ذکر کی مقدار اور کیفیت

خلاصہ: خدا کو یاد کرنے کا ایک طریقہ اس کا ذکر کرنا ہے، ذکر یعنی خدا کو یاد کرنا اگر ذکر صرف زبان کی حد تک محدود ہے تو اس کے اثرات کبھی بھی ظاھر نہیں ہو سکتے۔

ذکر کی مقدار اور کیفیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     کمیت یعنی کسی چیز کا کم یا زیادہ ہونا اور کیفیت یعنی کسی چیز کا اچھا یا برا ہونا، دونوں کی مختلف اعتبار سے مختلف مقامات پر اپنی ایک خاص اہمیت ہے، عام طور پر کسی چیز کو دیکھا جائے تو جو افراد ظاہر بین ہوتے ہیں وہ لوگ کمیت کو دکھتے ہیں، وہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ چیز یا وہ کام وغیرہ کم ہے یا زیادہ ہے، لیکن جو افراد صرف ظاہری طور پر کسی چیز کو نہیں دیکھے بلکہ ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کی کیفیت پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے وہ اس فعل کو کس طرح انجام دیرہا ہے اگر چہ کہ وہ کمیت کے اعتبار سے کم ہی کیوں نہ ہو اس کو دیکھتے ہیں، خدا وند متعال بھی ہمارے تمام امور کو کمیت کے اعتبار سے نہیں دیکھتا بلکہ کیفیت کے اعتبار سے دیکھتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز میں خلوص کتنا پایا جاتا اس کی نظر میں زیادوہ عبادتیں معیار نہیں ہے بلکہ اس کی نظر میں یہ  اہم ہے کہ وہ عبادتوں کو کس طرح  اور کس کے لئے انجام دیرہا ہے جس کے بارے  میں امام محمد باقر(علیہ السلام) او طرح فرمارہے ہیں: «مَا مِنْ شَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ عَمَلٍ يُدَاوَمُ عَلَيْهِ وَ إِنْ‏ قَلَ[۱] خداوند متعال اس فعل کو بہت پسند کرتا ہے جس میں استمرار پایا جائے اگر چہ کہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو».
     خداوند متعال قرآن مجید میں ذکر کی مقدار اور کیفیت کو بھی بیان کررہا ہے : «یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُ وا اﷲَ ذِکْراًکَثیراً[سورۂ احزاب، آیت:٤١] ؛ اے ایمان والو! اللہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ کیا کرو»، اس آیت میں ذکر کی زیادتی پر تاکید کی گئی ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک حد معین کی گئی ہےحتی نماز کے لئے بھی ایک حد معین کی گئی ہے، ہر مکلف بالغ کے لئے دن رات میں پانچ مرتبہ سترہ رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور واجب نمازوں کے دو برابر نماز نافلہ پڑھنا مستحب ہے اور حج کے لئے کہا گیا ہے کہ ہر بالغ مسلمان کیلئے طاقت اور مالی استطاعت کی صورت میں عمر بھر میں ایک بار واجب کیا گیا ہے، اس بنا پر ہر چیز کے لئے ایک حد مقرر ہوئی ہے لیکن خدائے متعال کے ذکر کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، انسان جس قدر ذکر الٰہی کرے پھر بھی وہ کم ہے لیکن یہ ذکر صرف زبان کی حد تک محدود نہ ہو بلکہ زبان سے عبور کرکے دل بھی زبان کے ساتھ ساتھ ذکر میں مشغول ہو۔ 
     ذکر کی کیفیت کے بارے میں بہت سی آیات و روایات بیان ہوئی ہیں جن میں سے ایک آیت یہ ہے جس میں خداوند متعال ذکر کی کیفیت کو بیان کررہا ہے: «فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فاذْکُرُوا اﷲَ کَذِکْرِکُمْ آبَائَکُمْ اَوْ اَشَدُّ ذِکْراً[سورۂ بقرہ، آیت:٢٠٠]  پھر جب سارے مناسک تمام کر لو تو خدا کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ»۔
     اس آیت میں خدا زیادہ ذکر کرنے کے بارے میں نہیں فرمارہا ہے بلکہ ”واکثرذکراً”  یعنی خدائے متعال کوزیادہ شدت سے یاد کرو یہاں پر ذکر کے کم یا زیادہ ہونے کے بارے میں بیان نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے ضعف و شدت کو بیان کیا گیا ہے اور یہ لفظی اور زبانی ذکر سے مربوط نہیں ہے  مقصود یہ نہیں ہے کہ مثلاً ”لا الہ الا اللّٰہ ”کو غلیظ صورت میں تلفظ کیا جائے بلکہ یہ شدت اور ضعف توجہ قلبی سے مربوط ہے۔
علامہ طباطبائی اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
     جاہلیت کے زمانہ میں عربوں کی یہ رسم تھی کہ اعمال حج بجالانے کے بعد منیٰ میں شعر و نثر کے ذریعہ اپنے آباء و اجداد کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن اسلام کے بعد خدائے متعال نے حکم دیا کہ اس رسم کو ختم کرکے اس کی جگہ پر خدا کے ذکر کو بجالایا جائے اور خدا کو یاد کیا جائے۔
     اس آیت میں ذکر کو ”شدت” کے طور پر بیان کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ذکر مقدار کے لحاظ سے اضافہ ہوتا ہے اسی طرح کیفیت کے لحاظ سے بھی بڑھتا رہتا ہے،  اس کے علاوہ ذکر صرف زبان سے کسی چیز کے ورد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک قلبی امر ہے جو حضور قلب سے انجام پاتا ہے اور لفظ اس کو بیان کرتا ہے۔
     ہم ذکر کو  صرف لفظی ذکر میں منحصر کردیتے ہیں اور  جب ذکر کی تاکید کی جاتی ہے تو ہم یہ خیال کرتے ہیں ذکر  یعنی صرف زبان سے ”الحمد للہ” یا ”تسبیحات اربعہ” وغیرہ کے پڑھنے کا نام ہے جبکہ یہ سب کلمات ذکر کی حکایت کرتے ہیں اور حقیقت میں جس ذکر کی تاکید کی گئی ہے وہ خدا کو یاد کرنا اور خدا کی جانب قلبی طور پر متوجہ ہونا ہے۔ یعنی انسان فریضہ اور تکلیف انجام دیتے وقت خدا کی یاد میں غرق ہو جائے تاکہ خدا کے حضور کو احساس کرتے ہوئے اپنا فریضہ انجام دے اور اسی طرح گناہ کو ترک کرتے وقت بھی خدا کی یاد میں ہو  تاکہ اس کے حضور کا احساس گناہ سے پرہیز کرنے کا سبب واقع ہو، ذکر لفظی کا ذکر قلبی سے اور لفظ کا معنی سے رابطہ میوہ کے چھلکے کا اس کے مغز کے ساتھ رابطہ کے مانند ہے، حقیقت میں لفظی ذکر قلبی ذکر کا ایک لباس ہے اور قلبی ذکر اس کا مغز ہے لہذا لفظی اذکار  مقدمہ ہے قلبی ذکر کا اور ہم کو ذکر کرتے وقت اس بات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے[۲]۔
     روایتوں میں اذکار کی مقدار اور اس کے اوقات کو اسی لحاظ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان اس مقدار اور اس وقت خدا کی طرف اپنی فکر کو مرکوز کرسکے۔
نتیجہ:
     ہم کو ذکر کرتے وقت اس بات کی جانب متوجہ رہنا چاہئے کے زیادہ ذکر اہم نہیں ہے بلکہ خدا کو کس طرح یاد کیا جارہا ہے وہ اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد بن يعقوب‏ كلينى، كافی، ج۲، ص۸۲، تهران، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ق‏۔
[۲] سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۸۰، دفتر انتشارات اسلامی جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۴۱۷ھ ق۔

تبصرے
Loading...