عبادتِ الٰہی میں خلوص و معرفت

خلاصہ: بندگانِ خالص، خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     قرآنِ مجید میں، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیت اور امتیاز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا؛خدائے رحمان کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی راتیں پروردگار کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ [سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۴] یعنی یہ لوگ خدا سے انتہائی قریبی اور مضبوط عبادی تعلق رکھتے ہیں اسی گہرے تعلق کا نتیجہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے نرم اور گرم بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے رازونیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور سجودوقیام کے ذریعے، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے عاجزی اور انتہائی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔جس وقت غفلت شعار لوگ گہری، میٹھی نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اور ایک ایسے وقت جب ریا اور خودنمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس وقت خدا کے یہ مخلص بندے اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس سے بھی زیادہ لذت آور شئے، یعنی خدا کے ذکر اور اس کی عظیم بارگاہ میں قیام وسجود میں مشغول ہوجاتے ہیں، خدا کے ساتھ اپنے روحانی اور عرفانی بندھن کو مضبوط ومستحکم کرتے ہیں، توحید کے بے کنار سمندر میںغوطہ ورہوکے، یکتاپرستی کے جام سے مست ہوکر اپنے قلب کو عشقِ حقیقی سے آشنا کرتے ہیں اور اپنی روح کی تشنگی اور پاکیزہ اور تشنہ توحید فطرت کو چشمہ توحید سے سیراب کرتے ہیں۔
حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:
ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں:رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ؛بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے۔اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔ پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ ) پیش آیا تھا۔ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے۔[اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱]
ماخذ:کلینی،اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱۔

تبصرے
Loading...