نازیبا عمل کا معیار اور شرم و حیا کا موقع

خلاصہ: اس مضمون میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ کسی عمل کے نازیبا ہونے کا معیار شریعت اور معاشرہ دونوں ہیں، مگر کچھ فرق ہے، اور نازیبا عمل کے ارتکاب سے انسان کو حیا کرنا چاہیے۔

نازیبا عمل کا معیار اور شرم و حیا کا موقع

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال یہ ہے کہ کسی عمل کے نازیبا ہونے یا اچھے ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور کیا یہ شرعی مسئلہ ہے یا عرفی (عرفی یعنی جو عرف عام اور معاشرے کی ثقافت ہو)؟ کیا نازیبا عمل وہ ہے جسے شریعت نازیبا کہے یا معاشرے کا نظریہ بھی اس پر اثرانداز ہے؟
جواب یہ ہے کہ جو عمل شرعی لحاظ سے نازیبا ہو وہ بھی قابلِ شرم ہے اور جو عمل عرفی طور پر اور معاشرے کی نظر میں نازیبا ہو وہ بھی لائق شرم ہے۔
شرعی لحاظ کے لئے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی یہ حدیث ہے: إنَّ المُؤمِنَ يَستَحيي إذا مَضى لَهُ عَمَلٌ في غَيرِ ما عُقِدَ عَلَيهِ إيمانُهُ، “یقیناً مومن حیا کرتا ہے جب اس کے ایمان کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو”۔ [غررالحكم، ح 3463]
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی حدیث میں دونوں لحاظ (شرعی اور عرفی) کا تذکرہ ہوا ہے۔ آپؑ نے چار چیزوں کو مسلمان ہونے کے کمال کا باعث بتایا ہے: اللہ کے عہد کو پورا کرنا، سچائی، حیا اور خوش مزاجی اور حیا کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں: وَالحَياءُ مِمّا يَقبُحُ عِندَ اللّه ِ وعِندَ النّاسِ، “اور حیا اس چیز سے جو اللہ کی بارگاہ میں اور لوگوں کی نظر میں قبیح (نازیبا) ہے”۔ [الأمالى، مفيد، ص 167]
بنابریں نازیبا عمل کو دو ذرائع سے پہچانا جاسکتا ہے: شریعت کے ذریعے اور معاشرے کی ثقافت کے ذریعے۔ لیکن واضح رہے کہ ثقافتی اچھا عمل اور نازیبا عمل کو شریعت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے اور معاشرے کی ثقافت کے بہانے سے شریعت کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتا، ایسے موقع پر ثقافت کی اصلاح کرتے ہوئے اسے شریعت کے مطابق اپنانا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ]

تبصرے
Loading...