دوستی اور دشمنی کا پیمانہ

 مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ خداوند سبحان ہے اس لئے وہ ہمیشہ ہوشیار اور بیدار رہتا ہے، اپنے سارے راز، دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا کہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف، نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔

دوستی اور دشمنی کا پیمانہ

نفرت کے اظہار میں حد سے گزر جانا مومن کا شیوہ نہیں، اس دنیا میں امکانات کا وسیع میدان ہے، حالات و واقعات نفرت دور کرسکتے ہیں اور مفادات دشمنی کو دوستی میں بدل سکتے ہیں، دشمنی کے دوستی میں تبدیل ہونے سے زیادہ امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ دوستی، دشمنی میں تبدیل ہوجائے کیونکہ توقعات اور امیدیں ٹوٹنے سے دل دکھتے ہیں،دوستی کے بارے میں جو حدود و قواعد شریعت نے نافذ کئے ہیں دوستی ان کے اندرہی رکھنا ایمان کی تکمیل ہے، دوستی اور محبت  بھی حلال اور حرام ہوتی ہے، حلقہ احباب کی بنیاد اللہ کیلئے اور اللہ کی خاطر ہونا ہی دنیا و آخرت میں سرخروہونے کا باعث ہے، امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: لاَ تُعَادِيَنَّ أَحَداً وَ إِنْ ظَنَنْتَ بِأَنَّهُ لاَ يَضُرُّكَ وَ لاَ تَزْهَدَنَّ فِي صَدَاقَةِ أَحَدٍ وَ إِنْ ظَنَنْتَ أَنَّهُ لاَ يَنْفَعُكَ؛ کسی سے دشمنی نہ کرو چاہے تم کو یہ گمان ہوکہ وہ تم کو ضرر نہیں پہنچائےگا، اور کسی کی دوستی ترک نہ کرو چاہے تم کو گمان ہوکہ اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ [أعلام الدین ،جلد 1، صفحه 299] کسی سے دوشمنی اس بنیاد پر مول لے لینا کہ یہ تو میرا کچھ بگڑا ہی نہیں سکتا اور کسی سے اس بنیاد پر دوستی کی کوشش کرنا کہ یہ میرے لیے آگے چل کر فائدہ مند واقع ہوگا نہایت برا عمل ہے اور اس سے معصوم علیہ السلام نے منع فرمایا ہے،دوستی اور دشمنی کا جذبہ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے اس لئے مومن کم گو اور اپنی لو اللہ سے لگانے والا ہوتا ہے، وہ اپنے جذبات، اپنے دکھ، اپنی خواہشوں اور تمناؤں کا اظہار سب سے زیادہ اپنے اللہ سے کرتا ہے کیونکہ وہی ایک وفادار دوست ہے، وہی ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے اور ہماری عزت نفس کا خیال رکھنے والا ہے (والذین آمنوا اشد حباً للہ) ۔انسانوں کے درمیان ہمیشہ ایک جیسے جذبات اور تعلقات نہیں رہتے، مزاجوں اور مفادات کا فرق ان میں ٹکراؤ پیدا کرتا ہے،بہت قریبی دوستوں میں نزاع ہو سکتا ہے کیونکہ اس کرۂ ار ضی میں انسانوں کے درمیان تعلقات کا ہر امکان موجود رہتا ہے، لیکن اگر دوستی یا دشمنی میں خدائے سبحان مدّ نظر ہو تو کوئی فرق نہیں کرتا کہ دشمن کون ہے یا دوست کون۔
منبع: علام الدين في صفات المومنين،ديلمي ، حسن بن محمد،بيروت، موسسه آل البيت لاحيا التراث ، م ۱۹۸۸ = .‬ق ۱۴۰۹ =۔

تبصرے
Loading...