معاشرے کی ثقافت کا انسان کی تہذیبِ نفس پر خاص اثر

خلاصہ: انسان کی توجہ رہنی چاہیے کہ کیسے معاشرے میں اور کیسی ثقافت میں زندگی بسر کررہا ہے، کیونکہ جیسی ثقافت ہو ویسا اثر انسان پر پڑتا ہے۔

معاشرے کی ثقافت کا انسان کی تہذیبِ نفس پر خاص اثر

   ثقافت ان امور کا مجموعہ ہے جن سے انسان کی سوچ بنتی ہے اور ان کے ذریعے مختلف مسائل کی طرف بڑھنے کے لئے رغبت پیدا ہوتی ہے۔
   عقائد، تاریخ، معاشرے کے رسم و رواج اور ادب و فن معاشرے کی ثقافت ہے۔ ان میں سے ایک، معاشرے کی رسم و رواج، عادات اور تاریخ ہے جو اگر اچھے صفات پر قائم ہو تو انسان کے اعلیٰ صفات کی ترقی اور تہذیب نفس کے لئے بہت فائدہ مند ہے اور اگر برے صفات سے جنم لے تو ماحول کو برے صفات اپنانے کے لئے بالکل تیار کردیتا ہے۔
   قرآن کریم میں اس بارے میں بہت واضح نکات ملتے ہیں جن سے سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سابقہ بہت ساری اقوام کس طرح غلط رسم اور جاہلی رواج اور پست اور گِری ہوئی ثقافت کی وجہ سے، اخلاقی برائیوں کے خوفناک بھنور میں غرق ہوگئے، جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت ۲۸ میں ارشاد الٰہی ہے: وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ”، “اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور خدا نے (بھی) ہمیں یہی حکم دیا ہے اے رسول کہیئے کہ یقینا کبھی اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ پر ایسی بات کی تہمت لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے؟”۔
   سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۰ میں ارشاد الٰہی ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ”، “اور جب ان (کفار و مشرکین) سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے اتارا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ، دادا کو پایا ہے اگرچہ ان کے باپ، دادا بے عقل ہوں اور راہ راست پر بھی نہ ہوں (تو پھر بھی انہی کی پیروی کریں گے)”۔
   لہذا جس قوم کی جو ثقافت بھی ہو اسی کے مطابق اس قوم کے اخلاقی اچھے یا برے صفات بنتے ہیں۔ اچھی ثقافت، اچھے صفات کو پروان چڑھاتی ہے اور بری اور پست ثقافت، برے صفات کو جنم دیتی ہے یہاں تک کہ بری ثقافت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے اور ایسی گمراہی کا باعث بن جاتی ہے کہ اس کی قباحت ختم نہیں ہوتی، بلکہ اگلی نسلیں اسے فخر شمار کرتی ہیں۔ بنابریں انسان کی توجہ رہنی چاہیے کہ کس معاشرے میں کس ثقافت کے مطابق زندگی بسر کررہا ہے۔

* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج۱، ص۱۸۵۔

تبصرے
Loading...