ مَا فِي اَلْمَنْعِ مَا مَنَعَ أَحَدٌ أَحَداً؛ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ گدائی میں کیا(برائی) ہے تو کوئی کسی سے سوال نہ کرے اور اگر مسؤل(جس سے سوال کیا گیا ہے) کو دینے کا فائدہ معلوم ہوجائے تو کوئی کسی کے سوال کو رد نہ کرے۔[تحف العقول، جلد 1، صفحه 300] حدیث میں معاشرے کے دونوں پہلؤں کو مدّ نظر رکھا گیا ہے یعنی نہ کوئی مانگے اور نہ ہی ایسی نوبت آئے کہ کسی کو مانگنے کی ضرورت پڑے، اسکا مظلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس دھیان رکھنا چاہیئے تاکہ کوئی محتاجی کی زندگی گذارنے پر مجبور نہ ہو اور حتیٰ الامکان اسکی مدد کی جائے تاکہ یہ وبا ہمارے معاشرے میں پیدا ہی نہ ہو، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم ان گدائی کرنے والے کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیں، ان کی مدد کر کے انہیں روزی روٹی خود سے کمانے پرلگادیں۔پیشہ ور فقیروں،برادری کے نام پر مانگنے والوں اور ایسے لوگوں کو بھیک ہر گز نہ دیں جو تندرست و توانا ہوں،کمانے کھانے کے لائق ہوں،گھر بھرا ہوا ہو،کسی طرح کی محتاجگی نہ ہو کیونکہ ایسے لوگ اصل حقداروں کے مال پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں۔اس لئے تھوڑی کوشش اور محنت کر کے ان لوگوں کوڈھونڈ کر صدقات وغیرہ دینا چاہیے جو سفید پوش ہیں باوجود غریب وفقیر ہونے کے، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تا کہ بھیک مانگنے کی حوصلی شکنی ہو اور اصل حق دار تک اس کا حق پہنچ جائے۔
منبع: تحف العقول عن آل الرسول علیهم السلام، الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة الحراني، مؤسسة الأعلمي-بيروت،1423هـ-2002م

 

 

تبصرے
Loading...