دوسروں پر تنقید کرنا اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے

خلاصہ: اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے دوسروں پر تنقید کرنا صحیح کام نہیں ہے، بلکہ دوسرے عیبوں کے علاوہ یہ خود بھی ایک عیب ہے جس کے بارے میں اپنی صلاح کرنی چاہیے۔

دوسروں پر تنقید کرنا اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے

جو آدمی اپنی اصلاح نہیں کرنا چاہتا اور طرح طرح کے عیب اور غلطیاں اس سے سرزد ہوتی ہیں تو وہ اپنی ان غلطیوں کو چھپانے کے لئے لوگوں کی غلطیوں کو پکڑ لیتا ہے، ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو ان پر تنقید کرتا ہے اور اس کی غلطی دوسروں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح سے اس کی اپنی غلطیاں چھپ جائیں گی، لیکن یہ اس کی غلط فہمی ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ لوگ مختلف حالات میں اس کی غلطیوں کو سمجھ جاتے ہوں مثلاً اس کے جھوٹ کو، مگر لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اس بات کا اظہار نہ کرتے ہوں۔
حضرت امام علی (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: “ألكِذْبُ عَيْبٌ فاضِحٌ”، “جھوٹ بدنام کرنے والا عیب ہے”۔ [غررالحکم، ص۳۷، ح۶۰۵] کیونکہ عموماً جھوٹ کچھ وقت کے بعد ظاہر ہوجاتا ہے اور جھوٹ بولنے والا آدمی لوگوں میں بدنام اور ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
یہ تنقید کرنے والے آدمی کا اپنا ضمیر اس کی ملامت کررہا ہوتا ہے کہ یہ عیب تو تمہارے اپنے اندر بھی پایا جاتا ہے، اگر دوسروں میں یہ غلطی دیکھنا تمہیں پسند نہیں تو تم خود اس کا شکار کیوں ہو؟! لیکن وہ اپنے ضمیر کی اس آواز کے سامنے بہرا پن اختیار کرلیتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اپنے عیب کو عیب ہی نہیں جانتا، مگر لوگوں میں اس عیب کو ضرور عیب سمجھتا ہے۔
مثلاً اگر اسے کوئی جھوٹ بولے تو وہ دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ فلان آدمی جھوٹ بولتا ہے اور اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، جبکہ یہی شخص خود جھوٹ بولتا ہے تو مختلف بہانوں سے اپنے جھوٹ کو صحیح اور ضرورت کے مطابق سمجھ لیتا ہے، یہاں تک کہ اس کی نظر میں جھوٹ کی کوئی قباحت ہی باقی نہیں رہتی جو قباحت اسے اس گناہ سے روک سکے۔ حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “عِلّةُ الكذبِ أقبَحُ عِلّةٍ، “جھوٹ (بولنے) کی بیماری سب سے زیادہ قباحت والی بیماری ہے”۔ [بحارالانوار، ج۷۷، ص۲۱۴]
ایسے آدمی کو چاہیے کہ اپنے عیب کو ختم کرے چاہے دوسروں میں وہ عیب ہو یا نہ ہو اور چاہے دوسروں کی اصلاح کی ضرورت ہو یا نہ ہو، کیونکہ دوسروں کی اصلاح سے اپنی اصلاح زیادہ اہم ہے۔

* غررالحکم، آمدی، ص۳۷، ح۶۰۵۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، مؤسسةالوفاء، ج۷۷، ص۲۱۴۔

تبصرے
Loading...