دوسری قوموں میں قربانی اور اسلام

 

            کائنات کے سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے قربانی کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ  قربانی کرنا اور اللہ کی راہ میں ایثار و فداکاری، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، اس لئے کہ  قرآن کریم کے بیان کے اعتبار سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے۔جیسا کہ قرآن کریم کےسورہ حج کی ۳۴ویں  آیت میں ارشاد ہوتاہے: ’’  اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں اور تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو‘‘(۱) اسی بات کو ادامہ دیتے ہوئے خدا وندسورہ حج ہی کی ۶۷ویں  آیت میں ارشاد فرماتا ہے: ’’  کہ ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں ‘‘(۲) جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ان آیات سے مراد قربانی ہے یعنی جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رائج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
            قرآن کریم کے مطابق پرانی قومیں قربانی کے عنوان سے  اپنے بچوں کوذبح کرتی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام  بھی اسی عمل کو منسوخ کرنے کے لئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے بڑھے تھے، اس بات کو خداوند قرآن کریم میں اس طرح ترسیم فرماتا ہے’’ پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘(۳) پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا تا کہ اسماعیل کو قربان کریں کہ حکم خدا سے دنبہ آجاتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل کے بجائے دنبہ کو ذبح کردیتے ہیں۔
            ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :’’کہ ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں بے شک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے ‘‘(۴) اگر چہ حضرت ابراہیم نے کامل طور سے اس عمل کو تبدیل کرنے کے لئے پہلے خداوند عالم سے حکم حاصل کیا تاکہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کریں اور حضرت اسماعیل بھی قربانی کے حکم میں تسلیم ہوگئے اور اپنی رضایت کا اعلان کیا یہاں تک کہ حضرت اسماعیل نے قربان ہونے کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیا لہذا حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے ایمان و خلوص کے درجات کے آشکار ہونے کے بعد خداوند عالم نے حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ بھیج دیا ۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)سورہ حج آیت ۳۴۔
(۲)سورہ حج آیت ۶۷۔
(۳)سورہ صافات آیت ۱۰۲۔
(۴)صافات آیت۱۰۴ و ۱۰۵۔

تبصرے
Loading...