زیادہ بولنے کی عادت، لائقِ مذمت

خلاصہ: اگر زیادہ بولنے کی عادت پڑجائے تو اس عادت کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسی عادت لائق مذمت ہے۔

زیادہ بولنے کی عادت، لائقِ مذمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب آدمی بولتا ہے تو بولنے میں لذت پائی جاتی ہے، اگر آدمی اس بات پر توجہ نہ کرے کہ اسے کم اور ضرورت کے مطابق بولنا چاہیے تو وہ اپنی باتوں کو جاری رکھے گا اور جب تک کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، وہ خاموشی اختیار نہیں کرے گا، ایک بات سے دوسری بات اور دوسری سے تیسری بات نکلتی آئے گی اور وہ بھی بولتا رہے گا۔ رفتہ رفتہ یہ اس کی عادت پڑ جائے گی اور جب بات کرنا شروع کرے گا تو نہ ضرورت کو دیکھے گا، نہ سننے والے کو اور نہ ماحول کو، بلکہ صرف اپنی عادت کو پورا کرے گا تو لوگ اس سے بات کرنے سے پرہیز کریں گے۔
عادت ایسی کیفیت ہے جو کسی کام کو اگر کئی بار دہرایا جائے تو آہستہ آہستہ ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ آدمی کو اس کام کی عادت پڑجاتی ہے۔ عادت کو ابتدا میں روکنا آسان ہے، لیکن اگر اس کی جڑیں مضبوط ہوگئیں تو پھر اسے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے، اگر عادت کو ابتدا میں چھوڑنا مشکل محسوس ہو تو یقین کرلینا چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد اسے چھوڑنا ابتدا سے بڑھ کر زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
حتی ابتدا میں عادت کو چھوڑنے سے زیادہ آسان اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی باتوں، کاموں اور سوچوں کا خیال رکھے کہ اگر کوئی بات یا کام یا سوچ ضرورت سے بڑھ جائے تو عادت میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہے۔ اگر بات یا کام ضرورت کے مطابق ہو تو کیونکہ کبھی تھوڑا بولنے کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی کچھ زیادہ بولنے کی، تو اسی لیے ضرورت سے زیادہ کی عادت نہیں پڑتی جو لائقِ مذمت ہو، البتہ جب آدمی کسی بات یا کام کو ضرورت کے مطابق کرے تو یہ عادت پڑسکتی ہے کہ “ہمیشہ ضرورت کا خیال رکھے”، تو ایسی عادت اچھی عادت ہے جو لائق تحسین بھی ہے۔ مگر اس “اچھی عادت” کو اپنانے کے لئے بہت ہی محنت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے
Loading...