دل کی بیماریوں کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ

خلاصہ: دل کی بیماریاں انسان کے اختیار سے انسان میں پیدا ہوتی ہیں، لہذا انسان اگر قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کا دامن تھام لے تو وہ صحت یاب ہوجائے گا، اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کا دل بے اختیار مریض ہوجائے۔

دل کی بیماریوں کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ

بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ دل کی بیماریاں غیراختیاری ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان ان کی روک تھام نہیں کرسکتا لہذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ داری اور مواخذہ نہیں ہے اور بعض نے کہا ہےکہ یہ اخلاقی امور ہیں اور ان کا شرعی طور پر حرام ہونا معلوم نہیں ہے۔ یہ بات کرنے والے نے سمجھا ہے کہ دل کے گناہ وہی غلط سوچیں ہیں جو بے اختیار آدمی کے دل سے گزرتی ہیں اور ان کی روک تھام نہیں کی جاسکتی اور یقیناً اس بارے میں ان کی ذمہ داری اور مواخذہ نہیں ہے۔
حالانکہ دل کے گناہ، سوچوں کے علاوہ ہیں بلکہ ایسی ثابت چیزیں ہیں جن کی جگہ دل ہے اور انسان اگر چاہے تو ان کو اپنے دل میں نہ رکھے یا اگر موجود ہوں تو ان کو اپنے دل سے نکال سکتا ہے۔
مثلاً کسی آدمی کے پاس آپ کوئی تازہ نعمت دیکھتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں آتا ہے کہ یہ نعمت کیوں اسے ملی ہے۔
اگر فوراً آپ نے اس سوچ کو شیطان سے سمجھا اور ایمان اور علم کے نور کے ذریعے اسے اپنے سے دور کردیا اور اپنے آپ سے کہا کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے اور یہ اس کی مصلحت کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ کے کام پر اعتراض کرنا کفر ہے اور وہ اس جیسی یا اس سے بہتر نعمت مجھے عطا کرنے پر قادر ہے، اس صورت میں آپ کے ذمہ کچھ نہیں اور وہ سوچ معاف ہے، لیکن اگر اس سوچ کو دل میں رکھ لیا اور اس بیچارہ سے اس نعمت کے چھِن جانے کی آرزو دل میں رکھ لی تو آپ دل کے گناہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جو حسد ہے۔
یا مثلاً کسی کی بات یا عمل سے آپ ناراض ہوتے ہیں اور آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہاں پر آپ حالانکہ اس کو نظرانداز اور معاف کرسکتے ہیں یا اس جیسا بدلہ لے سکتے ہیں، لیکن اس کی دشمنی کو دل میں رکھ لیتے ہیں اور اس سے جو آپ نے تکلیف دیکھی ہے اس سے زیادہ بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ دل کے گناہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جو مسلمان کے بارے میں کینہ ہے۔
جیسا کہ واضح ہے اِن دونوں مثالوں میں حسد اور کینہ ایسی چیزیں ہیں جو دل میں ثابت ہیں اور پیدا ہونے اور باقی رہنے کے لحاظ سے انسان کے اختیار میں ہیں یعنی آدمی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے دل میں نہ ٹھہرنے دے اور اس کے پیدا ہونے کے بعد اسے ختم کرسکتا ہے، لیکن پہلی سوچ اگرچہ کفرآمیز ہو، مگر کیونکہ اختیاری طور پر نہیں ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]

تبصرے
Loading...